• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

عمر شیخ کو سی سی پی او لاہور کے عہدے سے ہٹا دیا گیا

عمر شیخ—فائل فوٹو: ڈان نیوز
عمر شیخ—فائل فوٹو: ڈان نیوز

نئے سال کے پہلے ہی روز پنجاب پولیس میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) عمر شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 20 کے عمر شیخ کو اسی تنخواہ پر ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس/ڈپٹی کمانڈنٹ پنجاب کانسٹیبلری فاروق آباد کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ان کی جگہ محکمہ پولیس میں 14 سال کا تجرنہ رکھنے والے غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او لاہور کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور سمیت 3 پولیس افسران کی ترقی کا معاملہ غیر یقینی کا شکار

خیال رہے کہ غلام محمود ڈوگر فیصل آباد کے آر پی او کے علاوہ کیپٹل پولیس افسر (سی پی او) لاہور کے عہدے پر اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔

نئے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر—تصویر: عامر وسیم
نئے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر—تصویر: عامر وسیم

سی سی پی او لاہور تعینات ہونے والے غلام محمود ڈوگر کا شمار پاکستان پولیس سروس کے انتہائی پروفیشنل، قابل، ایماندار اور فرض شناس پولیس افسران میں ہوتا ہے، وہ ان دنوں سینٹرل پولیس آفس میں ڈی آئی جی ٹیکنیکل پروکیورمنٹ کے عہدے پر فرائض دے رہے تھے جبکہ اس سے قبل وہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف شہروں میں انتہائی اہم عہدوں پر اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔

غلام محمود ڈوگر 1963میں پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے بی ایس سی سول انجینئرنگ اور ایم ایس سی کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، غلام محمود ڈوگر نے 1993میں بطور اے ایس پی پولیس سروس پاکستان جوائن کی اور ان کا تعلق اکیسویں کامن سے ہے۔

سابق سی سی پی او لاہور سینئر افسران کے ساتھ اپنے اختلافات اور ماتحتوں سے نامناسب رویوں اور بیانات کے باعث خاصے تنازعات میں گھرے رہے۔

نمزید پڑھیں: سی سی پی او لاہور کے اپنے ذاتی سیکریٹری کو 'گرفتار' کروانے پر ملازمین کا احتجاج

عمر شیخ اس وقت خبروں میں نمایاں ہوئے تھے جب ان سے اختلافات کے سبب گزشتہ برس 9 ستمبر کو سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب شعیب دستگیر کی جگہ انعام غنی کو آئی جی تعینات کردیا گیا تھا۔

بعدازاں آئی جی پنجاب انعام غنی کے اختیارات کو بھی چیلنج کرتے ہوئے انہوں ایک پنڈورا بکس کھول دیا تھا کہ لاہور میں ڈی ایس پیز کا تقرر آئی جی پولیس کے بجائے سی سی پی او کا دائرہ اختیار ہونا چاہیے۔

اس کے بعد حکومت پنجاب نے سی سی پی او سے اختلافات کے بعد لاہور کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شہزادہ سلطان کا بھی تبادلہ کردیا گیا تھا۔

بعدازاں 15 اکتوبر کو عمر شیخ نے لفظی تکرار کے بعد تفتیشی ایجنسی (سی آئی اے) کے ایس پی عاصم افتخار کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے تھے جنہیں بعد میں انہوں نے اپنے سینئرز کی مداخلت پر واپس لے لیا تھا۔

تاہم اگلے ہی روز حکومت پنجاب نے عاصم افتخار کا بھی تبادلہ کرکے ایس پی ہیڈکواٹرز ٹریفک پنجاب تعینات کردیا تھا۔

اس کے علاوہ سی سی پی او لاہور کے رویے سے تنگ آکر 2 پولیس اہلکاروں نے ٹرینگ اسسٹنٹ سب انسپکٹر (ٹی- اے ایس آئی) اور ہیڈ کانسٹیبل نے انسپکٹر جنرل پولیس انعام غنی کو سی سی پی او کے رویے سے متعلق شکایت بھی کی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ سابق سی سی پی او عمر شیخ نے کئی رسمی اور غیر رسمی ملاقاتوں میں سینئر افسران کے خلاف مبینہ طور پر 'نامناسب الفاظ' بھی استعمال کیے تاہم پولیس فورس اس وقت گھبرا گئی تھی جب سی سی پی او نے کچھ عہدیداروں کو گرفتار کیا اور محکمہ جاتی طریقہ کار کو بائی پاس کرتے ہوئے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔

تاہم سب سے زیادہ مخالفت اور تنقید کا سامنا انہیں موٹروے گینگ ریپ واقعے کے بعد اپنے ایک متنازع بیان پر کرنا پڑا تھا جس میں انہوں نے متاثرہ خاتون پر ہی واقعے کی ذمہ داری ڈال دی تھی۔

سی سی پی او لاہور نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: سی سی پی او لاہور نے اپنے بیان پر معذرت کرلی

انہوں نے کہا تھا کہ کہ ان کی گاڑی ہرگز خراب نہیں ہوئی اور ایک بجے جیسے ہی انہوں نے ٹول پلازہ عبور کیا ہے تو اس کے چار کلومیٹر بعد ان کا پیٹرول ختم ہو گیا لیکن وہ کن حالات میں اتنی رات کو جا رہی تھیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا بلکہ ان کے اہلخانہ کو اس بارے میں زیادہ پتا ہو گا۔

تاہم اس بیان پر عوام، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت تنقید اور حکام بالا کے نوٹس لینے پر انہیں اپنے بیان پر معذرت کرنی پڑی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024