اسامہ ستی قتل کیس: عدالت کا تفتیشی افسر پر اظہارِ برہمی، ملزمان کا 7 روزہ ریمانڈ منظور
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نوجوان اسامہ ستی قتل کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر کے بیان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم سب ملے ہوئے ہو اور ساتھ ہی ملزمان کا 7 روزہ ریمانڈ منظور کر لیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے کیس کی سماعت کی جہاں گرفتار پانچوں ملزمان کو پیش کیا گیا اور جج کے سوال پر تفتیشی افسر نے کہا کہ پانچ ملزمان ہیں اور سب پیش ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں نوجوان کا قتل: پولیس ریکارڈ تضاد کے سامنے آنے پر سیل
جج نے استفسار کیا کہ اسلحہ برآمد ہو گیا ہے، جس پر پولیس نے جواب دیا کہ اسلحہ اور خول برآمد ہو گئے ہیں، عدالت نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ گاڑی کی تصویر لی گئیں ہیں، کہاں ہیں وہ تصاویر جس سیٹ پر گولی لگی تھی۔
عدالت کے استفسار پر پولیس نے بتایا کہ بچے کو پانچ گولیاں پیچھے سے لگیں، جس پر جج نے کہا کہ کیسی باتیں کر رہے ہو،کیا وہ ڈاکو تھا، وہ تو طالب علم تھا، مجھے تصاویر دکھائیں، تصاویر کہاں گئیں، بغیر سیٹ سے نکلے گولی نہیں لگ سکتی، جس سیٹ سے نکل کر پانچ گولیاں لگیں وہ تصویر دکھائیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ وہ تصویر نہیں ہے، جس پر وکیل مدعی نے کہا کہ چیزوں کو ٹیمپرڈ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب تصویر لی ہی نہیں گئی ہے، اس کا مطلب ہے تم سب ملے ہوئے ہو۔
جج نے کہا کہ گاڑی کے پیچھے کی تصویر لے کر آئے ہو لیکن وہ تصویر ہی نہیں جس میں سامنے سے گولی لگی۔
اس موقع پر مدعی کے وکیل نے کہا کہ یہ درندے ہیں، انہوں نے درندگی کرنی ہے یہ نہیں سدھریں گے جبکہ پولیس نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بن گئی ہے اور جوڈیشل انکوائری بھی ہو رہی ہے۔
وکیل مدعی راجا فیصل یونس نے کہا کہ یہ ریکارڈ اور شواہد کو ٹیمپرڈ کر رہے ہیں اور سارا ریکارڈ خراب کر رہے ہیں، گاڑی کو پیچھے سے گولیاں ماری گئی ہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ یہ سب چیزیں ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ گرفتار 5 پولیس اہلکاروں کا مزید 12 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
جس پر عدالت نے اسامہ ستی قتل کیس کے گرفتار ملزمان کا 7 روزہ ریمانڈ منظور کرلیا۔
سینیٹ کمیٹی اجلاس میں اسامہ ستی کے لواحقین بھی شریک
دوسری جانب سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اسامہ ستی کے ورثا بھی شریک ہوئے جبکہ کمیٹی نے اسامہ قتل کیس کی تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
سینیٹ کمیٹی نے متاثرہ خاندان کو تحقیقاتی عمل کا حصہ بنانے کی سفارش کر دی جبکہ کمیٹی کا آئندہ اجلاس 18 جنوری کو ہوگا تاہم اس سے قبل تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔
اجلاس میں سفارش کی گئی کہ پولیس متاثرہ خاندان سے تعاون کرے اور ان سے شواہد لے اور متاثرہ خاندان کو ہر تحقیقات میں شامل کیا جائے۔
کمیٹی کو اسامہ ستی قتل کیس پر ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد نے بریفنگ دی اور کہا کہ پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے 5 ملزمان کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بھی بنائی گئی ہے اور یقین دلاتے ہیں کہ پولیس متاثرہ خاندان کے ساتھ مل کر اس معاملے پر غیر جانب دار رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس سے پورے پولیس محکمے کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ 5 افراد نے انفرادی طور پر یہ قدم اٹھایا ہے۔
پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسامہ ستی کے لواحقین نے تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کر دیا اور کہا کہ گاڑی کے چاروں اطراف سے گولیاں چلائی گئیں، گاڑی کے اندر خون کے نشانات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی کے چاروں ٹائر بالکل ٹھیک تھے، گاڑی کو تھانے میں کھڑا کر کے پیچھے سے گولیاں ماری گئی ہیں، کھڑی گاڑی کو گولیاں مار کر کیس خراب کیا جا رہا ہے۔
لواحقین نے کہا کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے گاڑی رکی نہیں ہو اور مجبوراً پیچھے سے فائرنگ کرنی پڑی اس لیے پولیس پر اعتبار کا کوئی جواز نہیں رہا۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ گاڑی پر فائرنگ ایک طرف سے نہیں ہوئی، فرانزک کروائی گئی ہے لیکن ابھی رپورٹ نہیں آئی۔
لواحقین نے کہا کہ ہمیں نہ جے آئی ٹی میں بلایا گیا نہ ہی جوڈیشل انکوائری کے سامنے طلب کیا گیا، ہم سے کوئی معلومات اور شواہد نہیں لیے گئے۔
کمیٹی کی رکن کرشنا کماری نے کہا کہ ساہیوال میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا اور ملزمان باعزت بری ہوگئے۔
انہوں نے ڈی آئی جی سے پوچھا کہ اسلام آباد کے کتنے پولیس والے جرائم پیشہ واقعات میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، جس پر ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ پولیس اہلکاروں سے متعلق تمام تفصیلات موجود ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز کا کہنا تھا کہ جرائم پیش وارداتوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات پیش کر دیں گے۔
یاد رہے کہ 2 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ علاقے میں گشت پر مامور اے ٹی ایس کے اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا اور کالے شیشوں والی اس مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس نے متعدد مرتبہ جی-10 تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے بدقسمتی سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
دوسری جانب نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیا اور مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئیں اور مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفیٰ، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا۔
نوجوان کے والد ندیم یونس ستی نے مقدمے میں مؤقف اپنایا کہ میرا جواں سالہ بیٹا اسامہ ندیم ستی میرے ساتھ جی-10 مرکز میں کاروبار کرتا تھا اور وہ 2 جنوری کی رات تقریباً 2 بجے اپنے دوست کو ایچ-11 نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا تو مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں جن سے ایک دن قبل میرے بیٹے کی تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا، جس کا ذکر میرے بیٹے نے مجھ سے کیا تھا۔
والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے، جس کے بعد رات 2 بجے ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کیا اور ٹکر ماری جس کے بعد انہوں نے روک کر مین شہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔
انہوں نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ میرے بیٹے کی جان معمولی تلخ کلامی کی وجہ سے لی گئی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میرے بیٹے کو ان پولیس کی وردی میں موجود ’درندوں‘ نے ناحق قتل کیا۔