صدر مملکت کا 4 دسمبر کو ملک بھر میں یوم دعا منانے کا اعلان
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کورونا وائرس کے ملک میں تیزی سے پھیلاؤ کے پیش نظر جمعہ 4 دسمبر کو ملک بھر میں یوم دعا منانے کا اعلان کیا ہے۔
ایوان صدر میں کورونا وائرس کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے علما سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ 17 اپریل کو یومیہ کورونا کے 500 مریض سامنے آرہے تھے اور جون کے مہینے میں یہ بڑھ گیا اور 12 جون تک 6 ہزار 400 تک پہنچ گیا لیکن پھر یہ لوگوں تک پہنچتے پہنچتے یہاں تک رک گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس کے تقریباً 3500 نئے متاثرین، فعال کیسز 50 ہزار سے زائد
ان کا کہنا تھا کہ سردیوں میں وبا کا دوسرا حملہ ہے، اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ سے گزارش کی کہ جو کامیابیاں ہم نے پہلے حاصل کیں، انہی کو دوبارہ محنت کرکے لوگوں تک اپنی بات پہنچا کر کامیابی حاصل کی جائے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہمیں کورونا سے بچنا ہے، کورونا سے لڑنا ہے والی کیفیت کو ہٹا دیا جائے۔
انہوں نے علما کے نام پیغام میں کہا کہ منبر اور محراب سے آپ کے ڈسپلن کی وجہ سے جو پیغام گیا میں ریاست کی طرف سے اسے سراہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ انتہائی منظم ہیں، آپ لوگوں کے کہنے سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، لوگوں کو اس کامیابی کے بعد اس کا اندازہ ہوا، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان سارے معاملات میں علما کو ساتھ لے کر چلیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ناموس رسالت ﷺ اور اسلامی تعاون تنظیم کی قرارداد کے اعتبار سے جو کردار وزیر اعظم نے ادا کیا ہے اور اسلامی تعاون تنظیم نے جو بیان دیا اس کو بھی یہاں علما نے سراہا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے کی درخواست مسترد
صدر مملکت نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر پر علما نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری لہر میں لوگوں کی سنجیدگی کم ہو گئی ہے اور لوگ اس کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے جتنی پہلی وارننگ میں دی گئی تھی اور اس وجہ سے علما نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی طے پایا کہ جمعے کے اجتماعات کے اندر خصوصاً 4 دسمبر کو یوم دعا منایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 4 دسمبر کو ملک بھر میں یوم دعا منایا جائے گا اور علما نے اتفاق کیا کہ تمام اجتماعات اور دروس میں لوگوں کو آگاہی دیتے رہیں، ناصرف مساجد میں ایس او پیز کا اہتمام کریں گے بلکہ آپ کے کہنے سے لوگ بازاروں میں بھی احتیاط کریں گے اور اس طرح سارے معاشرے پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بازاروں، مارکیٹوں اور شادیوں میں اجتماعات کے حوالے سے حکومت اپیل کے ذریعے کوشش کررہی ہے اور آپ پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے کے ہر فرد تک اس بات کو پہنچایا جائے۔
مزید پڑھیں: ’کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی نہ رکی تو ہم زندگی و معاش دونوں سے محروم ہوجائیں گے‘
صدر مملکت نے کہا کہ جو ایس او پیز آپ نے 17 اپریل کو طے کیے تھے، ان کا علما نے دوبارہ اعادہ کیا ہے اور ہاتھ دھونے، ماسک پہننے کے ساتھ ساتھ صفیں بناتے ہوئے اس میں بھی فاصلہ برقرار رکھا جائے۔
سردیوں میں مساجد میں قالین کے استعمال کے حوالے انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی برائے صحت نے کہا ہے کہ بہتر ہے کہ قالین نہ ہوں لیکن اگر رکھنے ہیں تو یہ قالین اسپرے کر کے رکھے جائیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا کہ وہ اپنے ساتھ رومال رکھتے ہیں تاکہ اسے سجدے کی جگہ پر رکھا جا سکے۔
اس موقع پر ڈاکٹر عارف علوی نے اس معاملے پر سیاستدانوں کے اتفاق رائے کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ علما مساجد سے احتیاط کی تجاویز دے رہے ہوں اور سیاست میں جلسے جلوس اسی انداز سے چلتے رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ علما نے سیاستدانوں اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس بات پر اتفاق ہونا چاہیے کہ جلسے جلوسوں کو کچھ عرصے کے لیے مؤخر کردیا جائے تاکہ کم از کم اس وبا کا مقابلہ کر لیا جائے، اس کے بعد اپنے جمہوری حقوق پر واپس آیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانچ دن میں 10 ڈاکٹر کورونا سے جاں بحق
ڈاکٹر عارف علوی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں علما کو میڈیا کا کردار بھی کم ہوتا ہوا محسوس ہوا ہے اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ بھی لوگوں کو اس حوالے سے یاد دہانی کرائے تاکہ اس وبا کا مقابلہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ دعا، عبادات، احتیاط اور غریبوں کا خیال رکھنے کی ہی بدولت پاکستان نے پہلی لہر کا مقابلہ کیا اور اسی کی بدولت ہم آگے بھی اس کا مقابلہ کریں گے۔
علما سے مشاورت کی روشنی میں متفقہ اعلامیہ
بعد ازاں وزارت مذہبی امور نے صدر مملکت کا علما سے مشاورت کی روشنی میں متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔
اعلامیے میں مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز کے اہتمام کے حوالے سے جاری کیے گئے نکات درج ذیل ہیں:
1۔ ممکنہ طور پر سردیوں میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات کی روک تھام کے لیے علمائے کرام و مشائخ عظام پہلی لہر کی طرح اپنا موثر کردار ادا کریں۔
2۔ سابقہ متفقہ احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) پر مکمل عمل درآمد کی کوشش کی جائے۔
3۔ دینی مدارس کے جلسے، تبلیغی اجتماعات، اعراس بزرگان دین، محافل میلاد اور محافل ذکر میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شمولیت سے احتراز کیا جائے۔
4۔ مساجد، مدارس، خانقاہ اور امام بارگاہ سے دینی احکامات کی روشنی میں کورونا وبا کے پیش نظر حفظان صحت اور احتیاطی تدابیر کی آگاہی کا پیٖغام دیا جائے۔
5۔ آج کے اس فورم نے، جس میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تمام مسالک کے علما و مشائخ نے شرکت کی، تمام سیاسی رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر باہمی طور پر احتیاطی تدابیر کو یقینی بنایا جائے۔
6۔ فورم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ کل بروز جمع خصوصی 'یوم دعا' کے طور پر منایا جائے اور تمام ملک کے خطبا، مساجد اور دینی مواعظ میں کورونا وائرس سے آگاہی، احتیاطی تدابیر اور رجوع الی اللہ پر گفتگو کریں۔
7۔ تمام ملک میں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر آج کے فورم کی طرح اسی نوعیت کے علما و مشائخ کے اجلاس ڈی سی اور اے سی کی نگرانی میں منعقد کیے جائیں اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہم کو مسجد، محراب، امام بارگاہ، مدرسہ اور خانقاہ سے چلایا جائے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور ہر گرزتے دن کے ساتھ کبھی اموات تو کبھی کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
اگرچہ حکام کی جانب سے دوسری لہر کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی بندش سمیت مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم کورونا وائرس سے متعلق حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزیاں نظر آرہی ہیں۔
ملک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 6 ہزار 810 ہے جس میں سے 3 لاکھ 46 ہزار 951 صحتیاب ہوچکے ہیں جو 85 فیصد سے زائد ہے جبکہ 8 ہزار 205 مریضوں کا انتقال ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا کے بڑھتے کیسز کے باوجود اپوزیشن جلسے کرنے سے کیوں نہیں رک رہی؟
خیال رہے کہ ملک میں اس عالمی وبا کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو رپورٹ ہوا تھا جو جون میں عروج پر پہنچ گیا تاہم جولائی سے کیسز میں کمی نظر آئی اور ستمبر تک بہتری کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
اکتوبر اور خاص طور پر نومبر میں وبا کی شدت میں دوبارہ تیزی آگئی تھی اور حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کے علاوہ متعدد پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔