ریکوڈک کیس: ورجن آئی لینڈ کی عدالت میں آج سے دوبارہ سماعت کا آغاز
اسلام آباد: جہاں برٹش ورجن آئی لینڈ (بی ویو آئی) میں جب ہائی کورٹ آف جسٹس میں آج پاکستان کے خلاف 5 ارب 97 کروڑ ڈالر کے ایوارڈ (ہرجانہ) کے نفاذ سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز کیا جائے گا وہیں اسلام آباد کو اُمید ہے کہ اس کی قانونی ٹیم اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ملک پر مزید کوئی منفی اثر نہ پڑے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیش رفت کی معلومات رکھنے والے حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'حکومت پاکستان نے بین الاقوامی کمپنیوں کے وکلا کی ایک ٹیم کو شامل کیا ہے اور وہ یقینی طور پر اس معاملے کا مقابلہ کرے گی تاکہ اس بات کا یقین کیا جاسکے کہ ہمارے اداروں اور اس کی جائیدادوں کے خلاف مزید منفی اثر نہیں پڑے'۔
کمپنی نے 20 نومبر کو ہرجانے کے نفاذ کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز انویسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے آئی ایل) کے اثاثے کی شمولیت بھی شامل تھی۔
16 دسمبر کو ہائی کورٹ نے پاکستان کا مؤقف سنے بغیر یکطرفہ طور پر اس پر حکم امتناع جاری کیا تھا تاہم حکومت اس کیس کی 7 جنوری 2021 کو ہونے والی سماعت میں پیروی کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی اپنی قانونی ٹیم کے علاوہ پاکستانی بی وی آئی کمپنیوں نے بھی اپنی ٹیم کو الگ سے مقرر کیا ہے اور وہ بی وی آئی عدالت میں پیش ہوں گے اور کیس لڑیں گے۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'اس قسم کے معاملے میں بلاتعصب پاکستان نے اس بات کو دہرایا ہے کہ حکومت، کمپنی کی جانب سے کسی بھی دائرہ کار میں شروع کی گئی کارروائی کی بھرپور پیروی کرے گی اور قومی اثاثے چاہے جہاں بھی ہوں حکومت نے ان کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا ہے'۔
بی وی آئی عدالت کے ذریعے وصول کنندہ کے تقرر کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ پاکستان یقینی طور پر اس اقدام کی مخالفت کرے گا، بی وی آئی عدالت نے 16 دسمبر کے اپنے حکم میں وصول کنندہ کو عبوری بنیاد پر مقرر کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کالو ایڈوائزرز کے وصول کنندہ پول پریٹلوف سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہوٹلوں کو مارکیٹ ریٹ سے کم نہیں بیچا جائے گا اور فروخت ہونے سے حاصل ہونے والی آمدنی کو محفوظ کیا جائے گا۔
منسلک کارروائی اور بی وی آئی ہائی کورٹ کے حکم کے بارے میں 23 دسمبر کو پاکستان کو آگاہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ریکوڈک کیس: پاکستان پر ہرجانہ نافذ کرنے کیلئے کمپنی کا ورجن آئی لینڈ کی عدالت سے رجوع
خیال رہے کہ ٹیتھیان آسٹریلیا کی بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی اینٹوفاگسا پی ایل سی کا برابر حصے کا جوائنٹ وینچر ہے جبکہ ریکوڈک جنوب مغربی بلوچستان میں ایک ضلع ہے جو اپنی معدی دولت بشمول سونے اور تانبے کی وجہ سے مشہور ہے۔
یہ جرمانہ تقریباً 6 ارب ڈالر کے برابر ہے، اس میں کمپنی کے نقصان کا ہرجانہ اور سود شامل ہے جو مجموعی طور پر پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار کے 2 فیصد کے برابر ہے۔
ریکوڈک تنازع
خیال رہے کہ آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل میں پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان یہ تنازع اس وقت زیر بحث آیا جب کمپنی نے 8 ارب 50 کرور ڈالر کا دعویٰ کیا جبکہ بلوچستان کی کان کنی اتھارٹی نے صوبے میں 2011 میں کئی ملین ڈالر کی کان کنی کی لیز دینے سے انکار کردیا تھا۔
جولائی 2019 میں آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل نے آسٹریلین کمپنی کو کان کنی کی لیز دینے سے انکار پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔
جس کے فوری بعد کمپنی نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کردی تھی، نومبر 2019 میں پاکستان نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہرجانے کی منسوخی کی درخواست کی تھی۔
رواں برس مارچ میں اٹارنی جنرل کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ پاکستانی حکومت ایسے مواقع تلاش کر رہی ہے جس کے تحت 5 ارب 90 کروڑ ڈالر کے جرمانے پر عملدرآمد پر حکم امتناع حاصل کیا جاسکے اور 8 نومبر 2019 کو انہوں نے 'آئی سی ایس آئی ڈی' کے 12 جولائی 2019 کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
اس ہرجانے کی منسوخی کی درخواست کے ساتھ پاکستان نے 18 نومبر 2019 کو ہرجانے کے نفاذ کو عارضی طور پر معطل کرنے کی بھی درخواست دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک: اربوں ڈالر کا راز
چنانچہ پاکستان کو منسوخی کی کارروائی شروع ہونے پر عارضی حکم امتناع دے دیا گیا تھا۔
16 ستمبر 2020 کو ٹریبونل نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ہرجانے کے نفاذ پر حکم امتناع کی تصدیق کی تھی۔
آئی سی ایس آئی ڈی اب بھی اس ہرجانے کے خلاف پاکستان کی اپیل پر غور کر رہی ہے جس کی آخری سماعت مئی 2021 کو ہوگی۔
ریکوڈک معاملہ تھا کیا؟
واضح رہے کہ ریکوڈک، جس کا مطلب بلوچی زبان میں 'ریت کا ٹیلہ' ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا گاؤں ہے جو ایران اور افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے۔
ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
جولائی 1993میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔
مزید پڑھیں: کوشش ہے ماضی میں ریکوڈک کی ٹھیکیدار کمپنی دوبارہ پاکستان میں کام کرے، وزیراعظم
بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کرلیا تھا۔
آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبہ کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو مجموعی آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔
تاہم بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی جانب سے بےقاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا، بعد ازاں صوبائی حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔
علاوہ ازیں جنوری 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
کمپنی کا نقطہ نظر
ٹیتھیان کمپنی کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ریکوڈک کان کنی منصوبہ 3 ارب 30 کروڑ ڈالر کی لاگت سے ایک ورلڈ کلاس کاپر، گولڈ اوپن پٹ مائن تعمیر کرنا اور اسے چلانا تھا۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ 1998 میں حکومت بلوچستان کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کے تحت اسے کان کنی کی لیز ملنی تھی جس کے لیے حکومت کی معمول کی شرائط تھیں۔
منصوبہ 2011 میں درخواست مسترد ہونے کے بعد رک گیا تھا اور پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ کان کنی کی لیز حکومت نے اس لیے ختم کردی کیونکہ اسے غیر شفاف طریقے سے حاصل کیا گیا تھا۔
اس وقت تک کمپنی ریکوڈک میں 22 کروڑ ڈالر کی رقم لگا چکی تھی چنانچہ کمپنی نے عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے 2012 میں مدد کی درخواست کی اور ٹریبونل نے 2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف فیصلہ سنایا۔
ٹریبونل نے منسوخ شدہ لیز سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ ٹیتھیان کے کان کنی سے 56 سال میں ممکنہ طور پر حاصل ہونے والے منافع کو فرض کر کے لگایا اور لیز منسوخ کرنے پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔