بنیادی حقوق سے بھی محروم سندھ کے بے یار و مددگار خاکروب
ارشد بوٹا مسیح (فرضی نام) بہت تھکا ہوا نظر آرہا تھا، اس کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا، چہرے کی ہڈیاں نمایاں ہوچکی تھیں اور انکھوں کے نیچے سوجن نظر آرہی تھی۔ اس کے کانپتے ہوئے ہونٹ اس بات کا اشارہ دے رہے تھے کہ شاید وہ بہت مشکل سے کورونا سے جنگ جیتا ہے۔
45 سالہ بوٹا ایک خاکروب ہے جو کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن کے محلے نارائن پورہ میں رہتا ہے۔ اس محلے میں زیادہ تر کم آمدن والے غیر مسلم خاندان رہتے ہیں۔ محکمہ صحت سندھ کی جانب سے بوٹا مسیح کی 6 ماہ کی تنخواہ واجب الادا ہے اور اس وجہ سے بوٹا اب قرض میں ڈوب چکا ہے۔ کورونا وائرس نے بوٹا مسیح کی جان تو بخش دی، مگر اسے انتہائی غربت میں بھی دکھیل دیا ہے۔
بوٹے نے اب دوبارہ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ 8 گھنٹے کی شفٹ کے دوران ایک سرکاری اسپتال کا وارڈ صاف کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے ماضی کا سایہ بن کر رہ گیا ہوں۔ ڈاکٹروں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آرام کروں اور قوت بخش غذا کھاؤں لیکن مجھے اپنے گھر والوں کو بھی پالنا ہے۔ میری تمام جمع پونجی علاج پر خرچ ہوچکی ہے اور متبادل آمدن کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ اگر میں دوبارہ اس وائرس کا شکار ہوگیا تو شاید نہ بچ سکوں‘۔
پورے ملک میں صفائی ستھرائی سے متعلق عملے کی بنیادی ذمہ داری باتھ روم صاف کرنے، گڑھے اور سیپٹک ٹینک صاف کرنے اور مین ہول صاف کرنا ہے۔ اکثر اوقات تو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے سیوریج کے بند پائپوں کو کھولتے ہیں، وہی پائپ جہاں سے اسپتال کا سامان، پلاسٹک بیگز اور انسانی فضلہ گزرتا ہے۔ چونکہ یہ کام ناپاک سمجھے جاتے ہیں اس لیے اکثر مسلمان اسے کرنے سے کتراتے ہیں اور یہ ملازمت عموماً غیر مسلموں کو دی جاتی ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک متعصب عمل ہے۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس نوکری کے لیے مطلوب افراد کا 80 فیصد مسیح برادری پورا کرتی ہے، جبکہ بقیہ افراد میں نچلی ذات کے ہندو شامل ہوتے ہیں۔
ایک بین الاقوامی این جی او واٹر ایڈ نے 24 جون 2020ء کو ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا وبا نے پہلے سے ہی مشکلات کے شکار خاکروب افراد کو مزید پریشان کردیا ہے۔
رپورٹ کا ایک اقتباس ہے کہ ’لاک ڈاؤن سے ان کے مختلف ذرائع آمدن متاثر ہوئے اور ان کی ماہانہ آمدن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ سے انہیں گھروں کے کرائے، بِلوں اور اسکول کی فیسوں کی ادائیگی اور قرضوں کی واپسی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنی ملازمت کی جگہوں یا رشتہ داروں سے مدد لی۔ انہوں نے دکانداروں سے ادھار پر چیزیں خریدیں، اسکولوں سے فیسوں میں رعایت مانگی، اپنے اثاثے فروخت کیے اور اخراجات میں کمی کی‘۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اکثر ملازمین کام کرتے رہے بلکہ ان پر کام کا دباؤ بھی زیادہ تھا۔ باقی لوگوں نے یا تو دفاتر بند ہونے کی وجہ سے کام چھوڑ دیا تھا یا انہیں نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اکثر خاکروب جو یا تو نجی اداروں سے وابستہ تھے یا لوگوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے، انہیں چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا اور اس دوران ان کو تنخواہیں بھی ادا کی جارہی تھیں۔
اگرچہ نجی اداروں میں کام کرنے والے خاکروب کو نوکری کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا لیکن کانٹریکٹ پر سرکاری نوکری کرنے والوں کی حالت بھی کچھ الگ نہیں ہے، ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ سندھ حکومت کی جانب سے بھی گزشتہ 6 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔
پیربھو ستیانی حیدرآباد میں اسٹرینتھننگ پارٹیسیپنٹری آرگنانائزیشنز (ایس پی او) کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سندھ حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے کم از کم تنخواہ کے بل کے تحت صفائی ستھرائی کے عملے کو بھی ماہانہ 17600 روپے تنخواہ ملنی چاہیے لیکن عملی طور پر انہیں صرف 6 ہزار روپے ملتے ہیں وہ بھی کئی ماہ کی تاخیر سے۔ حکومت نے گزشتہ 6 ماہ سے ان کی تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں‘۔
امپلیمینٹیشن مائینارٹی رائٹس فورم (آئی ایم آر ایف) کے چیئرمین سیمیوئل پیارا کا کہنا ہے کہ ’صفائی ستھرائی کے عملے کو صرف مالی مشکلات ہی درپیش نہیں ہیں بلکہ کام کے محفوظ طریقہ کار کا نہ ہونا بھی ان کی زندگیوں کے لیے خطرے کا باعث ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ اس وقت کراچی سے کشمیر تک خاکروب پریشانی کا شکار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک خاص ذہنیت ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے وار جاری ہیں اور عدالت عظمیٰ کے احکامات کے باوجود بھی خاکروب یا تو بغیر حفاظتی سامان کے کام کر رہے ہیں یا پھر ان کو دیا جانے والا حفاظتی سامان ناقص ہے‘۔
واٹر ایڈ نے اپنی رپورٹ میں یہ بات بھی کی کہ خاکروب کو دیے جانے والا حفاظتی سامان خاص طور پر ماسک اور دستانے ناقص معیار کے تھے۔ ان اشیا کی قلت کے ساتھ ساتھ ملازمین نے ان کے استعمال میں دقت اور بار بار خریداری کی شکایت بھی کی۔
8 جون 2020ء کو دیے گئے اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے تمام اداروں کو پابند کیا کہ خاکروبوں کو درکار تمام حفاظتی سامان مہیا کیا جائے تاکہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران ان کی صحت محفوظ رہے۔
مزکورہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’عدالت نے نوٹ کیا ہے کہ اگرچہ خاکروبوں کو صفائی ستھرائی کے کاموں کے لیے نوکری پر رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈالا جائے۔ ان سے اپنی ذمہ داریوں سے زیادہ کام نہیں کروانا چاہیے۔ اگر ان سے کوئی ایسا کام لیا جائے جس سے ان کے متاثر ہونے یا بیمار ہونے کا ذرا بھی امکان ہو تو صوبائی اور وفاقی حکومتوں، بلدیاتی حکومتوں، کنٹونمنٹ بورڈز، اسلام آباد کیپیٹل ٹریرٹری اور گلگت بلتستان حکومت کو چاہیے کہ ان ملازمین کو حفاظتی سامان مہیا کیا جائے اور اس کے بغیر ان سے کام نہ لیا جائے‘۔
عدالت کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر اب تک مزکورہ اداروں اور حکومتوں کی جانب سے اس ضمن میں قانون سازی نہیں کی گئی ہے تو وہ کرلی جائے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 9 کی رو سے ایک اہم ضرورت ہے۔
سیمیوئل کا کہنا تھا کہ ’عدالتی حکم کے باوجود خاکروبوں کو کوئی حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا گیا۔ یہ ملازمین کورونا اور دیگر بیماریوں کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ اسپتالوں میں طویل دورانیے تک کام کرتے ہیں اور طبّی فضلے کے قریب رہتے ہیں۔ لیکن انہیں صرف جھوٹے وعدے ہی مل رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اٹارنی جنرل نے مجھ سے کہا کہ میں اس ضمن میں ایک بل تیار کرکے دوں انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ یہ بل ایوان میں پیش ہوگا۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اس دوران کے پی آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ بل 2020ء بل پاس کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خاکروب آج بھی پہلے ہی کی طرح خطرات سے دوچار ہیں۔ اس ضمن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی عدالتی حکم پر کوئی عمل ہوا ہے‘۔
اس حوالے سے سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور ان کی میڈیا ٹیم سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔
اگرچہ ریاست نے اس مسئلے کی سنجیدگی کو تسلیم کرلیا ہے لیکن ابھی بھی خاکروبوں کی حفاظت کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بوٹا مسیح کہتا ہے کہ ’ہم اپنا طرزِ زندگی بدلنے کی بات نہیں کر رہے، ہم تو بنیادی ضروریات مانگ رہے ہیں۔ کیونکہ آج ہماری زندگیاں داؤ پر ہیں اور ہماری مدد کرنے والا کوئی ہیں ہے‘۔
یہ مضمون 13 دسمبر 2020ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں