وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا
ویسے تو اکثر بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی وبا کی شکل اختیار نہیں کرپاتیں، مگر کسی شکل میں نظر آتی رہتی ہیں۔
مگر سو سال قبل ایک ایسی بیماری دنیا میں نمودار ہوئی تھی جو کسی ہارر فلم کی کہانی کا حصہ لگتی ہے کیونکہ وہ اچانک غائب ہوئی اور آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کی وجہ کیا تھی۔
اس بیماری کے شکار کسی بت کی طرح ہوجاتے تھے اور ان کے جسم ذہن کے قیدی بن جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر
سلیپنگ سکنس (Encephalitis lethargica) اسی عہد میں جان لیوا انفلوائنزا وبا میں چھپ گئی تھی، حالانکہ یہ پہلے یورپ میں نمودار ہوئی اور پھر دنیا بھر یں پھیل گئی تھی۔
لاکھوں افراد اس کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے اور متعدد زندہ مجسمے میں تبدیل ہوگئے اور اپنی زندگیاں ساکت اور خاموش رہ کر گزار دیں، یہ وہ معمہ جو دہائیوں تک طبی ماہرین کے ذہن چکراتا رہا۔
مگر ایک صدی بعد انسان کو مجسمہ بنادینے والے اس وائرس کو تاریخ کے چند بڑے طبی اسرار میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
یہ مرض کب نمودار ہوا؟
اس بارے میں کچھ مصدقہ طور پر کہنا تو مشکل ہے مگر بیشتر کیسز جنگ عظیم اول کے بعد رپورٹ ہوئے تھے اور مانا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 1915 یا 1916 میں ایسے فوجیوں سے ہوا جو بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار اور طبی معائنے کے دوران ذہنی طور پر بہت زیادہ الجھے ہوئے تھے۔
اس وقت خیال کیا گیا تھا کہ یہ غیرمعمولی علامات جنگ کے دورران استعمال ہونے والی ایک زہریلی گیس کا نتیجہ ہیں مگر ان کا خیال بعد میں غلط ثابت ہوا۔
ویانا کے ایک دماغی امراض کے ماہر کونسٹنٹین وون ایکونومو نے ایک مقالے میں سب سے پہلے اس بیماری کا ذکر کیا، جنہوں نے اس جیسے کیسز عام شہریوں میں رپورٹ کیے تھے۔
1917 میں ان کے تحریر کردہ ایک مقالے میں کہا گیا تھا کہ ہمیں کسی قسم کے سلیپنگ سکنس کا سامنا ہے جس کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اور پہلی علامت شدید سردرد اور خسرہ ہوتے ہیں، اس کے بعد مریض دنوں، ہفتوں یا مہینوں تک غنودگی یا کسی قسم کے کوما میں چلے جاتے ہیں یا حالت بگڑنے پر مرجاتے ہیں۔
اس مقالے کے کئی برس بعد یہ بیماری پھیلنا شروع ہوئی اور لاکھوں افراد اپنے جسموں میں قید ہوکر مرنے لگے۔
اس کی وجہ کیا تھی؟
Encephalitis lethargica کا ترجمہ کیا جائے تو وہ یہ ہے ایسا دماغی ورم جو آپ کو تھکاوٹ کا شکار کرتے، مگر اسے سلیپنگ سکنس کے نام سے جانا جاتا تھا۔
سننے میں تو یہ پرمزاح لگتا ہے مگر ایسا تھا نہیں، کیونکہ اس کے شکار کم از کم ایک تہائی افراد ہلاک ہوئے، بچ جانے والے 20 فیصد ایسے افراد تھے جن کو روزمرہ کے کاموں کے لیے اپنے پیاروں یا ڈاکٹروں کی نگہداشت کی ضرورت پڑی، اور صرف ایک تہائی سے بھی کم مکمل صحتیاب ہوسکے۔
اس سے ہر عمر کے افراد متاثر ہوئے مگر سب سے زیادہ 15 سے 35 سال کی عمر کے لوگ شکار ہوئے۔
اس بیماری کی ابتدا میں فلو جیسی علامات سامنے آتیں یعنی تیز بخار، سردرد، تھکاوٹ کا احساس، ناک بہنا، اس وقت ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا ج سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ فلو جیسی علامات کا شکار فرد اس جان لیوا بیماری کا شکار تو نہیں، جس کے باعث وائرس کو دماغ تک پھیلنے کا کافی وقت مل جاتا۔
جب یہ وائرس مرکزی اعصابی نظام پر حملہ آور ہوجاتا تو مریضوں کو شدید ترین ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کا سامنا ہوتا، جیسا نام سے ظاہر ہے سلیپنگ سکنس، جس کے بعد کوما اور موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا۔
اور جو لوگ کسی طرح صحتیاب ہوئے، ان سے علم ہوا کہ یہ درحقیقت کئی مراحل پر مشتمل مرض ہے۔
دوسرے مرحلے میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور زندگی میں دلسپی ختم ہوجاتی، یعنی مریض کی حالت ایسی ہوتی جو ماضی کی اس کی شخصیت سے بالکل مختلف ہوتی۔
مگر یہ مرحلہ تو طوفان سے قبل کے سکون جیسا ہوتا تھا ، کیونکہ اس کے بعد لوگ کسی بت کی طرح بن جاتے جن کو اپنے ارگرد کا شعور تو ہوتا، مگر کچھ بھی بولنے یا حرکت کرنے سے قاصر ہوتے۔
ڈاکٹروں نے جب اس بیماری سے ہلاک ہونے والے افراد کے پوسٹمارٹم کیے تو موت کی بنیادی وجہ دماغ کے ایک مخصوص میں ورم تھا، یہ وہ حصہ ہے جو نیند سمیت متعدد افعال کو کنٹرول کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اب سو سال سے زائد عرصے بعد بھی اس کی وجہ تاحال معلوم نہیں، ایک خیال یہ ہے کہ اس کی وجہ 1918 کی انفلوانزا وبا ہوسکتی ہے، جس کے دوران فلو وار نے کی طرح دماغ کے کچھ حصوں کو متاثر کیا۔
کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ وبا پولیو وائرس کا نتیجہ تھی۔
وبا پر کیسے قابو پایا گیا؟
درحقیقت اس میں طبی ماہرین کا کوئی کمال نہیں تھا، 10 برس تک دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچ جانے والی یہ بیماری اچانک ہی غائب ہوگئی۔
1928 میں یہ مرض غائب ہوا اور نئے کیسز رپورٹ ہونے کا سلسلہ تھم گیا، مگر ہزاروں افراد کو دہائیوں تک نگہداشت کی ضرورت پڑی، جو زندہ تو تھے مگر ساکت جسموں کے اندر قید ہوگئے تھے۔
1969 میں ایسے چند افراد کا علاج پارکنسن کے لیے تیار ہونے والی ایک نئی دوا لیوڈوپا سے ہوا اور ان کی حالت میں ڈرامائی بہتری آئی، جو وہیل چیئر سے اٹھ گئے اور شعور لوٹ آیا۔
مگر ایسے بھی متعدد افراد چند دن یا ہفتوں بعد پھر پرانی حالت میں چلے گئے اور 1990 میں اس پر ایک فلم اویکننگ بھی بنی، جس میں سلیپنگ سکنس کے شکاار افراد کے لیے ایک نئی دوا سے علاج کو دکھایا گیا، مگر معاملات پیچیدہ ہوگئے۔
جب سے اس بیماری کے کیسز تو سامنے نہیں آئے مگر 1993 میں ایک 23 سالہ خاتون کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں دماغ میں ورم کی شرح خطرناک حد تک زیادہ تھی اور ڈاکٹر یہ دریافت کرکے دنگ رہ گئے کہ اس کی وجہ سلیپنگ سکنس ہے۔
چونکہ پہلی وبا کے دوران وجہ کا تعین نہیں ہوسکا تھا تو وائرلوجسٹ پروفیسر جان آکسفورڈ نے پہلی وبا کے شکار افراد کے دماغ کے نمونوں کا دوبارہ تجزیہ کیا۔
مگر جدید مالیکیولر جانچ کے باوجود وہ ٹشوز میں وائرسز کے شواہد دریافت نہیں کرسکے۔
اس بارے میں تحقیق کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔