محمد عامر: عروج و زوال کی مختصر مگر بھرپور داستان!
’مجھ پر ذہنی تشدد کیا جا رہا ہے، میں اس انتظامیہ کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیل سکتا‘، یہ الفاظ تھے محمد عامر کے جنہوں نے لنکا پریمیر لیگ کے اختتام پر انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
محمد عامر کے اس فیصلے کی ظاہری وجہ وقار یونس کا پاکستانی میڈیا کو حالیہ انٹرویو بنا، جس میں وقاریونس نے محمد عامر کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کی وجہ بجائے ورک لوڈ کے ’کچھ اور‘ قرار دی تھی۔
وقار یونس کے اس انٹرویو سے ایسا لگا تھا جیسے عامر پاکستان سے کھیلنے کے بجائے پیسے کے لیے کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ محمد عامر نے پچھلے سال ون ڈے ورلڈکپ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ محمد عامر کے بقول ریٹائرمنٹ کی وجہ ان کا ورک لوڈ تھا۔ عامر کے مطابق ان کا جسم تینوں فارمیٹ کی کرکٹ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا اور وہ اپنے ون ڈے اور ٹی20 کیریئر کو طول دینے کے لیے ٹیسٹ کرکٹ سے دُور ہوئے ہیں۔
محمد عامر کا کیریئر 2009ء میں شروع ہوا تھا، جب وہ محض 16 سال کے تھے۔ ٹی20 ورلڈکپ کے فائنل میں ان کا پہلا اوور پاکستان کے چمپیئن بننے کی اہم وجہ ثابت ہوا تھا۔ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر تلکارتنے دلشان کو عامر نے جس طرح پہلے ہی اوور میں زچ کرکے آؤٹ کیا تھا، اسی وکٹ نے پاکستانی ٹیم کی فتح کی بنیاد رکھی تھی۔
پھر اسی سال دورہ آسٹریلیا پر محمد آصف کے ساتھ عامر کی جوڑی بنی تو ایسا لگا تھا کہ پاکستان کو وسیم اکرم اور وقار یونس دوبارہ مل گئے۔ اس کے بعد دورہ انگلینڈ کے دورے پر بھی دونوں بہترین فارم میں تھے، لیکن وہی انگلینڈ کا دورہ بربادی اور ذلت کے ایسی داستان میں بدل گیا جس نے پاکستان کرکٹ کا راستہ ہی بدل دیا۔
اگرچہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو ایک بہتر راستے پر ضرور گامزن کردیا لیکن پاکستان نے 2 ایسے بہترین باؤلرز کھودیے جن کی کمی آج تک پوری نہیں ہوسکی۔
کہتے ہیں کہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے دوران اور بعد میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے محمد عامر کے ساتھ نرم رویہ اپنایا اور اپنی ہمدردی کا سارا جھکاؤ انہی کی طرف رکھا۔ اس کی ٹھیک وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ ایسا عامر کی کم عمری کی وجہ سے کیا گیا، ان کے خاص ٹیلنٹ کی وجہ سے یا پھر اس لیے کہ انہوں نے اقرارِ جرم کرلیا تھا۔ لیکن دوسری طرف محمد آصف اور سلمان بٹ کے ساتھ کرکٹ بورڈ نے سوتیلے بیٹوں جیسا سلوک کیا، اور یقیناً یہ دونوں اس کے حقدار بھی تھے، لیکن عامر کو جو حمایت فراہم کی گئی، وہ شاید کسی بھی طور پر اس کے حقدار نہیں تھے۔
یہ درست ہے کہ محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کے بعد انہیں کچھ عرصے تک ہر میچ کھلایا گیا اور اس دوران انہوں نے بہت زیادہ باؤلنگ کی، لیکن یہ سلسلہ صرف سال بھر کے لیے تھا۔
2016ء میں جہاں عامر نے 10 ٹیسٹ میچ کھیلے، وہیں عامر کو 2017ء میں 6 اور 2018ء میں 4 ٹیسٹ میچ ہی کھلائے گئے۔ پھر 2019ء میں جب انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا، تب تک اس سال انہوں نے صرف 2 ٹیسٹ میچ ہی کھیلے تھے۔ تو جہاں تک بات محمد عامر کے ورک لوڈ کو مینیج کرنے کی ہی تو اس پر تو بدستور کام جاری تھا۔ ٹیسٹ سے ریٹائرمنٹ سے ایک سال قبل عامر نے کم ٹیسٹ میچ کھیلنے کا کہا تھا اور بورڈ انتظامیہ اسی پر عمل پیرا تھی۔
محمد عامر کو 2018ء میں متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں باہر رکھا گیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے لیے واپس بلا لیا گیا، یہ شاید ورک لوڈ مینجمنٹ کا بہترین نمونہ ہے۔
لیکن شاید مسئلہ ورک لوڈ کا تھا ہی نہیں، اور ورک لوڈ مینجمنٹ کی بات کرنے والے فاسٹ باؤلر کی دنیا بھر میں ہونے والی لیگز میں دلچسپی ان کی اس بات کا وزن کم کردیتی ہے۔ مانا کہ ٹی20 میچ میں ایک فاسٹ باؤلر کو صرف 4 اوورز کرنے ہوتے ہیں لیکن اس دوران سفر، ٹریننگ اور میچ کا پریشر جسم پر اضافی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ محمد عامر کا مقصد ایک عرصے سے یہی رہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے چنیدہ میچ کھیلیں جس سے انہیں مختلف لیگز کے کنٹریکٹ حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ پچھلے سال جب عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی اور وہاب ریاض نے وقفہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو راشد لطیف اور شعیب اختر سمیت متعدد سابق کھلاڑیوں نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
راشد لطیف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو کھلاڑی کرکٹ سے دُور بھاگتا ہے تو کرکٹ بھی اس سے دُور بھاگتی ہے۔ اگر یہ دونوں ریڈ بال کرکٹ کو چھوڑتے ہیں تو وائٹ بال کرکٹ میں دیگر نوجوان فاسٹ باؤلر ان کو دُور کر دیں گے۔ اس فیصلے کے وقت محمد عامر کو مصباح الحق اور بورڈ انتظامیہ کی جانب سے سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن عامر نے سمجھنے سے انکار کردیا۔
ای ایس پی این کرک انفو کے عثمان سمیع الدین نے چند ماہ پہلے محمد عامر پر ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا تھا جس میں انہوں نے عامر سے ورلڈکپ سے قبل دبئی میں ہونے والی اپنی ملاقات کا ذکر کیا تھا۔
عثمان لکھتے ہیں کہ ’عامر کا ارادہ تھا کہ اگر انہیں ورلڈکپ کے لیے ٹیم میں شامل نہ کیا گیا تو وہ ریٹائر ہوجائیں گے اور اگر انہیں ورلڈکپ کے لیے ٹیم میں شامل کر بھی لیا جاتا ہے، تو وہ ورلڈکپ کے بعد ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔ یعنی دونوں صورتوں میں محمد عامر پاکستان کرکٹ چھوڑنے کا ارادہ کرچکے تھے‘۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ گزشتہ برس ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے محمد عامر کبھی بھی منتخب نہیں ہوسکتے تھے، اگر وہ ورلڈ کپ سے پہلے انگلینڈ کے خلاف سیریز سے قبل بیمار نہ ہوئے ہوتے، کیونکہ یہ وہی سیریز تھی جس میں کھیلنے والے تمام ہی فاسٹ باؤلرز کو بیٹنگ پچوں پر خوب مار پڑی۔ نتیجہ فہیم اشرف اور جنید خان کی انگلینڈ سے واپسی اور عامر کی ورلڈکپ اسکواڈ میں شمولیت کی صورت میں نکلا۔
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ محمد عامر کو ورلڈکپ اسکواڈ میں اپنی شمولیت کے حوالے سے شک و شبہات کیوں تھے؟ اس کا واضح اور واحد جواب ان کی ناقص کارکردگی تھی۔ 2017ء میں منعقد ہونے والے چیمپئنز ٹرافی فائنل سے 2019ء میں کھیلے جانے والے ورلڈکپ تک محمد عامر کو 15 ایک روزہ میچوں میں موقع ملا لیکن اتنے عرصے میں وہ صرف 5 وکٹیں ہی لینے میں کامیاب رہے۔
یہی ناقص کارکردگی تھی جس کی وجہ سے انہیں زمبابوے کے خلاف سیریز اور پھر دورہ نیوزی لینڈ سے باہر کیا گیا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف 35 رکنی اسکواڈ میں شامل نہ کیے جانے پر عامر نے ٹوئیٹ کی تھی کہ 'مصباح صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ مجھے کیوں سلیکٹ نہیں کیا گیا'۔
حالانکہ اگر عامر آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف ٹی20 سیریز میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لے لیتے تو شاید انہیں یہ سوال نہ کرنا پڑتا۔ عامر کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ میں وکٹ کا حصول تو پہلے ہی مشکل ہو چکا تھا لیکن اب تو ان کی اکانومی بھی متاثر ہو رہی تھی۔ نوجوان فاسٹ باؤلرز ان سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
محمد عامر جب انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے تو ان کے پاس رفتار بھی تھی اور سوئنگ بھی، جس سے وہ بیٹسمنوں کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہورہے تھے، لیکن واپسی کے بعد نہ وہ رفتار ہمیں نظر آئی اور سوئنگ بھی شاذ و نادر ہی کبھی نظر آتی، جیسے 2016ء میں ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف، پھر چیمپئنز ٹرافی میں ایک بار پھر انڈیا کے خلاف، یا پھر ورلڈکپ میں آسٹریلیا کے خلاف ہمیں پرانے عامر نظر آئے، لیکن ان میچوں کے علاوہ وہ بالکل ایک عام سے باولر نظر آنے لگے تھے۔
عامر نے انٹرنیشنل کرکٹ سے غیر معینہ مدت کے لیے وقفہ لینے کی بات جب نجی ٹی وی چینل پر دیے گئے انٹرویو میں کی تو پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان نے ان سے رابطہ کیا تھا۔ عامر نے وسیم خان کو بتایا کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور انہیں مستقبل میں ٹیم سلیکشن کے دوران زیرِ غور نہ لایا جائے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس پر بیان جاری کیا کہ یہ عامر کا ذاتی فیصلہ ہے اور بورڈ اس کا مکمل احترام کرتا ہے۔ محمد عامر کا خیال شاید یہی تھا کہ اس طرح کے فیصلے سے کرکٹ بورڈ کو بلیک میل کیا جاسکے گا، لیکن جب آپ کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین اور ہیڈ کوچ کے خلاف اور سابق چیئرمین اور کوچ کے حق میں بیان دیں گے تو ایسی بلیک میلنگ کے ناکام ہونے کے امکان زیادہ ہوجاتے ہیں۔
عامر نے کرکٹ بورڈ کو اپنی جگہ بھرنے کے لیے 2 مواقع دیے۔ 2010ء میں تو کرکٹ بورڈ اس کا متبادل نہ ڈھونڈ سکا، یعنی جنید خان اور راحت علی وغیرہ کو استعمال کیا گیا اور عامر کی واپسی کے بعد انہیں بیرونی راستہ دکھا دیا گیا لیکن 2020ء میں کرکٹ بورڈ کے پاس شاہین آفریدی، محمد عباس، نسیم شاہ، محمد حسنین، محمد موسی، حارث رؤف جیسے باؤلرز موجود ہیں، ساتھ حسن علی کی فارم اور فٹنس بھی بحال ہورہی ہے جبکہ عامر یامین بھی بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں، اس لیے اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر عامر کو قومی ٹیم میں زیادہ دلچسپی نہیں تو شاید کرکٹ بورڈ کو بھی عامر کی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔
محمد عامر کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے وقت اسپورٹس صحافی سلیم خالق نے ان کی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ، انگلینڈ منتقل ہونے اور لیگز کھیلنے کے بارے میں نہایت وثوق سے اطلاع دی تھی۔ سلیم خالق کے مطابق عامر نے انگلینڈ کی قومیت کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔ شاید سال بھر میں اس درخواست پر بات کہیں آگے بڑھ چکی ہو۔ شاید عامر کو کسی انگلش کاؤنٹی کی طرف سے آفر آچکی ہو اور اب وہ صرف لیگز میں مصروف نظر آئیں۔
عامر کے پرستار یقینی طور پر ان کے جانے سے اداس اور ناراض ہیں اور کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عامر کے پاس لیگ کرکٹ کی کمی نہیں اور وہ بہت جلد واپسی بھی کرسکتے ہیں، لیکن عامر اور ان کے پرستاروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کی موجودگی میں ان کی واپسی کا امکان نظر نہیں آتا اور رہی بات لیگز کی تو عامر کی کارکردگی کا زوال شاید جلد ہی ان کی مختلف لیگز میں شمولیت بھی مشکل بنا دے۔