• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

بولی کا عمل شروع کرنے سے متعلق دیے گئے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر عدالت برہم

شائع December 19, 2020
عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمباکو مصنوعات کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگانے کے لیے ٹھیکہ دینے کے لیے بولی کا نیا عمل شروع کرنے سے متعلق دیے گئے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین سمیت وفاقی حکومت سے وضاحت طلب کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس فیض احمد انجم جاندران پر مشتمل ڈویژن بینچ نے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونکیشن کارپوریشن (این آر ٹی سی) اور وزارت قانون کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کے بعد حکم جاری کیا۔

دوران سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے اعتراض اٹھایا کہ ایک سنگل رکنی بینچ نے غلط طور پر قانون کی تشریح کی تھی اور فیصلے کو ختم کردیا تھا، لہٰذا میری عدالت سے درخواست ہے کہ وہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے حکومتی وکیل سے معلوم کیا کہ آیا سنگل رکنی بینچ کے حکم پر عملدرآمد ہوا یا نہیں، اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا۔

مزید پڑھیں: تمباکو مخالف تنظیموں کا سگریٹ کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ

اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے جواب پر جج نے برہمی کا اظہار کیا اور چیئرمین ایف بی آر اور وزارت قانون و انصاف سے وضاحت طلب کرلی۔

عدالت نے چیئرمین کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ فیصلے پرعمل درآمد میں تاخیر کی وضاحت کے لیے ممبر کے رینک سے کم افسر اور وزارت قانون کے معاملے میں ایڈیشنل سیکریٹری کو تعینات کرے۔

بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 21 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ مئی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملک میں تمباکو مصنوعات کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگانے کے لیے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونکیشن کارپوریشن کو ایف بی آر کی جانب سے دیے گئے اربوں ڈالر کے لائسنس کو ختم کردیا تھا اور بیورو کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ نئے سرے سے بولی کا عمل شروع کرے۔

جسٹس میاں گل احسن نے 2 کمپنیوں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فیسی لی ایشن ٹیکنالوجیز (پرائیوٹ) (این آئی ایف ٹی) اور آتھین ٹکس انک کی دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔

کمپنیوں نے 29 اکتوبر 2019 کے ایف بی آر کے اس خط پر تنقید کی تھی جو تمباکو مصنوعات کے لیے ٹریکنگ اینڈ ٹریسنگ سسٹم لگانے کے پورے عمل کی تشکیل، برقرار رکھنے اور چلانے کے لیے 5 سال کی مدت کے لیے 731 روپے فی ہزار اسٹیپمس کی قیمت پر ایف آر ٹی سی کو لائسنس دینے سے متعلق تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان نے 2004 میں تبماکو کنٹرول پر فریم ورک کنوینشن (ای سی ٹی سی) کی توثیق کی تھی اور 29 جون 2018 کو تمباکو مصنوعات میں غیرقانونی تجارت کو ختم کرنے کے لیے ایف سی ٹی سی پروٹوکول کی منظوری دی تھی۔

ایف سی ٹی سی پروٹوکول کا آرٹیکل 8.2 کے مطابق پاکستان کے لیے تمباکو مصنوعات کی تیاری، ان کی درآمدگی یا اپنے حصے میں نقل و حرکت کے لیے ٹریکنگ اور ٹریسنگ سسٹم قائم کرنا ضروری ہے۔

غیرقانونی تجارت سے نمٹنا

ملک کو اپنی قومی ضرورت کو پورا کرنے لیے اس منصوبے کا آغاز کرنا تھا تاکہ اس کی آمدنی کی نگرانی اور تحفظ کیا جائے جبکہ اس کی سرحدوں کے درمیان تمباکوں مصنوعات کی غیرقانونی تجارت کو اعلیٰ سطح پر دور کیا جائے۔

وہی آمدنی کی لیکیج (رساؤ) کو روکنے، تمباکو مصنوعات کی پیداوار و فروخت کی انڈر رپورٹنگ اور تمباکو مصنوعات کی تیاری اور فروخت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مناسب ادائیگی کو یقینی بنانے کے تناظر میں ایف بی آر کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (ٹی ٹی ایس) پر عملدرآمد کے لیے لائسنس کا اختیار دیا گیا تھا۔

پاکستان میں تیار اور درآمد کیے جانے والی تمباکو مصنوعات کے لیے لائسنس دہندگان کی جانب سے نظام کو تیار کرنے اور چلانے کی ضرورت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو نوشی سے صحت کے مسائل، پاکستان دنیا کے سر فہرست 15 ممالک شامل

اس حوالے سے گزشتہ برس 6 اگست کو ایف بی آر نے ٹی ٹی ایس نظام کی تیاری اور اس کو چلانے لیے سیلز ٹیکس رولز 2006 کے تحت 5 سالہ مدت کے لیے لائسنس جاری کرنے کے لیے درخواستیں طلب کرنے کی غرض سے اخبارات میں ایک اشہتار شائع کیا تھا۔

مذکورہ لائسنس تکنیکی لحاظ سے قابل اس بولی دہندہ کو دیا جانا تھا جس کی بولی مالی اعتبار سے سب سے کم تھی، اس سلسلے میں بولیاں جمع کرانے کی تاریخ کو 5 ستمبر سے 27 ستمبر تک بڑھا دیا گیا تھا۔

27 ستمبر 2019 کو 13 بولی دہندگان نے اپنی بولیاں جمع کرائی تھیں جس میں سے 5 کو ’غیر مؤثر‘ قرار دیا گیا تھا، این آئی ایف ٹی کی جانب سے فی ہزار اسٹیمپس کے لیے 868 روپے 36 پیسے کی بولی لگائی گئی تھی جبکہ آتھینٹکس کی جانب سے 1250 روپے اور این آر ٹی سی کی جانب سے 0.731 روپے تھی۔

بعد ازاں 15 اکتوبر کو پی پی آر اے کی ویب سائٹ پر بولی کی جائزہ رپورٹ شائع کی گئی، تاہم 17 اکتوبر کو این آر ٹی سی نے ایف بی آر کو بتایا کہ اس نے 0.731 روپے کی بولی دی تھی جو ایک یونٹ کی تھی اور جب اسے 1000 سے ضرب دیتے ہیں تو یہ 731 روپے فی ہزار اسٹیمپس بنتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024