حکومت کا بغاوت اور عدم استحکام پر اکسانے کے خلاف تیز کارروائی کا فیصلہ
اسلام آباد: اپوزیشن جماعتیں دہشت گردی اور کورونا وائرس کی بگڑتی صورتحال کا انتباہ نظر انداز کرکے لاہور میں آج جس جلسے کا انعقاد کررہی ہیں اس پر وفاقی حکومت نے بغاوت اور عدم استحکام پر اکسانے کے لیے خلاف کارروائی کو تیز تر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ کابینہ نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 196 کے تحت سیکریٹری داخلہ کو یہ اختیار تفویض کیا ہے کہ وہ ریاست کے خلاف کسی جرم کی صورت میں حکومت کی جانب سے شکایت دائر کرسکتے ہیں۔
ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ریاست کے خلاف تمام جرائم کے خلاف سی آر پی سی کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا اور اگر دائرہ اختیار کے لیے لازمی شرائط پوری نہ کی گئی تو اس حوالے سے کی جانے والی یہ پوری کارروائی خلاف ضابطہ ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن موجودہ صورتحال میں جلسوں کے بجائے بات چیت سے مسائل حل کرے، عثمان بزدار
سی آر پی سی کی دفعہ 196 کہتی ہے کہ کوئی عدالت تعزیرات پاکستان کے باب 6 یا 9 اے کے (دفعہ 127 کے سوا) قابل سزا جرم کی سماعت نہیں کرے گی جب تک اس کی شکایت مرکزی یا متعلقہ صوبائی حکومت کے حکم یا اس کی اتھارٹی کے تحت یا کسی ایسے افسر کی جانب سے نہ کی جائے جسے دونوں میں سے کسی ایک حکومت نے اختیار دیا ہو۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ کو قرار دیا تھا جس کے نتیجے میں انتظامی نوعیت کا ہر فیصلہ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ اب اس صورت میں ریاست کے خلاف کسی جرم کی شکایت وفاقی حکومت کی جانب سے سیکریٹری داخلہ دائر کریں گے اور اس کے لیے کابینہ کو سمری ارسال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیں: غیرآئینی، غیرقانونی مداخلت کے تمام راستے کل سے بند ہو جائیں گے، رانا ثنااللہ
انہوں نے واضح کیا کہ یہ سی آر پی سی میں کسی قسم کی ترمیم نہیں بلکہ اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔
اس ضمن میں جب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک قانون ساز سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کے ارادے آئندہ چند روز میں واضح ہوجائیں گے اور جس طرح کابینہ نے بغیر باضابطہ اجلاس کے سمری منظور کی ہے اس پر سوال اٹھتے ہیں۔
تاہم حکام کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایسا طریقہ کار ہے جس کا مقصد کارروائی کو آسان بنانا ہے۔
خیال رہے کہ کرمنل کوڈ پروسیجر کی بغاوت سے متعلق دفعہ 124 کو بہت سے لوگ نوآبادیاتی دور کی علامت سمجھتے ہیں، رواں برس جون میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے دفعہ 124 کے خاتمے کے لیے سینیٹ میں بل پیش کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کے کچھ لوگ وفاقی حکومت سے رابطے میں ہیں، وفاقی وزیر
بزرگ سینیٹر کا کہنا تھا کہ یہ دفعہ برطانوی حکومت کے نو آبادیاتی ڈھانچے سے ورثے میں لی گئی ہے جو پاکستان میں بھی نافذ ہے اور یہ حکمرانوں کے خلاف اکسانے والوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔