کورونا ویکسین پاکستان کب تک پہنچے گی، اس کی قیمت کیا ہوگی؟
دنیا میں کورونا کی وبا کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد 8 دسمبر 2020 کا دن وہ تاریخی دن بنا جب امریکی میڈیسن کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی مشترکہ تیار کردہ ویکسین برطانیہ میں ایک 91 سالہ خاتون کو لگاکر ویکسینیشن کے عالمی پروگرام کا آغاز کیا گیا۔
فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے تیار کی گئی ویکسین کو تاحال کوئی نیا اور حتمی نام نہیں دیا گیا، اسے اب تک (بی ٹی این 162) کہا جا رہا ہے.
دونوں کمپنیوں نے رواں برس اپریل کے وسط میں اپنی ویکسین کا ابتدائی آزمائشی مرحلہ شروع کیا تھا، جس کے بعد ویکسین کے اگلے تین مرحلے بھی کامیابی سے ستمبر کے آخر تک پورے ہوئے۔
دونوں کمپنیوں کی مشترکہ تیار کردہ ویکسین کے نتائج کمپنیوں نے 13 نومبر 2020 کو جاری کیے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ تمام آزمائشی مراحل کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کورونا کے خلاف 95 فیصد کام کرتی ہے۔
کمپنیوں کے مطابق نئی تیار کی جانے والی ویکسین کورونا کے مرض سے تحفظ کے لیے 95 فیصد کام کرتی ہے۔
کمپنیوں کی جانب سے ویکسین کے آزمائشی پروگرام کو کامیاب قرار دیے جانے کے فوری بعد کمپنیوں نے امریکا سمیت دیگر ممالک کی ڈرگ ریگولیٹر اداروں سے ویکسین کے عام استعمال کی اجازت کے لیے رجوع کیا اور سب سے پہلے یورپی ملک برطانیہ کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے نے مذکورہ ویکسین کے عام استعمال کی منظوری دی۔
برطانوی ڈرگ ریگولیٹر ادارے نے 2 دسمبر 2020 کو فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین کے عام استعمال کی منظوری دی تھی۔
برطانوی حکومت نے ویکسین کے استعمال کی منظوری دینے سے قبل ہی کمپنیوں کو ویکسین کے لیے آرڈرز دے رکھے تھے اور کمپنیوں نے دسمبر کے پہلے ہفتے کے بعد برطانیہ کو محدود خوراک فراہم کیں، جس کے بعد 8 دسمبر کو برطانیہ کی ریاست انگلینڈ میں پہلی بار مذکورہ ویکسین کی خوراک عام افراد کو دی گئی۔
8 دسمبر 2020 کو سب سے پہلے ایک 91 سالہ خاتون کو ویکسین کی خوراک دی گئی، جس کے بعد اسی روز انگلینڈ کے دیگر عمر رسیدہ افراد کو بھی ویکسین کی پہلی خوراک دی گئی، جن افراد کو پہلی خوراک دی گئی انہیں اگلے 45 دن کے اندر دوسری خوراک دی جائے گی۔
برطانیہ جہاں وہ پہلا ملک بنا جس نے کورونا کی ویکسین کے عام استعمال کی اجازت دی، وہیں 10 دسمبر کو برطانوی محکمہ صحت و ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی نے مذکورہ ویکسین ایسے افراد کو لگانے پر پابندی عائد کردی، جنہیں الرجی کی شکایت ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق ایسے افراد کو مذکورہ ویکسین بالکل نہ دی جائے، جنہیں کسی طرح کے کھانے، دوا یا ایسی ہی دیگر چیزوں سے کوئی الرجی ہوتی ہو۔
برطانیہ میں کورونا ویکسین کے عام استعمال کے ایک دن بعد ہی کینیڈین حکومت نے بھی مذکورہ ویکسین کے عام استعمال کی اجازت دی۔
کینیڈین حکومت نے بھی برطانوی حکومت کی طرح پہلے ہی فائزر اور بائیو ٹیک این کو ویکسین کے آرڈرز دے رکھے تھے اور ابتدائی طور پر کینیڈا کو ڈھائی لاکھ کے قریب ڈوز ملیں گی، جنہیں سوا لاکھ افراد کو لگایا جائے گا، کیوں کہ ویکسین کی دو ڈوز ہر شخص کو لگنی ہیں۔
کینیڈین حکومت کی جانب سے بھی فائرز اور بائیو این ٹیک کی ویکسین کی منظوری دیے جانے کے بعد ہی یہ خبر بھی سامنے آئی کہ امریکی ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی بھی عنقریب کورونا ویکسین کے عام استعمال کی منظوری دے گی۔
امریکا کے کورونا سے متعلق کام کرنے والے حکومتی عہدیداروں اور ڈرگ ریگولیٹری کے ذمہ داروں نے تصدیق کی کہ ویکسین کی منظوری کا باریکی سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور ممکنہ طور پر جلد اس کے عام استعمال کی منظوری دی جائے گی۔
اگر فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین کو امریکی ڈرگ ریگولٹر نے دسمبر کے وسط تک استعمال کی اجازت دے دی تو اس کے فوری بعد متعدد یورپی ممالک بھی مذکورہ ویکسین کے استعمال کی منظوری دیں گے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ترقی پذیر اور امیر ممالک کے بعد ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے ممالک مذکورہ ویکسین کے استعمال کی اجازت دیں گے۔
یورپی ممالک کے بعد ممکنہ طور پر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور، جنوبی کوریا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بھارت جیسے ممالک مذکورہ ویکسین کے استعمال کی اجازت دیں گے تاہم ایسا کب تک ہوسکتا ہے، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے دو ماہ ویکسین کے عام استعمال کی منظوری کے لیے انتہائی اہم ہیں، کیوں کہ ظاہری طور پر ابھرتے ہوئے ممالک اور ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے بعد ہی مذکورہ ویکسین کے استعمال کی اجازت دیں گے اور غریب و پسماندہ ممالک بالکل آخر میں مذکورہ ویکسین کے استعمال کی منظوری دے سکیں گے۔
برطانوی اخبار دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں سب سے پہلے جرمنی ہی فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دے گا اور وہاں کی ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی ویکسین کے ٹرائلز و اس کے عام استعمال کے معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جرمنی کے بعد فرانس مذکورہ ویکسین کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے، جس کے بعد اٹلی اور اسپین جیسے ممالک بھی ویکسین کے استعمال کی اجازت دیں گے۔
جہاں 10 دسمبر تک ان ممالک نے ویکسین کے استعمال کا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، وہیں تمام ممالک نے پہلے ہی فائزر اور بائیو این ٹیک کو ویکسین کی 40 سے 80 لاکھ ڈوز کا آرڈر دے رکھا ہے۔
اس حوالے سے 9 دسمبر کو عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں بھی کہا کہ امیر ممالک نے اپنے شہریوں کے لیے 2021 کے اختتام تک کورونا ویکسین کی بڑی تعداد حاصل کرلی ہے، جس کے باعث ممکنہ طور پر غربت زدہ علاقوں میں اربوں لوگ ویکسین سے محروم ہوجائیں گے۔
ایمنسٹی کے مطابق 70 غریب ممالک اگلے سال تک اپنے 10 میں سے ایک شہری کو ویکسین فراہم کرپائیں گے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ویکسین کی تیاری سے قبل ہی ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کو 10 ارب ڈوز کا آرڈر پہلے ہی مل چکا ہے۔
سائنس جریدے نیچر کے مطابق 30 نومبر 2020 تک آکسفورڈ یونیورسٹی و آسترازینیکا کو سب سے زیادہ ویکسین کے آرڈرز ملے ہیں اور یہ دونوں کمپنیاں آرڈرز کے تحت 2021 میں ڈوز تیار کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزمائشی مرحلے کامیابی سے ختم کرنے والی کمپنیوں فائز و بائیو این ٹیک کو کم آرڈز ملے ہیں، اسی طرح دیگر ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھی کروڑوں ڈوزز کے آرڈرز مل چکے ہیں۔
مجموعی طور پر ویکسین تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں کو 2021 کے لیے 10 ارب ڈوز کے آرڈرز مل چکے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ کمپنیاں اتنی بڑی تعداد میں ڈوز تیار کر لیں گی، تاہم ان ڈوز کی تیاری میں وقت درکار ہوگا اور کئی ممالک کو 2022 تک کورونا کے ڈوزز ملنے کا امکان ہے۔
اب تک کتنی ویکسین آزمائشی مراحل مکمل کر چکی ہیں؟
10 دسمبر 2020 تک دنیا میں آزمائشی مراحل مکمل کرنے والی صرف ایک ہی فائز اور بائیو این ٹیک کی ویکسین تھی، تاہم برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی و میڈیسن کمپنی آسترازینیکا کی ویکسین کے حتمی آرمائشی مراحل کے نتائج بھی 9 دسمبر کو جاری کیے گئے تھے۔
طبی جریدے میں شائع نتائج میں بتایا گیا تھا کہ اگرچہ آکسفورڈ و آسترازینیکا کی ویکسین کووڈ کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ساتھ بیماری اور موت سے بھی تحفظ فراہم کرسکے گی تاہم اس کے باوجود مزید آزمائش کی ضرورت ہے۔
نتائج میں ویکسین کو 90 فیصد محفوظ اور اثر انگیز قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح چین کی ویکسین کی آزمائش کے حتمی نتائج بھی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے شائع کیے تھے اور ویکسین کو 86 فیصد تک مؤثر قرار دیا گیا۔
بیجنگ انسٹیٹوٹ آف بائیولوجیکل کی تیار کردہ ویکسین کا تیسرا مرحلہ یو اے ای میں جولائی میں شروع ہوا تھا، جس کے نتائج 10 دسمبر کو جاری کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ویکسین 86 فیصد تک مؤثر ہے۔
یہ چین کی وہی کمپنی ہے جس میں ایک ویکسین کی آزمائش پاکستان میں شروع کر رکھی ہے اور اس کمپنی نے بیک وقت مختلف قسم کی ویکسین تیار کی ہیں جو مختلف ممالک میں موسم کے حساب سے اثر انداز ہوسکیں گی۔
اس کے علاوہ نومبر کے آغاز میں ہی روسی سائنسدانوں نے کورونا ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور دسمبر میں مذکورہ ویکسین کو عام استعمال بھی کیا جانے لگا۔
روسی حکومت نے مذکورہ ویکسین کے کامیاب تجرنے کے دعوے کے بعد 5 دسمبر کو اسپوٹنک 5 نامی ویکسین کو عام افراد پر بھی استعمال کرنا شروع کیا اور ابتدائی طور پر ایسے افراد کو ڈوز دی گئی جو زیادہ تر سفر کرتے رہتے ہیں اور جنہیں کورونا لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔
یعنی اس وقت صرف ایک ہی ویکسین ایسی ہے جو آزمائشی مراحل مکمل کر چکی ہے اور دو ممالک برطانیہ و کینیڈا اس کے عام استعمال کی منظوری دے چکے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے حوالے سے کچھ نہیں کہا اور عالمی ادارہ صحت امیر و ترقی پذیر ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ نئی تیار ہونے والی ویکسین کے استعمال کے حوالے سے کیا لائحہ عمل اپناتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 10 دسمبر 2020 تک دنیا میں کوئی بھی ویکسین مصدقہ طور پر محفوظ قرار نہیں دی گئی تھی، البتہ بعض کمپنیوں کی ویکسینز کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت خود کسی بھی ویکسین کو اس وقت ہی مستند ماننے کا فیصلہ کرے گا جب کہ کسی بھی ویکسین کو امیر و ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں عام استعمال کی اجازت دینے کے بعد اس کے نتائج کو جاری کریں گے۔
ماہرین کے مطابق اس عمل میں کم از کم مزید 3 ماہ لگیں گے، جس کے بعد ہی ویکسین کو متعدد ممالک عام استعمال کرنے پر آمادہ ہوں گے۔
کورونا کی ویکسین کی تیاری کے بعد اس کی دنیا کے غریب ممالک یا افراد تک ترسیل کے لیے بنائے گئے منصوبے کوویکس کے ادارے گاوی کے مطابق مجموعی طور پر دنیا بھر میں 154 ویکسینز تیار کی جا چکی ہیں، جن کی آزمائش پر کام جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق محض 21 ویکسینز ایسی ہیں جن کی آزمائش کے رضاکاروں پر کوئی منفی اثرات سامنے نہیں آئے اور ان کے ابتدائی ٹرائلز کامیاب گئے ہیں۔
ابتدائی آزمائشی مرحلے میں کامیاب ہونے والی 21 میں سے محض 13 ویکسینز ایسی ہیں جن کی آزمائش کا دوسرا مرحلہ بھی کامیاب ہوا مگر اس سے اگلے آزمائشی مرحلے تک 2 دسمبر 2020 تک محض 10 ویکسین پہنچ سکی تھیں۔
ان آخری 10 ویکسینز میں سے ایک ویکسین نے اپنا آزمائشی پروگرام ختم کردیا جب کہ باقی دو نے اپنے تیسرے آزمائشی پروگرام کے نتائج جاری کردیے مگر 10 دسمبر 2020 تک صرف ایک ہی فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین ایسی تھی جس کے تمام ٹرائلز مکمل ہوچکے تھے اور وہ دنیا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے استعمال کی اجازت کی منتظر تھی۔
لیکن امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق 9 دسمبر تک دنیا کی 40 ویکسینز ایسی تھیں جن کی آزمائش پہلے مرحلے میں تھی، جب کہ 17 ویکسینز کا آزمائشی پروگرام دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 14 ویکسینز ایسی تھیں جن کی آزمائش تیسرے مرحلے میں تھیں جب کہ 6 ویکسینز اپنا آزمائشی ٹرائل ختم کرنے کے قریب تھیں اور ایک ویکسین استعمال کے قابل بن چکی تھی اور 2 ممالک نے اس کے استعمال کی منظوری بھی دے دی تھی۔
پاکستان میں کب تک کون سی ویکسین دستیاب ہوسکے گی؟
یہ سوال تقریباً ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے کہ ہمارے ملک میں کب تک اور کون سی ویکسین دستیاب ہوگی اور اس کی قیمت کیا ہوگی؟ لیکن ان انتہائی اہم سوالوں کے حتمی جوابات ملنا فی الحال ناممکن ہیں۔
اگرچہ حکومت پاکستان نے کورونا کی کوئی بھی ویکسین خریدنے کے لیے 10 کروڑ ڈالرز مختص کردیے ہیں اور حکومت کوئی بھی ویکسین حاصل کرنے کے لیے نہ صرف سفارتی تعلقات کو استعمال کر رہی ہے بلکہ عالمی اداروں کے پلیٹ فارمز کو بھی اس ضمن میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
7 دسمبر 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا تھا کہ حکومت کورونا ویکسین حاصل کرنے کے لیے چین اور روس سمیت دیگر ممالک سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے اور حکومت کو اُمید ہے کہ ویکسین آئندہ سال جنوری سے مارچ کے درمیان ملک میں دستیاب ہوگی۔
اگرچہ انہوں نے واضح نہیں کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے بجائے چین یا روس کی تیار کردہ ویکسین حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تاہم ان کی جانب سے ویکسین حاصل کرنے کے لیے چین و روس جیسے ممالک سے حکومتی مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ان ہی ممالک کی ویکسین استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔
تاہم اس بات کی حکومت کی جانب سے کوئی تصدیق نہیں کی گئی کہ پاکستان صرف چین یا روس کی ویکسین پر انحصار کرتا ہے۔
ماہرین صحت اور حکومتی بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے بجائے چین یا روس کی ویکسین پر انحصار کرے گا، کیوں کہ فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین پاکستان کے موسمی حالات کی وجہ سے یہاں اتنی مؤثر نہیں ہوگی۔
فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے حتمی ٹرائل ختم ہونے کے بعد طبی ماہرین نے بتایا تھا کہ ان کمپنیوں کی ویکسین کو اسٹور کرنے کے لیے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے کم کی ضرورت ہوگی اور پاکستان میں موسم اس سے زیادہ گرم رہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق فائزر و بائیو این ٹیک کو جنوبی ایشیا سمیت لاطینی امریکی ممالک میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں، کیوں کہ وہاں پر موسم گرم رہتا ہے، اس لیے ویکسین کو وہاں کے دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے پولیو قطروں کی طرح خصوصی اسٹوریج کے انتظامات کرنا پڑیں گے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کو گرم علاقوں تک پہنچانے کے لیے کولنگ اسٹوریج کی ضرورت ہوگی، کیوں کہ مذکورہ ویکسین کی افادیت پر منفی 70 ڈگری سے زائد گرم موسم میں اثر پڑتا ہے۔
پاکستان میں گرم موسم ہونے کی وجہ سے بھی حکومت مذکورہ ویکسین کو حاصل کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لے گی، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ تاحال حکومت پاکستان نے کسی بھی ویکسین کو استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی مگر ملک میں چین کی ویکسین کے جاری آزمائشی پروگرام کی وجہ سے بھی لوگوں میں ویکسین سے متعلق منفی خیالات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سارے افراد سمجھتے ہیں کہ کورونا ویکسین مرد حضرات کی تولیدی صحت ختم کرے گی اور اس میں کسی کو مارنے کی صلاحیت سمیت فائیو جی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، تاہم درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں۔
ماہرین صحت، حکومتی عہدیداروں اور مذہبی رہنماؤں نے کورونا ویکسین سے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے ایسے خطرناک خیالات اور سازشوں سے نمٹنے کے لیے بر وقت حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، یہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کورونا ویکسین سے متعلق پھیلنے والی افواہوں کو غلط اور مغربی سازش قرار دیا ہے۔
کورونا ویکسین کی قیمت کیا ہوگی؟
اس وقت جب کہ کورونا کی کوئی بھی ویکسین عام استعمال نہیں کی جا رہی ہے اور اسے مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش نہیں کیا گیا، ایسے میں کورونا کی کسی بھی ویکسین کی قیمت کا تعین کرنا مشکل ہے۔
تاہم کئی طبی کاروباری ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر طرح کی ویکسین کی قیمت 4 امریکی ڈالر سے 50 امریکی ڈالرز کے درمیان ہوگی۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ فائز و بائیو ٹیک کی ویکسین کی قیمت کیا ہوگی، تاہم امکان ہے کہ ان کی ویکسین کے ایک ڈوز کی قیمت 4 امریکی ڈالر تک ہوگی جو پاکستانی 650 روپے تک بنتے ہیں یعنی ایک شخص کو مکمل دو ڈوز حاصل کرنے کے لیے 1300 روپے تک خرج کرنے پڑیں گے۔
ساتھ ہی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویکسین کی قیمت اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
ایک اور امریکی اقتصادی جریدے فوربز کے مطابق فائزر و بائیو این ٹیک کی ایک ویکسین کی قیمت 20 امریکی ڈالر سے کم یعنی پاکستانی تین ہزار روپے سے زائد تک ہوسکتی ہے اور ہر شخص کو 2 ویکسین لگیں گی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص 7 ہزار روپے تک قیمت ادا کرے گا۔
رپورٹ کے مطابق دوسری ویکسینز فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین سے کم از کم 5 ڈالر مہنگی ہوسکتی ہیں اور عام طور پر دوسری ویکسینز کی قیمت 25 ڈالر سے 35 ڈالرز کے درمیان ہوں گی اور دیگر کمپنیوں کی ویکسینز بھی ہر شخص کو 2 لگیں گی۔
تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ چین و روس کی ویکسینز ان سے سستی ہوں گی اور جیسے ہی ویکسینز کو ہر ملک کی مقامی کمپنی تیار کرنے لگے گی، ویکسینز کی قیمتیں مزید کم ہوں گی، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
یاد رکھنے کی اہم باتیں
10 دسمبر تک دنیا میں صرف ایک ہی ویکسین ایسی تھی جس کے تمام آزمائشی مراحل مکمل ہوچکے تھے۔
10 دسمبر تک دنیا کے دو ممالک برطانیہ و کینیڈا نے تیار ہونے والی مذکورہ کورونا کی ویکسین کے استعمال کی اجازت دی تھی۔
10 دسمبر تک صرف ایک ہی ملک برطانیہ میں فائزر و بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین عام افراد کو لگائی جا چکی تھی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 10 دسمبر تک کسی بھی ویکسین کو کورونا کے تحفظ کے لیے محفوظ قرار نہیں دیا تھا۔
10 دسمبر تک فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے علاوہ چین اور برطانیہ کی ویکسینز کے حتمی ٹرائلز کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے تھے۔
10 دسمبر تک پاکستانی حکومت نے کسی بھی ویکسین کو حاصل نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔
پاکستان میں جنوری 2021 سے مارچ 2021 تک کورونا ویکسین کے پہنچنے کی اُمید ہے۔
کورونا کی کسی بھی ویکسین کی قیمت 650 روپے سے 3500 روپے کے درمیان ہوسکتی ہے اور دو ڈوز کی قیمت 1300 سے 7 ہزار کے درمیان تک ہوگی۔
حکومت پاکستان نے ویکسین کی خریداری کے لیے 10 کروڑ ڈالر یعنی پاکستانی 16 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں۔
کورونا ویکسین سے متعلق پھیلنے والی زیادہ تر معلومات غلط ہیں، ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ویکسین مرد حضرات کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
پاکستانی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے، اس حساب سے پاکستان کو 45 کروڑ کے قریب ویکسین کے ڈوز درکار ہوں گے۔