ریپ کی تصدیق کے لیے فنگر ٹیسٹ غیر قانونی قرار
لاہور ہائی کورٹ نے زیادتی کی شکار خواتین کے طبی معائنے کے لیے مخصوص ٹو فنگر ٹیسٹ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے 30 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا اور ریپ متاثرہ خواتین کے ٹیسٹ کے طریقہ کار کو مسترد کردیا۔
مزید پڑھیں: جنسی استحصال کے متاثرین کی جانچ کے ٹیسٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
فیصلے میں کہا گیا کہ جنسی زیادتی کیس میں ٹو فنگر ٹیسٹ کی کوئی فرانزک اہمیت نہیں ہے اور ٹو فنگر ٹیسٹ زیادتی کی شکار خواتین کی تکریم کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹو فنگر ٹیسٹ آئین میں دیے گئے آرٹیکل 9 اور 14 سے متصادم ہے، ٹو فنگر ٹیسٹ متاثرہ خواتین سے امتیازی سلوک اور آئین کے آرٹیکل 25 کے منافی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت زیادتی کی شکار خواتین کے ٹو فنگر ٹیسٹ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے ہدایت کی کہ حکومت پنجاب جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے طبی معائنے کے لیے بین الاقوامی معیار کے پروٹوکول وضع کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 'تمام متعلقہ حکام کو اس حوالے سے تربیت اور آگاہی فراہم کی جائے کہ اس ٹیسٹ کی طبی اور فرانزک سطح پر کوئی اہمیت نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب نے 2 انگلیوں کا ٹیسٹ ختم کردیا
لاہور ہائی کورٹ نے نومبر 2020 میں مفاد عامہ کی بنیاد پر دائر دو درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
حکومت پنجاب نے ٹوفنگر ٹیسٹ ختم کر دیا
خیال رہے کہ جسٹس عائشہ اے ملک نے فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل ٹیسٹ کو ختم کرنے میں تاخیر پر حکومت پنجاب پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت وعدہ کرنے کے باوجود مذکورہ قانون سازی کے لیے ڈرافٹ پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حکومت پنجاب نے اس کے دو روز بعد 13 نومبر کو ٹوفنگر ٹیسٹ کے خاتمے کا ایک نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں اور اداروں میں جنسی استحصال سے متاثرہ افراد کے لیے میڈیکل چیک اپ سے متعلق نظرثانی کیے گئے قواعد کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
میڈیکو لیگل سرجنز کے لیے جاری گائیڈ لائنز میں کہا گیا تھا کہ دو انگلیوں کا ٹیسٹ نہیں کیا جائے اور خواتین تحفظ قانون ایکٹ 2006 کے مطابق صرف عدالتی حکم پر متاثرہ افراد کا معائنہ کیا جائے۔
متاثرہ خاتون کا معائنہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 299 کے مطابق کسی مجاز خاتون میڈیکل افسر (ڈبلیو ایم او) یا بورڈ کے ذریعے یقینی بنایا جائے، متاثرہ خاتون (بالغ اور نابالغ) میڈیکل افسر کو طبی معائنے یا شواہد اکٹھے کرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'جنسی استحصال کا شکار افراد کے کنوارے پن کو جانچنے کا ٹیسٹ ختم کردیا جائے گا'
محکمہ صحت کو ہدایت کی گئی تھی کہ معائنہ آنکھوں کے سامنے، میگنفائنگ لینس اور گلیسٹر کین گلاس کی راڈ سے کیا جائے جبکہ ٹو فنگر ٹیسٹ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں مذکورہ درخواستیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک اور خواتین کے حقوق کی کارکنان، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور وکلا کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جس میں صدف عزیز، فریدہ شاہد، فریحہ عزیز، فرح ضیا، سارہ زمان، ملیحہ ضیا لاری، ڈاکٹر عائشہ بابر اور زینب حسین شامل تھیں۔
شائستہ پرویز ملک اور دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے خواتین کے طبی معائنے کے لیے ٹو فنگر ٹیسٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
ایڈووکیٹ سحر زرین بندیال اور بیرسٹر سمیر کھوسہ نے عدالت میں درخواست گزاروں کے نمائندگی کی۔