کان کنوں کے لواحقین کا اپنے پیاروں کی میتیں دفنانے سے انکار
کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں 11 کان کنوں کے سفاکانہ قتل پر ان کے لواحقین اور ہزاروں افراد نے مغربی بائی پاس پر میتیں رکھ کر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور انہوں نے اپنے پیاروں کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حملہ آوروں کو گرفتار کیا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایات پر پیر کو وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کوئٹہ پہنچے اور سوگورا برادری سے مذاکرات کیے۔
انہوں نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ حکومت، صوبائی حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبے کے سوا ان کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہے، ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ وہ اپنا مظاہرہ ختم کرے تاکہ لاشوں کو دفنایا جاسکے۔
تاہم ہزارہ برادری نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور صوبائی دارالحکومت میں انتہائی سرد موسم کے باجود خواتین اور بچوں سمیت لواحقین نے مغربی بائی پاس چھوڑنے سے انکار کردیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت گھر جائے اور واقعے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔
مزید پڑھیں: کان کنوں کا قتل: ہزارہ برداری کے سوگواروں کا انصاف کا مطالبہ
اس واقعے میں اپنے گھر کے 5 افراد کو کھونے والی تھڑڈ ایئر کی طالبہ معصومہ یعقوب علی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خاندان میں کوئی مرد زندہ نہیں رہا جو میرے بڑے بھائی اور دیگر 4 رشتہ داروں کو دفنا سکے‘۔
انہوں نے کہا کہ ان کے 5 بہن بھائیوں میں ان کا بھائی والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور گھر کا واحد کمانے والا تھا۔
مظاہرین سے مذاکرات کے دوران شیخ رشید نے برادری کو یقین دہانی کروائی کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس موقع پر شیخ رشید احمد نے مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اعلان کیا کہ ہر متاثرہ فرد کے خاندان کو 25 لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’مچھ میں قتل عام پر مجھے شدید افسوس ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ہزارہ برادری کے مطالبات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا جائے گا، ساتھ ہی انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں کو کہا کہ وہ اسلام آباد میں وزیراعظم سے ملاقات کے لیے 5 یا 7 رکنی کمیٹی تشکیل دیں۔
علاوہ ازیں سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ 2 کوئلہ کان کنوں کی لاشوں کو افغانستان بھیج دیا گیا۔
ایم ڈبلیو ایم کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ’خاندان کے افراد 2 لاشوں کو تدفین کے لیے انہیں افغانستان میں اپنے آبائی علاقے لے گئے‘۔
احتجاج کے مقام پر ہزارہ برادری کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچستان شیعہ کانفرنس کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
اس مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے صدر سید آغا رضا نے اعلان کیا کہ جب تک ہزارہ برادری کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے لاشوں کو نہیں دفنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: مچھ میں اغوا کے بعد 11 کان کنوں کا قتل
انہوں نے کہا کہ ’ہم ہزارہ افراد کے تحفظ کے لیے دھرنا دے رہے ہیں جو ایک طویل عرصے سے اس طرح کے قتل کا سامنا کر رہے ہیں اور اس صورتحال سے تنگ آچکے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو مستعفی ہونا چاہیے کیونکہ وہ ہزارہ برادری کے افراد کا تحفظ کرنے میں مسلسل ناکام ہوگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت کے مستعفی ہونے تک ہم یہ احتجاج جاری رکھیں گے‘، مزید یہ کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے موجودہ اور ریٹائرڈ ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دھرنا مذاکرات کے لیے وزیراعظم عمران خان کے آنے تک جاری رہے گا تاکہ قاتلوں کی گرفتاری کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
علاوہ ازیں صوبائی وزرا میر ظہور احمد بلیدی اور نور محمد ڈمر اور ڈپٹی کمشنر اورنگزیب بادینی نے بھی ایم ڈبلیو ایم رہنماؤں سے مذاکرات کیے تاہم یہ ناکام رہے کیونکہ احتجاج کرنے والے رہنماؤں نے مذاکرات کے لیے وزیراعظم کے آنے تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔
دریں اثنا پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے 11 کان کنوں کے قتل پر نامعلوم عسکریت پسندوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او مچھ پولیس پر بخش بگٹی کی شکایت پر نصیرآباد تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 اور 324 اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
اس خبر میں ڈیرہ مراد جمالی سے علی جان منگی نے بھی معاونت کی