سپریم کورٹ نے ماہر نفسیات سے ملزمان کی ذہنی حالت کے تعین کیلئے معاونت طلب کرلی
سپریم کورٹ نے ذہنی امراض کا شکار ملزمان کی سزائے موت کے خلاف اپیلوں پر ماہر نفسیات سے ملزمان کی ذہنی حالت کے تعین کے لیے معاونت طلب کرلی۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے ذہنی مریضوں کی سزائے موت کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: 16 سال سے سزائے موت کے منتظر ذہنی مریض قیدی خضر حیات کا انتقال
سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر میڈیکل بورڈ یہ کہہ دے کہ ان کو سزائے موت نہیں ہوسکتی تو ملزمان کو جیل نہیں بھیجا جاسکتا۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا ایسے افراد کے علاج کے لیے کوئی مرکز ہے جہاں ان کا علاج ہوسکے؟
ساتھی ہی سربراہ بینچ جسٹس منظور احمد ملک نے پوچھا کہ ایسے ملزمان کے علاج کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟ عدالت کی معاونت کریں، اگر ان ملزمان کی سزائے موت ختم کر دی جائے تو یہ اپنی باقی سزا کہاں گزاریں گے؟ جبکہ اگر علاج کے بعد ملزمان کی حالت بہتر ہوتی ہے تو کیا ان کو سزائے موت دی جا سکے گی؟
ان سوالات پر ملزمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب تک ایسے مریضوں کا علاج چلتا رہتا ہے یہ ٹھیک رہتے ہیں لیکن علاج بند ہونے پر حالت خراب ہو جاتی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے سوال کیا کہ اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جائے کہ جرم کے وقت ملزمان تندرست تھے تو کیا سزا ختم ہو جاتی ہے؟
عدالت میں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملزمان اگر علاج بھی کراتے ہیں تب بھی وہ عمر قید کی سزا ہی کاٹ رہے ہوں گے، مریضوں اور بیماری سے متعلق تمام نکات عدالت کے سامنے واضح ہونے چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملزمان کی سزائے موت ختم کر کے کہیں اور جیل بھیج دیا جائے۔
بینچ کے ایک رکن کے ریمارکس کے ساتھ ہی سربراہ بینچ منظور احمد ملک نے کہا کہ جرم سے پہلے اور جرم کے بعد بیماری کا ہونا 2 الگ الگ صورتیں ہیں، اگر ملزمان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کی جائے تو ان کو رہا کیا جانا چاہیے۔
جسٹس منظور ملک کا کہنا تھا کہ ملزمان کی ذہنی حالت کو ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک کسی سطح پر نہیں دیکھا گیا، ہائیکورٹ نے ملزمان کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ بیماری کا تعین کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے کہا سرکاری خرچ پر وکیل مقرر کر کے کیس کو آگے چلائیں، آپ کو کیا مسئلہ ہے اگر کیس دوبارہ ٹرائل کے لیے بھیجا جائے، جس پر مدعی مقدمہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ دماغی امراض کا شکار ملزمان عام ملزمان کی طرح جائے وقوع سے فرار نہیں ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں: معاشرے میں ذہنی صحت کے بڑھتے مسائل اور ان کا حل
اس پر جسٹس منظور ملک نے کہا کہ سیکشن 465 میں لکھا ہے کہ اگر ایسی کوئی درخواست آئے تو اس بات کے تعین کے لیے الگ ٹرائل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سزائے موت کے مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے ججز کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے ملزمان کو سزائے موت دلوائی اور پھر اس سزا کے درست یا غلط ہونے کے تعین کے لیے درخواست دائر کردی۔
بعد ازاں عدالت نے ماہر نفسیات سے ملزمان کی ذہنی حالت کے تعین کے لیے معاونت طلب کرلی۔
عدالت نے کہا کہ ماہر نفسیات یہ بتائیں کہ ذہنی امراض کے شکار ملزمان کو سزائے موت کیوں نہیں دی جا سکتی۔
اسی طرح عدالت نے وکلا سے تحریری معروضات بھی طلب کرلیں اور کیس کی سماعت 4 جنوری تک ملتوی کردی۔