فقیر چند کوہلی: پشاور کا وہ بیٹا جو بھارت میں ٹیکنالوجی کا انقلاب لے آیا
آج کل پاکستان اور بھارت کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ کشیدگی کا طویل ترین عرصہ ہے، لیکن اس دوران ہم بھارتیوں کو پشاور سے ایک اچھی خبر سننے کو ملی اور وہ یہ کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشاور کے تاریخی شہر سے تعلق رکھنے والے بولی وڈ کے 2 مشہور اداکاروں راج کپور اور دلیپ کمار کے آبائی گھروں کی تزئین نو کا فیصلہ کیا ہے۔
کچھ اعتبار سے دیکھا جائے تو بولی وڈ کے ورثے کا جتنا تعلق بھارت سے ہے اتنا ہی پاکستان سے بھی ہے، لیکن بدقسمتی سے بھارت میں ہندوتوا کے نظریے پر کاربند قوتیں ناصرف پاکستان سے جڑے بولی وڈ کے ہر تعلق کو توڑنا چاہتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بولی وڈ کی مقبولیت میں مسلمانوں کے کردار کو مٹا دینا چاہتی ہیں۔
بھارت اور پاکستان کو جوڑنے میں لاہور کی ایک خاص اہمیت ہے۔ بولی وڈ کے مشہور موسیقار او پی نیئر اور نوبل انعام یافتہ بھارتی ماہرِ طبعیات سبرامنین چندرشیکھر دونوں ہی لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح ایک اور نوبل انعام یافتہ بھارتی سائنسدان ہرگوبند کھرانا اور مشہور بولی وڈ اداکار دیو آنند نے لاہور کے مشہور گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ہم ایسے بے شمار نام گن سکتے ہیں اور یہ فہرست پھر بھی جاری رہے گی۔
لیکن پاکستان اور خاص طور پر لاہور اور پشاور میں کتنے لوگوں نے بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) صنعت کے بانی فقیر چند کوہلی کا نام سنا ہے جو 26 نومبر 2020ء کو ممبئی میں 96 سال کی عمر میں انتقال کرگئے؟ شاید چند ہی لوگوں نے۔
پاکستانی، بھارت کی فلمی صنعت میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور یہ قدرتی امر ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت میں کہ جب خود پاکستانی آئی ٹی صنعت اور آئی ٹی کے شعبے سے منسلک نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہورہا ہے، شاید ایک ایسی شخصیت کا ذکر فائدہ مند ہو جو انہی کی سرزمین میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور پھر بھارت منتقل ہونے کے بعد خوب ترقی پائی۔ مزید یہ کہ وہ شخص بھارت اور پاکستان کے درمیان امن، دوستی اور بھائی چارے پر یقین رکھتا تھا۔
ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز
فقیر چند کوہلی (ایف سی کوہلی) 1924ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گوبندرام کوہلی ایک چھوٹے کاروباری تھے۔ ان کی پشاور کینٹ میں کپڑے کی دکان تھی۔ فقیر چند نے اپنا بی اے اور بی ایس سی (آنرز) گورنمنٹ کالج لاہور سے مکمل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے امریکا کی مشہور میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے پاور انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا۔
وہ 1951ء میں بھارتی شہر ممبئی آگئے اور بھارت کے مشہور و معروف اور متنوع کاروباری گروپ ٹاٹا گروپ سے منسلک ہوگئے۔ وہاں انہوں نے جے آر ڈی ٹاٹا کی مدد سے ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز (ٹی سی ایس) کی بنیاد ڈالی، جو اب بھارت کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی بن چکی ہے۔
ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز ٹاٹا گروپ کے تاج میں ہیرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کا شمار دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ اس کی مارکیٹ کیپٹلائیزیشن (145 ارب ڈالر) آئی بی ایم (118 ارب ڈالر) اور ایکسنچر (143 ارب ڈالر) سے بھی زیادہ ہے۔
فقیر چند ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کے پہلے اور سب سے زیادہ عرصے (1996ء-1969ء) تک سی ای او رہے۔ ٹاٹا گروپ کے ساتھ ان کی وابستگی تادمِ مرگ قائم رہی۔ کورونا وائرس کے دوران ممبئی میں اپنے گھر تک محدود ہونے سے پہلے وہ روز سمندر کنارے نریمن پوائنٹ پر واقع ایئر انڈیا کی عمارت میں موجود اپنے دفتر جاتے تھے۔ یہ عمارت بھی ٹاٹا گروپ کی تعمیر کردہ ہے۔ 1932ء میں کراچی سے ممبئی کی پہلی پرواز خود جے آر ڈی ٹاٹا اڑا کر لائے تھے۔
تقسیم سے پہلے اور 1947ء کے کچھ سال بعد تک بھی کراچی اور ممبئی اپنے انتظام کے لحاظ سے ایشیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتے تھے۔ ممبئی کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں بجلی کی تقسیم کا نظام ٹاٹا کے پاس تھا۔
فقیر چند ایک نہایت قابل انجینئر تھے جن کا کیریئر ٹاٹا الیکٹرک کمپنیز سے شروع ہوا تھا۔ ان کی صلاحیتوں نے اس کمپنی کو نیویارک کی کمپنی جیسا بنادیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر کے استعمال سے کمپنی کی صلاحیت میں خاصا اضافہ ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت کے کمپیوٹر آج کے کمپیوٹر کے مقابلے کم درجے کے ہوتے تھے۔
فقیر چند یہیں پر نہیں رکے، وہ مزید کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مستقبل اب اسی ٹیکنالوجی سے متعلق ہے۔ خوش قسمتی سے جے آر ڈی ٹاٹا جنہوں نے 1938ء سے 1993ء میں اپنی وفات تک اس گروپ کی قیادت کی، وہ بھی یہی خیالات رکھتے تھے، اور اسی خیال نے ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کی بنیاد رکھی۔
فقیر چند نے ابتدائی عشروں میں کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کی سیاسی اور حکومتی اسٹیبلشمنٹ کو کمپیوٹر کے بارے میں کم آگہی تھی اور وہ نہیں جانتے تھے کہ کمپیوٹر اور کمپیوٹر سافٹ ویئر بڑی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
67ء-1966ء میں عالمی بینک کے دباؤ کی وجہ سے بھارتی روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور اس کے سبب زرِمبادلہ پر پڑنے والے اثرات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے درآمدات کو مشکل بنادیا اور یوں مہنگے کمپیوٹروں کا حصول بھی ممکن نہ رہا۔ نجی اداروں کو کہا گیا کہ انہیں صرف اس صورت میں درآمدات کی اجازت دی جاسکتی ہے اگر وہ اپنی برآمدات کے نتیجے میں ڈالر حاصل کریں۔
لیکن فقیر چند اس سے متاثر نہ ہوئے۔ کتاب سینڈ تو سیلیکون- دی امیزنگ اسٹوری آف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے مصنف اور ٹی سی ایس میں کام کرنے والے شیوندن کناوی کہتے ہیں کہ فقیر چند ہر لحاظ سے سرحد پر رہنے والی آدمی تھے۔ ان کا تعلق ایک ایسے صوبے سے تھا جسے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا۔ ان میں پشاور والوں کی طرح ہار نہ ماننے کی عادت تھی۔ وہ مشکلات کو مواقع میں تبدیل کرنے کا فن جانتے تھے۔ فقیر چند کو احساس ہوا کہ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز مغربی اور خاص طور پر امریکی اداروں کو سافٹ ویئر کی سہولیات فراہم کرکے ناصرف اپنے لیے بلکہ بھارت کے لیے بھی زرِمبادلہ حاصل کرسکتی ہے۔ بھارتی سافٹ ویئر انجینئرز ممبئی اور دیگر بڑے شہروں میں درآمد شدہ کمپیوٹروں پر بھی کام کرسکتے تھے اور بیرونِ ملک جاکر بھی۔ یہ ٹاٹا اور ان کے امریکی صارفین دونوں کے لیے ہی فائدہ مند تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف تو امریکا میں مقامی ٹیلنٹ اس کی بڑھتی ہوئی معیشت کے اعتبار سے کم بھی تھا اور مہنگا بھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں بھارت میں انڈین انسٹیٹیوٹس آف ٹیکنالوجی جیسے اداروں سے باصلاحیت انجینئر اور سافٹ ویئر انجینئرز تیار ہورہے تھے۔ ایم آئی ٹی کی طرز پر تعمیر یہ ادارے دراصل بھارت ک پہلے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو کی جانب سے تیار کیے گئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ نو آزاد ریاست ٹیکنالوجی، طب، تحقیق اور انتظامیہ کے حوالے سے بہترین تعلیمی اداروں کے بغیر جدیدت کا سفر طے نہیں کرسکتی۔ فقیر چند نے بھی ان اداروں میں تدریس کے لیے بہترین افراد کی تلاش میں مدد کی اور خود بھی یہاں کچھ مضامین پڑھائے۔ اس طرح انہوں نے صنعتی اور تدریسی شعبے میں ایک تعلق قائم کیا جو مغرب میں بہت مضبوط ہے۔
ادارہ ساز اور فرد ساز شخصیت
ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کا برآمدات کا ماڈل اتنا کامیاب ہوا کہ اس کے نتیجے میں کئی بھارتی سافٹ ویئر اسٹارٹ اپ شروع ہوئے اور ان میں سے کچھ نے تو عالمی شہرت حاصل کی۔
مثلاً انفوسیس (Infosys) نامی ادارہ 1981ء میں قائم ہوا۔ اسے بنانے والوں میں این آر نارائن مورتی، نندن نیلکانی (یہ دونوں آئی آئی ٹی کے تعلیم یافتہ ہیں) اور 5 دیگر افراد شامل تھے۔ یہ بھارت کی سب سے زیادہ مشہور اور منافع کمانے والی آئی ٹی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ایسی ہی ایک دوسری مثال وِپرو (WIPRO) کی ہے۔ اس کے بانی عظیم پریم جی ہیں جو بھارت کی ایک بڑی انسان دوست شخصیت ہیں۔ اب تک وہ اپنی دولت میں سے 16 ارب ڈالر عطیہ کرچکے ہیں۔
2000ء میں بھارت کی سافٹ ویئرز سے متعلق برآمدات 8 ارب ڈالر کی تھیں جو 2020ء میں ایک کھرب 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ مقامی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بینگلور شہر میں بہت دلچسپی لیتی ہیں اور اسے بھارت کی ’سیلیکون ویلی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
آئی ٹی کی صنعت نے پونے، حیدرآباد، چنائی، ممبئی اور دہلی جیسے دیگر شہروں میں بھی فروغ پایا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں نوجوان بھارت میں اور بیرونِ ملک اچھی تنخواہوں پر نوکری کر رہے ہیں۔ بھارتی افراد دنیا کی کچھ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ان میں 2 مشہور مثالیں مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیا ندیلا اور گوگل کے سی ای او سندر پیچائی کی ہیں۔
بھارت میں ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز اپنے حریفوں سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپنی نے فقیر چند کی سرپرستی میں بہترین افراد تیار کیے۔ ایس رامادورائی، جو فقیر چند کے بعد سی ای او بنے، کہتے ہیں کہ ’مجھے فقیر چند کے ساتھ 48 سال تک کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ ایک ماہر ٹیکنالوجسٹ، بہترین منیجر اور بہت اچھے انسان تھے۔ وہ ہمارے سامنے بہت مشکل چیلنجز پیش کرتے تھے لیکن انہوں نے ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کمپنی میں صلاحیتیں بھی پیدا کیں‘۔
اپنی کتاب ’دی ٹی سی ایس اسٹوری ایند بیونڈ‘ میں رامادورائی بتاتے ہیں کہ ابتدائی کچھ سال ان لوگوں کے لیے کتنے مشکل تھے۔ ’لیکن فقیر اور ان کی ٹیم کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات ضرور تھی کہ وہ صرف ایک کاروبار ہی کھڑا نہیں کر رہے بلکہ بھارت کے لیے ایک نئی صنعت کی بنیاد ڈال رہے ہیں، اور یہ ایک ایسا خواب ہے جس کے لیے زندگی وقف کی جاسکتی ہے‘۔
این چندراسیکرن، جو رامادورائی کے بعد 2017ء میں اس وقت ٹاٹا گروپ کے چیئرمین بنے، جب جے آر ڈی ٹاٹا کے بھتیجے رتن ٹاٹا نے ٹاٹا گروپ کی چیئرمین شپ چھوڑی۔ این چندراسیکرن کا کہنا ہے کہ ’فقیر چند نے اس وقت میرا انٹرویو کیا تھا جب میں ایک ٹرینی کے حیثیت سے ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کا حصہ بنا تھا۔ وہ ایک ایسے لیڈر تھے جن کا ذہن بالکل واضح تھا۔ انہوں نے ابتدا میں ہی دیکھ لیا تھا کہ آئی ٹی ایک ایسی صنعت ہوسکتی ہیں جس میں بھارت ایک طاقت بن سکتا ہے‘۔
ان کے ماتحت افراد کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنا ’آگ کے الاؤ‘ میں کام کرنے کے مترادف تھا۔ ’اگر آپ ایک الاؤ سے گزر گئے تو اس کا مطلب تھا کہ وہ آپ کو پسند کرتے ہیں اور وہ آپ کو ایک مزید بڑے الاؤ میں دھکیل دیں گے‘۔
فقیر چند نے ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کو جن بلندیوں پر چھوڑا تھا رامادورائی اور چندراسیکرن اسے مزید اونچائی پر لے کر گئے۔ کئی نسلوں پر محیط اس پیشہ وارانہ قیادت کی وجہ سے ہی ٹاٹا گروپ کو بھارت اور بھارت کے باہر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جے آر ڈی ٹاٹا اور رتن ٹاٹا دونوں نے ہی اپنے گروپ کی قیادت کے لیے اہل ترین افراد کو بااختیار بنایا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو مغربی کاروباری گروپوں میں بھی فروغ پارہی ہی۔
فقیر چند صرف اپنی ہی کمپنی کی کامیابی پر مطمئن نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بھارتی آئی ٹی صنعت کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے بھی کوششیں کیں۔ وہ نیسکوم (نیشنل ایسوسی ایشن آف سافٹ ویئر اینڈ سروس کمپینز) اور کمپیوٹر سوسائٹی آف انڈیا (سی ایس آئی) کے بانیوں میں شامل تھے۔ انجینئروں کے سب سے زیادہ بااثر عالمی پلیٹ فارم آئی ای ای ای (انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز) کی بھارتی شاخ کے پیچھے بھی دراصل فقیر چند ہی تھے۔
فقیر چند کا خیال تھا کہ آئی ٹی کے اداروں کو چاہیے کہ وہ خود کو منافع کمانے والے اداروں سے پہلے مسائل کا حل پیش کرنے والے اداروں کے طور پر دیکھیں۔ خود بھی ایک انجینئر ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ بنیادی طور پر انجینئرنگ کی تعلیم طلبہ کو صنعت، معیشت اور معاشرے کی سخت مشکلات کو حل کرنا سکھاتی ہے۔
لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ اگرچہ بھارت میں موجود آئی آئی ٹیز کو عالمی شہرت حاصل ہے لیکن ان میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد ملک کی آبادی اور ضرورت کی نسبت بہت کم تھی اور اب بھی ہے۔ 1990ء تک بھارت میں صرف 6 آئی آئی ٹیز تھے جو اب 23 ہوگئے ہیں۔ اس کے برعکس ملک میں تقریباً 6 ہزار انجینئرنگ کالج موجود ہیں۔
چونکہ نئے آئی آئی ٹی کا قیام ایک مہنگا کام ہے اس لیے فقیر چند نے ایک نیا خیال پیش کیا۔ وہ خیال یہ تھا کہ موجودہ آئی آئی ٹیز کے زیر سرپرستی ایک ایسا پروگرام شروع کیا جائے جس میں کچھ منتخب اور معیاری کالجوں کو ہی مزید بہتر کرکے انہیں ’آئی آئی ٹیز جیسا‘ بنایا جائے۔ انہوں نے اس خیال کو حقیقت بھی بنایا۔ 175 سال پرانے تعلیمی ادارے کالج آف انجینئرنگ پونے (سی او ای پی) کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے اسے آئی آئی ٹی ممبئی کے ساتھ جوڑ کر اس ادارے کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔
جب میں بھارت کے ایک چوٹی کے پالیسی تھنک ٹینک، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن، ممبئی کے ساتھ کام کرتا تھا تو میں نے اپنی ایک رفیقِ کار ڈاکٹر لینا واڈیا کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ بنائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح سی او ای پی ایک ’آئی آئی ٹی جیسا‘ ادارہ بنا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ہم نے فقیر چند کوہلی کے بہت قریب رہ کر کام کیا۔ اس وقت بھی وہ اپنی عمر کے 9ویں عشرے میں تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’بھارت کو 50 معیاری انجینئرنگ کالجوں کو آئی آئی ٹی جیسے اداروں میں بدلنا چاہیے اور بھارت یہ کرسکتا ہے‘۔
غریب پرور شخصیت
اپنی ان تمام کامیابیوں کے باوجود بھی فقیر چند کوہلی کو 3 چیزوں کا افسوس رہا۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ’ہماری صنعت نے تو بہت فائدہ حاصل کیا ہے لیکن بھارت کو ہماری صنعت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ ہمیں بھارت کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔
وہ بھارت کی غربت سے سخت غمزدہ تھے۔ ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں وہ اکثر کہتے کہ ’بھارت کے لیے غریب لوگوں کی قوم بننے میں کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔ ان کا ماننا تھا کہ تعلیم اور ٹیکنالوجی کی مشترکہ طاقت سے غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے اور بھارت کی افرادی قوت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ناخواندگی کے خاتمے، بھارت کی مقامی زبانوں میں کمپیوٹر کی تعلیم اور اسکول چھوڑ دینے والے بچوں کے لیے ایک بڑی مہم بھی چلائی۔
فقیر چند کو اس بات پر تشویش رہتی تھی کہ سافٹ ویئر صنعت میں کامیابی کے برعکس بھارت ہارڈ ویئر کی صنعت میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ چین میں ہونے والی ایجادات پر نظر رکھتے تھے اور وہ آئی ٹی ہارڈ ویئر کے حوالے سے چین اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے سے خدشات کا شکار تھے۔
مثال کے طور پر بھارت سالانہ 60 ارب ڈالر کی الیکڑانک اشیا درآمد کرتا ہے جن میں 20 ارب ڈالر کی سیمی کنڈکٹر چپس ہوتی ہیں جو ڈیجیٹل معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرچہ چین بھی 2019ء تک اپنی ضرورت کی صرف 16 فیصد سیمی کنڈکٹر چپس خود تیار کرتا تھا لیکن چین کا ہدف 2025ء تک اس شرح کو 70 فیصد تک لے جانے کا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے 2025ء میں ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے ایک کھرب 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقیر چند اس بات پر زور دیتے تھے کہ بھارت آئی ٹی ہارڈ ویئر کی تیاری میں خود کفیل ہوجائے۔
فقیر چند کو اس بات کا بھی افسوس رہا ک آئی ٹی کے شعبے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی شراکت نہیں ہے جبکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو کسی بھی قوم کی مجموعی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
انہیں پشاور سے اپنے تعلق پر فخر تھا۔ انہیں لاہور بھی بہت پسند تھا۔ تقسیم سے پہلے انہوں نے ان دونوں شہروں میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو ایک ساتھ رہتے دیکھا۔
فقیر چند کے خاندان کے ایک فرد نے ہمیں بتایا کہ ’انہوں نے پشاور یا لاہور میں کبھی بھی تعصب یا عدم تحفظ کا سامنا نہیں کیا۔ تقسیم نے انہیں بہت حد تک متاثر کیا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تقسیم نے ہی انہیں وہ شخص بنایا جو وہ تھے۔ ان کا خاندان دولت مندی سے غربت کی طرف آیا۔ جب وہ 1951ء میں امریکا سے واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے گھر والے (جو لکھنؤ ہجرت کرچکے تھے) ایک جھونپڑی کے کچے فرش پر سوتے ہیں‘۔
اپنی زندگی کے تجربات کی وجہ سے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستانی طالب علم بھارت میں موجود ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں میں تعلیم حاصل کریں اور بھارت کے طالب علم لاہور کی جامعہ پنجاب، لمس اور دیگر پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں۔
16 دسمبر 2004ء کو اسلام آباد میں ہونے والے پہلے پاک-بھارت آئی سی ٹی سمٹ میں نیسکوم اور پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے آپس میں تجارت اور شراکت داری کو بڑھانے کے حوالے سے ایک یادداشت پر دستخط کیے۔ اس موقع پر بات کرتے ہوئے فقیر چند کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ دونوں ملکوں کی تعلیمی اور کاروباری قیادت ان ممالک کے درمیان ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کے لیے کام کریں گے۔
فقیر چند کا یہ افسوس اور امید ہی ہے جس نے مجھے ایک پاکستانی جریدے میں یہ سطور لکھنے پر مجبور کیا۔ دونوں ممالک میں جو لوگ بھی یہی افسوس اور امید رکھتے ہیں ان کے لیے میں یہاں اپنے کچھ خیالات پیش کرنا چاہوں گا کہ ہم اپنے طور پر کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کسی معنی خیز شراکت داری کی اجازت نہیں دیتے، لیکن کیا ہم کم از کم فقیر چند کی یاد میں ایک ورچوئل ملاقات کرسکتے ہیں؟ کیا ہم فقیر چند کی یاد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک چیئر قائم کرسکتے ہیں؟ کیا ہم ان کے نام سے پشاور یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے قابل طلبہ کو وظیفے دے سکتے ہیں؟
ایک اور بات، آئی آئی ٹی بمبئی، جہاں سے میں نے بھی تعلیم حاصل کی ہے، وہاں کے کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں میرے دوست پروفیسر کوی آریا نے ’ای ینترا‘ کے نام سے ایک کامیاب پراجیکٹ شروع کیا ہے جو طلبہ کو روبوٹکس کی تربیت فراہم کرتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے سرپرست فقیر چند ہی تھے۔ اس پراجیکٹ کے تحت بھارت بھر میں 400 سے زیادہ انجینئرنگ کالجوں میں کم قیمت روبوٹکس لیب قائم کی گئی تھیں۔ بھارت میں جاری اس قسم کے پراجیکٹس کو پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے دیگر انجینئرنگ کالجوں کے ساتھ اشتراک کرنا چاہیے۔
اسی طرح کیا ہم پاکستانی تعلیمی اداروں میں ہندوستانی طلبہ کو اس قسم کے پراجیکٹس میں شامل نہیں کرسکتے؟ اسی طرح جس ادارے سے فقیر چند نے پڑھا، یعنی ایم آئی ٹی، وہاں سے ایک بڑی تعداد میں بھارتی اور پاکستانی طلبہ بھی پڑھ چکے ہیں۔ یقیناً وہ بھی تعلیم اور تحقیق کے میدان میں چھوٹی ہی سہی لیکن ضروری کاوشیں کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایم آئی ٹی بھی اس طرح کے کسی اقدام کی حمایت کرے اور شاید کہ پاک-بھارت تعلقات پر دونوں جانب کی سردمہری کچھ کم ہو اور 16 سال پہلے نیسکوم اور سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے دستخط شدہ یادداشت پر سے گرد صاف کرکے اس پر عمل درآمد کے راستوں پر غور کیا جائے۔
میں آخر میں فقیر چند کی شخصیت کے ایسے پہلو ہر بات کرنا چاہوں گا جو اس نام کی وجہ سے تھا، جو ان کے والدین نے رکھا تھا یعنی فقیر چند۔ ان کی شخصیت میں واقعی ایک فقیری تھی، من کی فقیری، دل کی فقیری۔ ان کی شخصیت میں جتنی عاجزی تھی اتنی میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ یقیناً انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔
سودھیندر کلکرنی سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشیر اور پاکستان، بھارت اور چین کے تعاون سے چلنے والے ’فورم فار اے نیو ساؤتھ ایشیا‘ کے بانی ہیں۔ آپ نے Music of the Spinning Wheel: Mahatma Gandhi’s Manifesto for the Internet Age نامی کتاب بھی لکھی۔ آپ ان سے ٹوئٹر پر یہاں SudheenKulkarni@ رابطہ کرسکتے ہیں۔ جبکہ ان کا ای میل ایڈریس یہ [email protected] ہے۔
سودھیندر کلکرنی سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشیر اور پاکستان، بھارت اور چین کے تعاون سے چلنے والے ’فورم فار اے نیو ساؤتھ ایشیا‘ کے بانی ہیں۔ آپ نے Music of the Spinning Wheel: Mahatma Gandhi’s Manifesto for the Internet Age نامی کتاب بھی لکھی۔ آپ ان سے ٹوئٹر پر یہاں SudheenKulkarni@ رابطہ کرسکتے ہیں۔ جبکہ ان کا ای میل ایڈریس یہ [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔