عدالت نے بابراعظم اور اہلخانہ کو خاتون کو ہراساں کرنے سے روک دیا
سیشن کورٹ نے قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور ان کے اہلخانہ کو حامزہ مختار کو ہراساں کرنے سے روک دیا ہے۔
ہفتے کو ایڈیشنل سیشن جج عابد رضا نے خاتون حامزہ مختار کی ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔
مزید پڑھیں: خاتون کے سنگین الزامات: بابر اعظم کی لیگل ٹیم نے وکالت نامہ عدالت میں جمع کروادیا
عدالت نے کہا کہ پاکستان کا قانون ہر شہری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں لہٰذا درخواست میں نامزد افراد کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں۔
عدالت نے درخواست نمٹاتے ہوئے بابر اعظم اور ان کے اہلخانہ کو حکم دیا کہ وہ خاتون کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کردیں۔
واضح رہے کہ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم پر جنسی تعلقات سمیت سنگین الزامات عائد کرنے والی خاتون حامزہ مختار نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ قومی کرکٹر بابر اعظم کے اہلخانہ انہیں ہراساں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔
درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے عدالت حراساں کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
خاتون نے دو علیحدہ درخواستیں عدالت میں دائر کی تھیں جس میں سے ایک میں بابر اعظم پر جنسی استحصال سمیت سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ دوسری درخواست ہراساں کرنے سے روکنے کے لیے دائر کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بابراعظم کے خلاف سنگین الزامات، خاتون کا مقدمے کے اندراج کیلئے عدالت سے رجوع
خاتون کی جانب سے عائد کیے گئے سنگین الزامات پر کل سیشن کورٹ میں سماعت ہوئی تھی جس میں بابراعظم کے وکلا نے جوابی کارروائی شروع کرتے ہوئے وکالت نامہ جمع کرا دیا تھا۔
یاد رہے کہ حامزہ مختار نامی خاتون نے سی سی پی او لاہور کو درخواست میں فریق بناتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم بابر نے انہیں شادی کے بہانے 2012 سے مستقل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس دوران وہ حاملہ بھی ہوئیں اور بعدازاں انہوں نے ملزم کی ایما پر اسقاط حمل بھی کروایا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر کے اندراج کی کوشش کی گئی لیکن پولیس نے اس سلسلے میں کوئی شکایت درج نہ کی۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی ٹیم کے کپتان پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی۔
مزید پڑھیں: موسمِ سرما میں پہلی مرتبہ کے-ٹو سَر کرنے کی مہم کا آغاز
خاتون نے مؤقف اپنایا تھا کہ 2010 میں بابر اعظم نے انہیں پروپوز کیا جسے انہوں نے قبول کر لیا، ہم شادی کا فیصلہ کرچکے تھے لہٰذا ہم نے اپنے خاندانوں کو آگاہ کیا لیکن دونوں کے خاندانوں نے صاف انکار کیا جس کے بعد بابر اعظم اور میں نے کورٹ میرج کا فیصلہ کیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2011 میں بابر اعظم مجھے کورٹ میرج کا کہہ کر میرے گھر سے بھگا کر لے گیا اور ہم مختلف مقامات پر کرائے کے مکانوں میں قیام پذیر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک کھلاڑی کورونا کا شکار، انگلینڈ جنوبی افریقہ ون ڈے میچ ملتوی
خاتون کا کہنا تھا کہ اصرار کے باوجود بابر اعظم نے ان سے نکاح نہیں کیا اور دعویٰ کیا کہ 2014 سے پہلے نوکری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا سیلون کھولا جس سے وہ کرکترز کے اخراجات برداشت کرتی رہیں۔
حامزہ نے دعویٰ کیا کہ 2014 میں جب بابر اعظم کا نام پاکستانی کرکٹ ٹیم میں آیا تو ان کا رویہ آہستہ آہستہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا، میں 2016 میں حاملہ ہوگئی تھی جب میں نے بابر اعظم کو بتایا تو سن کر ان کا رویہ بہت عجیب ہوگیا، مجھے مارا پیٹا اور میں ان کے اصرار پر اسقاط حمل پر مجبور ہو گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'بالآخر تنگ آکر 2017 میں، میں نے بابر اعظم کے خلاف پولیس رپورٹ کی اور شکایت دیکھنے والے افسر نے بابر اعظم کو پیش کرنے کا کہا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے لیکن اسی رات بابر اعظم نے اس افسر کے سامنے ہمارے مشروط صلح نامے پر دستخط کروائے تھے، جس میں شرط یہ طے کی گئی تھی کہ بابر مجھ سے شادی کرلیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: مجھ پر کوئی دباؤ نہیں، بورڈ کے لانگ ٹرم پلان کا حصہ ہوں، بابر اعظم
انہوں نے کہا کہ '10 روز قبل میں نے ان کے خلاف دوبارہ شکایت درج کروائی، 20 نومبر کو بابراعظم نے بیرون ملک جانے سے قبل مجھے فون کرکے کہا تھا کہ اگر تم پولیس کے پاس گئی یا اب شادی کا مطالبہ کیا تو تم جان سے جاؤ گی اور تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا'۔
حامزہ کا کہنا تھا کہ '10 سال تک حد سے زیادہ زیادتی کے بعد اب میں یہاں انصاف کے لیے آئی ہوں'۔