محمد بن سلمان نے سابق سعودی انٹیلی جنس عہدیدار کے قتل کا حکم نہیں دیا، وکیل
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے وکلا نے ان کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کے لیے تحریک جمع کرادی جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد کے خلاف اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے سابق سعودی انٹیلی جنس عہدیدار کے قتل کے لیے ہِٹ اسکواڈ کو حکم دیا، جبکہ امریکی عدالت میں الزامات سے انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔
106 صفحات پر مشتمل یہ مقدمہ اگست میں سابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کے جلاوطن سابق ساتھی سعد الجبری کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔
شہزادہ محمد بن نائف کو 2017 میں شاہی محل میں بغاوت کے دوران برطرف کردیا گیا تھا، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان ملک کے عملی طور پر حکمران بن گئے تھے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سعد الجبری نے دعویٰ کیا کہ انہیں بطور معاون اور اعلیٰ انٹیلی جنس عہدیدار کے طور پر کچھ ایسی معلومات ملی جو محمد بن سلمان کے لیے خطرہ بن سکتی تھی، جس پر سعودی ولی عہد نے نام نہاد 'ٹائیگر' ہٹ اسکواڈ کے ذریعے ان پر قاتلانہ حملہ کرایا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی عدالت نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو طلب کر لیا
مقدمے میں کہا گیا کہ ان پر حملے کی یہ مبینہ کوشش ٹائیگر اسکواڈ کی طرف سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں 2 اکتوبر 2018 کو قتل کیے جانے کے 13 روز بعد کی گئی۔
تاہم مقدمے میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہوگیا جب ٹائیگر اسکواڈ کے کینیڈا کی سرحد پہنچنے پر سیکیورٹی حکام چوکنا ہوگئے۔
مقدمے میں محمد بن سلمان کی نمائندگی کرنے والے مائیکل کیلوگ نے اپنی 87 صفحات پر مشتمل تحریک میں مقدمہ خارج کرنے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعد الجبری اخبارات میں جو کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں، لیکن اس کیس کا وفاقی عدالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تحریک میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چونکہ سعد الجبری سعودی عرب اور مالٹا کی شہریت رکھتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں، جہاں ان پر مبینہ جان لیوا حملہ ہوا، اس لیے انہیں یہ کیس امریکی عدالت میں لے جانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تحریک کے مطابق 'اگر الجبری کے الزامات کو سچ بھی مان لیا جائے تب بھی وہ یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ ان پر کینیڈا میں مبینہ جان لیوا حملہ کسی بھی طور پر امریکا میں ہوا'۔
امریکا میں یہ مقدمہ ایلین ٹورٹ قانون اور 1991 کے ٹورچر وِکٹِم پروٹیکشن قانون کے تحت درج کیا گیا تھا، جو غیر ملکی شہریوں کے خلاف شکایت درج کرانے کی اجازت دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی انٹیلی جنس کے سابق افسر کے خاندان کو نشانہ بنایا جارہا ہے، رپورٹ
مائیکل کیلوگ نے تحریک میں مزید لکھا ہے کہ محمد بن سلمان کو سربراہ مملکت کے طور پر عدالتی استثنیٰ حاصل ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مقدمہ ان سعودی الزامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے کہ سعد الجبری نے 11 ارب ڈالر چُرائے، تاہم الجبری نے ان الزامات کی تردید کی۔
واضح رہے کہ محمد بن سلمان اور سعودی حکومت پر انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جن میں 2017 میں کرپشن کے الزام میں سعودی شاہی خاندان کے اراکین کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے دوران حقوق کی پامالیاں بھی شامل ہے۔