‘عالمی اردو کانفرنس‘ کم از کم اپنے نام سے تو ناانصافی نہ کرے!
گزشتہ روز شہرِ قائد میں ’13ویں عالمی اردو کانفرنس‘ کا ’مَنچ‘ سج چکا ہے، جو اتوار 6 دسمبر تک اپنی رونقیں بکھیرتا رہے گا۔ اگرچہ ’کورونا‘ کی وبا کے باعث اس کی نوعیت مواصلاتی کردی گئی ہے، لیکن اس میں بالکل بھی دو رائے نہیں کہ ’کراچی آرٹس کونسل‘ کا مستقل مزاجی سے جاری یہ احسن قدم لائقِ تحسین اور سراہے جانے کے قابل ہے۔
2009ء کی دوسری عالمی کانفرنس سے ہم بھی تقریباً ہر سال ہی اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں اور یہ اتفاق تھا کہ حکیم محمد سعید کی تحریروں اور کتابوں کے ذریعے اسکول کے زمانے سے ہی ہمارے اندر قومی زبان اردو کی فکر سما چکی تھی اور 2008ء کے آخری ایّام میں جب ’پہلی عالمی اردو کانفرنس‘ کا آغاز ہوا، تو اتفاق سے یہی وہ برس تھا، جب ہم نے ملک بھر کی 50 سے زائد ادبی و علمی شخصیات کو اردو کے تحفظ کے حوالے سے خطوط لکھے تھے۔
ساتھ ہی ماہنامہ ’نونہال‘ میں 2006ء سے تب تک اس موضوع پر 5 عدد مضامین بھی شائع ہو چکے تھے۔ اس لیے ہمارے لیے 2008ء میں ’عالمی اردو کانفرنس‘ کا آغاز ایک عجیب سے فخر اور خوشی کا باعث تھا۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہم تنِ تنہا قومی زبان کی بات کر رہے ہیں، لیکن اب تو ہمارے اپنے ہی شہر میں اس نام سے ایک اتنی بڑی بزم سج رہی تھی۔
خیر، ’اردو کانفرنس‘ کے تجربات کے تعلق سے ہمارے پاس لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے، لیکن سرِ دست ہم اس کانفرنس کے موضوعات کے حوالے سے کچھ توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ یوں تو اس کانفرنس میں شروع سے ہی ’اردو ادب‘ کا رنگ بہت زیادہ رہا کہ یہ بالکل ادبی کانفرنس دکھائی دینے لگی، پھر بلاشبہ اور بہت سے اچھے اور مفید موضوعات بھی شامل ہوتے گئے، لیکن گزشتہ کانفرنس سے موضوعات میں کچھ عجیب وغریب سی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، ہمیں اسی پر کچھ بات کرنی ہے۔
جیسا کہ اس سال کی ’اردو کانفرنس‘ میں بھی ادب اور سماج میں خواتین کا کردار، پاکستان میں فنون کی صورتحال، ہماری تعلیم کے 100 برس اور بچوں کا ادب، جیسی بیٹھکوں کا انتظام ہے، جس میں بہت ممکن ہے کہ ’اردو‘ کے تعلق سے ہی ساری گفتگو ہو، لیکن اگر ان کے عنوانات سے بھی یہ وضاحت ہوجاتی تو زیادہ اچھا رہتا۔
مزید پڑھیے: اردو کانفرنس: ادب کی تجارت کا دوسرا نام؟
اس کے علاوہ اس کانفرنس کے ’100سال‘ والے ’مرکزی خیال‘ کے تحت اردو نظم، ناول، افسانے، غزل، صحافت، نثر، تنقید وغیرہ سے کتابوں کی رونمائی اور مشاعرے وغیرہ بلاشبہ ’اردو کانفرنس‘ کے مطابق بالکل درست ہیں، لیکن بدشگونی نہ سمجھیے گا کہ اس میں دیگر پاکستانی زبانوں کے حوالے سے بیٹھک براہِ راست ’اردو کانفرنس‘ سے متصادم ہیں، کیونکہ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی ’ادبی کانفرنس‘ نہیں بلکہ یہ اردو سے منسوب ایک سالانہ بیٹھک ہے۔
شاید منتظمین نے نئے موضوعات کی تلاش میں اور بعض ’دیگر‘ وجوہات کی بنا پر ’اردو کانفرنس‘ میں ایسے موضوعات کو جگہ دینا شروع کردی ہے، جو براہِ راست ’اردو کانفرنس‘ سے لگا نہیں کھاتے۔
ذرا جذباتی ہوئے بغیر ہماری مودبانہ عرضی پر غور کیجیے گا، کیونکہ سال گزشتہ بھی سرائیکی، سندھی اور پنجابی زبانوں کے ادب کے لیے بیٹھکیں رکھی گئی تھیں اور ایک عنوان ’پختون ثقافت کیا ہے؟ بھی تھا۔ ہم نے ’فیس بک‘ پر منطقی انداز میں اس چلن پر صدا بلند کی، تو ہمیں ’ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد‘ کا طعنہ دے دیا گیا، اگر کوئی ایرا غیرا یہ کہتا، تو ہم محسوس بھی نہ کرتے، لیکن یہ ’آوازہ‘ کہیں اور سے نہیں، بلکہ ہمارے اساتذہ میں سے ہی سنائی دیا، اس لیے ہمیں بے حد افسوس ہوا۔
تو آپ ہماری اس بات کو کسی کے خلاف اور کسی کی حمایت میں بالکل نہ سمجھیے، سیدھا سادا سی منطقی استدلال ہے۔ جیسے آپ ’چاول‘ پر ایک کانفرنس کر رہے ہیں، تو اس میں چاول کی اقسام اور بوائی سے لے کر اس کی فصل، اس کی کٹائی اور خواص سے لے کر اس سے جڑے ہوئے تمام مسائل، حتیٰ کہ قصے، کہانیاں اور روایات تک، سب پر بات کرسکتے ہیں۔ اس کانفرنس میں چاول کے پکوان پر بھی کلام ہوگا اور پلاؤ، بریانی، آلو چاول، مونگ کی دال چاول، ساگ چاول، کالی دال چاول سے لے کر اس کی بنی ہوئی کھیر اور دلیہ سب کچھ شامل ہوسکتا ہے، لیکن اس میں آپ صرف آلو پر یا صرف دال یا مٹر پر بات بالکل نہیں کریں گے، کیوں؟
وہ اس لیے کہ یہ موضوعات کانفرنس کے بنیادی عنوان سے یکسر متصادم ہیں۔ اسی طرح اور بھی کسی ایسے غذائی جنس پر بات ہوگی تو چاول کے تعلق سے ہی ہوگی، علیحدہ سے نہیں ہوگی، کیونکہ اس پروگرام کا بنیادی موضوع غذائی اجناس نہیں ہے۔
ہاں، اگر ہم فقط غذائی اجناس کی کانفرنس کر رہے ہوتے، تو اس میں ہم ہر طرح کے اجناس کا ذکر بصد شوق کرسکتے ہیں، تو بس ’اردو کانفرنس‘ کا معاملہ بھی کچھ یہی ہے۔ اگر ہمیں خاص دیگر پاکستانی زبانوں کے ادب پر مکالمہ کرنا ہی ہے، تو کیوں نہ اردو کانفرنس کے بعد الگ سے ایک ’ادبی میلہ‘ بھی سجا لیا جایا کرے، جہاں ہم بہت حُسن و خوبی سے تمام پاکستانی زبانوں کے ادب، فنون اور اپنے ملک کی مختلف ثقافتوں پر کلام کر سکتے ہیں۔
البتہ ’اردو کانفرنس‘ میں ہماری دیگر زبانوں کے حوالے سے موضوعات صرف اردو کے تعلق سے ہی شامل ہوسکتے ہیں، جیسا کہ 2019ء میں ایک اہم نشست ’دبستانِ اردو اور بلوچ شعرا‘ تھی۔ یہ سو فیصد ’اردو کانفرنس‘ کا موضوع ہے، اسی طرح ہمیں سندھی، پنجابی اور پشتو وغیرہ اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اردو سے تعلق اور تراجم پر بھی لازمی طور پر بیٹھکیں رکھنی چاہئیں۔ بلکہ ہم تو پورے برِصغیر پاک و ہند کو ہی ’اردو دیش‘ مانتے ہیں، اس لیے اس میں بنگلا زبان سے لے کر گجراتی، مراٹھی، تیلگو، ملیالم اور کنڑ سے تمل و دیگر ’برِصغیری زبانوں‘ کے اردو سے تعلق پر بھی بالخصوص گفتگو ہونی چاہیے، کیونکہ اردو کی جنم بھومی یہی برِصغیر ہے۔
ان سب زبانوں کے تال میل میں ہی اردو بھی سانس لیتی ہے۔ یہ ’ہند‘ میں کسی کی رقیب ہے اور نہ ہند کے پار اس کو کسی سے بیر ہے، بلکہ ہمیں تو اردو نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے مالدیپ اور افغانستان تک سبھی ’سارک‘ ممالک کے ایک مشترکہ اثاثے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس خطے کی تمام زبانوں کے ادب اور لسانیات پر اردو کے حوالے سے بیٹھکیں بھی ہماری ’عالمی اردو کانفرنس‘ کی زینت بنیں۔
ہمارا مقصد کسی بھی طرح اس ادبی اور علمی کاوش کا قد چھوٹا کرنا قطعی نہیں ہے، لیکن ہم 2009ء کی دوسری اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل کے ’رضا کار‘ رہے، اس کے بعد سے ہم نے اردو کانفرنس کے رنگ ڈھنگ کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ کے سبب نوجوانوں کی شرکت بڑھی اور ’گلیمر‘ اور چمک دمک میں بھی اضافہ ہوا۔
اگرچہ موضوعات کے حوالے سے پہلے بھی ہماری تجویز تھی کہ اس میں اردو تدریس و تحقیق کے ساتھ اردو لسانیات و جدید ابلاغیات وغیرہ کے حوالے سے چیزیں زیادہ شامل ہونی چاہئیں، لیکن اب یہ جو رخ اختیار کیا جا رہا ہے، یہ ’اردو کانفرنس‘ سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا۔ اگر ہم صاف گوئی سے کام لیں، تو گزشتہ چند برسوں سے ملک کے ایک معروف ناشر ادارے کی جانب سے شہر شہر سالانہ ’ادبی میلے‘ کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے، شاید ’اردو کانفرنس‘ نے بھی اسی طرز کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی انفرادیت پر سمجھوتا کرلیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ’اردو کانفرنس‘ اور ’ادبی میلے‘ میں کچھ فرق تو ہے۔
ذیل میں ہم ’اردو کانفرنس‘ کے لیے کچھ تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ صاحب، اگر تنقید کر رہے تھے، تو کچھ صلاح بھی دے دیتے، سو ہم اپنے تئیں وہ بھی دیے دیتے ہیں۔
جدید ابلاغی آلات پر اردو کا معاملہ اور اشتہارات میں ’رومن‘ کا چلن
اللہ مغفرت کرے جناب احمد جمیل مرزا کی، کہ وہ 1980ء کی دہائی میں ہی اردو رسم الخط کو کمپیوٹر کے لیے تیار کرگئے، ورنہ شاید آج اردو کا رسم الخط بہت مشکل میں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ’رومن‘ اردو کی منہ زوری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے ’مشتہرین‘ اور ’اشتہاری ایجینسیاں‘ سب سے زیادہ ذمہ دار دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ان کے ایک اشتہاری نعرے یا ’سلوگن‘ سے کس طرح ہمارے ’ابلاغ‘ کی جہتیں درہم برہم ہوجاتی ہیں۔ اس پر طرہ اب ’رومن‘ کا ’گھاؤ‘ ہے۔
کسی بھی سگنل پر ٹھیریے، تو گردن گھما کر اشتہاری بورڈ ضرور دیکھا کیجیے کہ کس طرح ’رومن اردو‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس غیر ضروری اور ضرر رساں چلن پر تشویش اپنی جگہ، لیکن ذرا انہیں پڑھنے کی کوشش کیجیے، تو دیکھیے لفظ کچھ سے کچھ پڑھے جانے سے کیسی مضحکہ خیز صورت بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ ’خیابان اتحاد‘ کے اختر کالونی والے سگنل پر ایک کپڑے دھونے والے سفوف کا اشتہار لگا ہوا تھا، جس میں رومن میں غالباً ’داغوں کی ٹیم‘ لکھنا چاہا ہوگا، جو ہم ’دھاگوں کی ٹیم‘ پڑھ کر الجھتے رہے۔ خدا جانے ’رومن‘ میں اشتہار لکھنے پر طباعت سَستی پڑتی ہے، یا ٹیکس میں کوئی چھوٹ مل جاتی ہے، جو ہر دوسرے اشتہار میں ’رومن‘ کا بگھار لگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہمیں شاید اندازہ نہیں ہے کہ یہ اردو کا نہایت سنگین مسئلہ ہے، اسے مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ’اردو کانفرنس‘ میں اس پر کھل کر بات ہو، مشتہرین، اشتہار ساز ادارے اور ماہرین ابلاغیات یکجا ہوں اور کوئی حاصل کلام سامنے آئے۔
مزید پڑھیے: 12ویں عالمی اردو کانفرنس اور ہمارے رویے
دوسری طرف جدید ڈیجیٹل ذرائع نے ہمارے اظہار کو ’مشینی‘ کردیا ہے، قلم کی جگہ اب بٹن اور اس کے بعد برقی شیشے کو فقط ’چُھو لینے‘ سے ہی لفظ بُنے جاتے ہیں۔ اس لیے اس پر بات ہونی چاہیے کہ جدید سوفٹ ویئرز سے لے کر مختلف ابلاغی آلات تک میں اردو کے لیے کہاں کہاں رکاوٹیں ہیں، کہاں اس میں رسم الخط آڑے ہے اور کہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’آئی ٹی‘ کے ماہرین اور ماہرینِ لسانیات کے زیرِ سایہ یہ نشست اردو کانفرنس کی اہم ترین بیٹھک میں شمار کی جاسکتی ہے، کیونکہ اب بھی بہت سے ابلاغی آلات اور ’سوفٹ ویئرز‘ میں اردو رسم الخط موجود نہ ہونے سے کافی پیچیدگیاں اور مسائل درپیش ہیں۔
اردو درس و تدریس نظر انداز نہ کیجیے
’اردو کانفرنس‘ میں تعلیم کے حوالے سے نشستیں تو شامل ہوتی رہی ہیں، لیکن اردو کے تعلق سے ایسی بیٹھکوں کو مزید پُراثر اور مفید بنانے کی ضرورت ہے۔ اردو قاعدے کی الف، ب سے لے کر اعلیٰ تعلیمی مدارج تک اردو کے نصاب، طریقہ تدریس اور اس سے سیکھی جانے والی اردو پر بات ہونی چاہیے، جس میں اردو کے اساتذہ اور ماہرین تعلیم کے ساتھ طلبہ کی نمائندگی بھی ہو، جو بتائیں کہ انہیں اردو پڑھنا بوجھ کیوں لگتا ہے۔
اس رائے کی روشنی میں اردو کے نصاب کو زیادہ بہتر اور دلچسپ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے انگریزی تعلیمی نظام میں اردو بطور مضمون پڑھنے کے باوجود آخر کیوں یہ مضمون فقط ’نمبر‘ اور ’گریڈ‘ سے زیادہ تعلق نہیں رکھتا۔ پھر ہمارے ہی شہر میں ایسے اسکول بھی موجود ہیں، جہاں طلبہ پر اردو بولنے پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے!
یہ دنیا کی کیسی ریاست ہے جہاں بچے کو ملک کی ’قومی زبان‘ بولنے پر سزا دی جاتی ہے؟ یقیناً یہ کسی حد تک انتظامی اور سرکاری معاملہ ہے، لیکن ’اردو کانفرنس‘ کا ’منچ‘ اس حوالے سے ایک موثر آواز تو بلند کر ہی سکتا ہے ناں۔
اردو نشر و اشاعت کی اٹھان
تعلیم کے بعد اردو کا ایک بڑا مسئلہ اردو نشر و اشاعت کے معاملات ہیں۔ ’اردو کانفرنس‘ میں مستقل طور پر یہ ضروری ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ ملکی اور دنیا بھر کے اردو اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کی اردو میں کیا صورتحال رہی؟ کیا ترقی ہوئی، کیا خرابی ہوئی، یا بہتری کیسے ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے متعلقہ ذمہ داروں کو بھی مدعو کیا جا سکتا ہے، تاکہ ان کا نقطہ نظر بھی سامنے آسکے۔ ٹی وی ڈراموں کے ساتھ ’یوٹیوب‘ پر نشر ہونے والے مواد کا اسکرپٹ لکھنے والے کون ہیں؟ ان کے موضوعات، معیار اور زبان و بیان کیسی ہے؟ وغیرہ۔
اخبارات زبان کے اظہار کا ایک عام ذریعہ ہے، ہم چاہے اسے مستند نہ بھی کہیں، تب بھی اس سے زبان کا فروغ ہوتا ہے، اس لیے اردو اخبارات کی حالتِ زار پر بھی کوئی قابلِ حل گفتگو ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی اردو فلموں کے موضوعات، زبان و بیان بھی ہر بار کا موضوع ہونا چاہیے۔ دنیا میں اردو کی سب سے بڑی پرچارک ہندوستانی فلمی صنعت کی اٹھان اور ہمارے مقامی سنیما کی سمت کیا ہے؟ وغیرہ جیسے موضوعات بھی اس عالمی کانفرنس کے سالانہ موضوع ہونے چاہئیں۔
اردو املے کے اختلافات
ایک طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سماجی زوال کے سبب اردو بھی پسپا ہو رہی ہے، تو دوسری طرف اس عالم میں بھی یہ صورت ہے کہ بہت سے لکھنے پڑھنے والوں کو یہی نہیں پتا کہ اردو کے لاتعداد لفظوں کو لکھنے کا درست اور معیاری ہجے کیا ہے، کیونکہ بعضے لفظوں کو غلط لکھنے والے اتنے زیادہ ہیں کہ الٹا درست املا بتانے والوں کو ہی غلط کہا جانے لگتا ہے۔
اس لیے ’اردو کانفرنس‘ میں اردو املے کے حوالے سے تضادات اور اختلافات کا کوئی حل نکالنے کی راہ بھی نکلنی چاہیے تاکہ ہماری اردو سے دُور ہونے والے بچے ایک ہی لفظ کو لکھنے کی متضاد ہجے سے الجھ کر اردو سے دُور نہ ہوں۔
ایک سال میں کیا امیدیں جاگیں؟
دنیا سے چلے جانے والے مشاہیرِ علمی کا سوگ منانے کو تو ہر ’اردو کانفرنس‘ میں ہی اہتمام ہوجاتا ہے، جو بلاشبہ ضروری بھی ہے، لیکن ہمارے آنے والے کل کے لیے اردو کی زمام سنبھالنے والے کون ہیں؟ اور مستقبل کی اردو شاعری، افسانہ نگاری، اردو لسانیات، اردو درس و تدریس اور تحقیق کا شاہ سوار کون بننے والا ہے؟
گزشتہ ایک سال میں کیا کسی نے نئی نسل کو اردو سے جوڑنے کے لیے کوئی دلچسپ طریقہ اختیار کیا؟ وغیرہ۔ شاید اس حوالے سے ہر سال ایک عمدہ محفل سجائی جاسکتی ہے، جو اردو کے لیے روشن امید بننے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہوگی اور ان کے کام کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بھی۔ ’اردو کانفرنس‘ کا نوجوان مشاعرہ بھی اس طرز کی ایک عمدہ کوشش ہے۔
دلچسپ ’اردو دوست‘ سرگرمیاں
گزشتہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ ’عالمی اردو کانفرنس‘ کو پُرکشش بنانے کے لیے اس میں مختلف رنگ بھرے گئے، نوجوانوں کو ’اردو کانفرنس‘ کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی کچھ کوششیں دیکھی جاسکتی ہیں، لیکن اس کانفرنس میں نوجوانوں اور چھوٹے بچوں کو اردو زبان کی طرف راغب کرنے کے لیے مختلف دلچسپ سرگرمیوں کا انعقاد نہیں دیکھا گیا، کہ ایسے پروگرام ہوں، جس سے ان کی اردو اور زبان و بیان بہتر ہو اور اردو کے مطالعے اور اردو سیکھنے کا رجحان بڑھے۔
اس سلسلے میں شعر و شاعری، بیت بازی، اردو ادب اور تاریخ کے حوالے سے دلچسپ سوال جواب، اردو کے مباحثے یا تحریر و تقریر وغیرہ جیسی کوئی بیٹھک رکھ کر مستقبل کی اردو کی آبیاری کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی عمدہ زبان و بیان کے حوالے سے ان کی ستائش کا بھی کوئی منظم سلسلہ ہونا چاہیے۔ نئی نسل میں اردو سے رغبت پیدا کرنے کے لیے ہر سال انہیں کوئی ایوارڈ اور کوئی اعزاز دیا جائے، تاکہ انہیں اچھی اور درست اردو سے دلچسپی اور کوئی تعلق پیدا ہو.
اردو کے نفاذ کا مسئلہ
’عالمی اردو کانفرنس‘ شاید اپنی ہر کانفرنس میں ہی آئین کی دفعہ 251 کے تحت نفاذِ اردو کی قرارداد منظور کراتی رہی، لیکن پھر یہ ہوا کہ اس کے ساتھ دیگر پاکستانی زبانوں کو بھی بہت سے ناعاقبت اندیشوں کے زور پر وہاں ’قومی زبان‘ پکارا جانے لگا ہے۔
اس صورتحال پر بھی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ پاکستان کی اساس اور بنیاد کا معاملہ ہے۔ اس ریاست میں اردو کی اصل جنگ ’انگریزی‘ اور اس کے پروردہ ’اشرافیہ‘ سے ہے، اس لیے جب تک آئین کی دفعہ 251 پر عمل نہیں ہوجاتا، اس حوالے سے حکومتی ذمہ داران کو ’عالمی اردو کانفرنس‘ کے ’مَنچ‘ پر جوابدہ کیا جائے اور ان رکاوٹوں کو بے نقاب کیا جائے، جو عدالتی احکامات کے باوجود اردو کو ریاستی زبان بننے سے روکے ہوئے ہے۔
اردو کے حوالے سے ’پیچیدگیوں‘ کا تدارک
بدقسمتی سے اردو کے حوالے سے ہمارے سماج میں جو پیچیدگیاں سیاسی اور ادبی، ہر دو سطح پر دیکھی جاتی ہیں، ان کے تدارک کے لیے بھی اس عالمی ’منچ‘ میں کوئی محفل سجنی چاہیے، جس میں اردو کو اپنی زبان نہ ماننے جیسے سیاسی بیانات سے لے کر اردو میں لکھنے والوں کے ایسی سوچ پر بھی غور و فکر ہونی چاہیے کہ ’وہ‘ شاعری تو اردو میں کرکے دوام عروج کو پہنچے، لیکن کہہ دیتے ہیں کہ ’میں اردو کا کلچر نہیں مانتا!‘ اردو ناولوں کا ڈھیر لگا دینے والے ادیب یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ اب اردو کے ’الٹے بانس بریلی کو‘ جیسے محاورے اور ’روز مرہ‘ نہیں چلیں گے، اور بس اب ’ہماری‘ زبان ہی ’معیار‘ کہلائے گی۔
آخر اردو سے ہی شہرت پانے والوں کا اسی زبان سے متعلق ایسی باتوں کی ’وجہ‘ ہوتی کیا ہے؟ اب تو انتہا یہ ہے کہ انتہائی ناعاقبت اندیش ‘دانش وریہ’ اردو کو ’ہندی‘ کہنے کے درپے ہوگئی ہے۔
سرحد پار اردو کو زندہ رکھنے کی سبیل
’عالمی اردو کانفرنس‘ میں ہندوستان اور بنگلا دیش سمیت برطانیہ، امریکا، دبئی اور ڈنمارک وغیرہ میں اردو کے حوالے سے مقررین کی جانب سے شرکت کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، بلکہ یہ بھی ایک مستقل سلسلہ ہونا چاہیے، تاکہ ہمیں پتا چلے کہ پاکستان سے باہر یا مغرب میں ایشیائی تارکین وطن کس طرح اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
وہاں کی اردو کی صورتحال اور اٹھان کیا ہے؟ بالخصوص رسم الخط کا ماجرا پتا چلے اور ’اردو کانفرنس‘ وہاں اردو کے جملہ مسائل کے حل کے لیے کس طرح معاونت کرسکتی ہے یا ان کے لیے کیسے کوئی سہارے کا بندوبست کرسکتی ہے۔ اس سے یقیناً ’اردو کانفرنس‘ کا ایک واضح عملی فائدہ سامنے آئے گا۔
’عالمی اردو کانفرنس کمیٹی‘ کی تشکیل
ہر سال سجنے والی اس ’عالمی‘ بزم میں ایک سال کے دوران دنیا بھر میں اردو کے حوالے سے ہونے والی اچھی اور بُری چیزوں کو دیکھنے کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ ’کراچی آرٹس کونسل‘ مستقل بنیادوں پر اپنی ایک ’عالمی اردو کانفرنس کمیٹی‘ تشکیل دے دے، جو ایک کانفرنس سے اگلی کانفرنس تک مستقل کام کیا کرے اور ایک سال کے دوران مقامی اور عالمی سطح پر اردو کے تعلق سے ہونے والی چیزوں کو اگلی اردو کانفرنس میں باقاعدہ موضوع بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے، تاکہ ہر سال ہونے والی اردو کے اس عالمی اسٹیج کو زیادہ سے زیادہ مفید اور موثر بنایا جاسکے۔
’عالمی اردو کانفرنس‘ کے لیے ہر سال نئے موضوعات کی تلاش یقیناً ایک مشکل مرحلہ ہے، لیکن ہمارے خیال میں کسی اہم اور تشنہ موضوع کو اگلے برس دوبارہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے آپ اگر ہر بار اردو لسانیات، اردو سائنس، اردو تعلیم و تحقیق، اردو رسم الخط، اردو تہذیب اور نفاذِ اردو وغیرہ سے لے کر اردو ادب کی مختلف جہتوں پر بات کرتے ہوئے ہر بار پچھلے حاصل کلام سے آگے کی گفتگو کریں، اور متعلقہ شعبے میں گزشتہ ایک سال میں ہونے والی تبدیلیوں پر بالخصوص بات کریں، خرابیوں کی نشاندہی کریں، نئے مسائل کو موضوع بنائیں اور کامیابیوں کی ستائش کریں، تو یقیناً یہ امر اردو کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی ’عالمی اردو کانفرنس‘ کے بینر اور دیگر مختلف مواد پر انگریزی کے چلن پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
آخر میں مکرر عرض کیے دیتے ہیں کہ ہم نے صرف اس شہر کے باسی اور بطور اردو کے ادنیٰ طالب علم یہ سارے دُکھڑے روئے ہیں۔ امید ہے کچھ سنوائی بھی ہوگی۔ ہماری ان تمام گزارشات کا مقصود یہ ہے کہ ’عالمی اردو کانفرنس‘ اپنے نام سے انصاف کرے اور ’عالمی اردو کانفرنس‘ دکھائی دے، خدانخواستہ ’المیہ اردو کانفرنس‘ نہ بن جائے!
تبصرے (4) بند ہیں