تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)، مہنگی ایل این جی کس نے خریدی؟
اگر آپ آج کل ایل این جی کی درآمد کے حوالے سے ہونے والی بحث سے پریشان ہیں تو ہم آپ کے سامنے وہ نکتہ بیان کردیتے ہیں جو اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
سردی کے موسم میں گیس کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور سردی کے موسم میں گیس کی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لیے دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں کے لیے گیس درآمد کرنے کے انتظامات کئی مہینے پہلے ہی کرلیے جاتے ہیں۔ اگر پہلے ہی یہ انتظامات نہ کیے جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ بعد میں مہنگے داموں گیس خریدنی پڑے گی، اور یہاں بالکل ایس ہی ہوا ہے۔
ایل این جی کی درآمد کا طریقہ کار تیل کی درآمد سے تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہے۔ پہلے گیس کی تقسیم کار کمپنیوں خاص طور پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سے گیس کی طلب کا تخمینہ مانگا جاتا ہے۔ ایس این جی پی ایل ملک کے شمالی صوبوں میں گیس کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جہاں شدید سردی کے باعث گیس کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیے: وزیرِاعظم پروگرام کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہوگی؟
گیس کے تخمینے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کو بھجوائے جاتے ہیں۔ پی ایل ایل ایک سرکاری کمپنی ہے جس کے ذمے ایل این جی کی درآمد کا کام ہے۔ پی ایل ایل کے مطابق اسے عام دنوں میں ایل این جی کا کارگو بک کرنے کے لیے 90 سے 120 دن درکار ہوتے ہیں۔ جب طلب کے تخمینے موصول ہوتے ہیں تو اس حساب سے ایل این جی کا آرڈر بک کردیا جاتا ہے۔
پی ایل ایل نے 2018ء میں ایک سخت خط لکھا جس میں تاخیر سے تخمینے کی فراہمی کے مسائل اور پھر اخراجات میں اضافے سے متعلق لکھا گیا تھا. خط کی ابتدائی سطریں اس طرح تھیں کہ ’ایس این جی پی ایل نے 25 اکتوبر کو لکھے گئے اپنے خط میں دسمبر 2018ء، جنوری 2019ء اور فروری 2019ء میں آر ایل این جی کی اضافی ضرورت سے مطلع کیا۔ اس ضمن میں آرڈر بک کرنے کے لیے درکار وقت کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ سردیوں کے آغاز کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی‘۔
’پی ایل ایل نے متعدد مرتبہ ایس این جی پی ایل اور پاور ڈویژن کو بروقت تخمینے دینے کے بارے میں مطلع کیا کیونکہ مسابقتی قیمتوں پر ایل این جی کی خریداری کے لیے 3 سے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس وقت ایل این جی کے ٹینڈر جاری کرنے سے بولی لگانے والوں کو راغب نہیں جاسکتا کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر گیس کی طلب زیادہ ہے اور دستیاب گیس کی قیمت بھی ایک حد پر برقرار رہے گی‘۔
کچھ دنوں بعد پی ایل ایل نے وزارتِ توانائی کو ایک اور خط لکھا جس میں انہیں کہا کہ وہ جنوری اور فروری کی ایل این جی ضروریات پی ایس او کے ذریعے سے پوری کرلیں کیونکہ پی ایس او کو کانٹریکٹ گیس کی ملنے والی قیمت پی ایل ایل کو ملنے والی قیمتوں سے کم ہے۔
پی ایل ایل نے نومبر 2018ء میں 3 کارگو کے لیے بولیاں طلب کیں۔ ان کارگو کو جنوری اور فروری 2019ء میں یہاں پہنچنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بولیاں تاخیر سے طلب کی گئی تھیں اس وجہ سے برینٹ خام تیل کی قیمت کی نسبت یہ 14 فیصد زیادہ قیمت پر بولیاں لگیں۔ ایل این جی کی قیمت کا تعین عموماً برینٹ خام تیل کی قیمت کی نسبت سے کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: کورونا کے بڑھتے کیسز کے باوجود اپوزیشن جلسے کرنے سے کیوں نہیں رک رہی؟
خط میں کہا گیا کہ اس بات کے پیش نظر کہ پی ایس او کی جانب سے کیے گئے ایل این جی کے معاہدے میں قیمت کا تعین برینٹ تیل کے 13.37 فیصد کے حساب سے ہے جو پی ایل ایل کو ملنے والی سستی ترین بولی سے بھی کم ہے۔
پی ایل ایل نے وزارت کو مطلع کیا کہ ایل این جی کے ضمن ایک فیصد کا فرق بھی بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر پی ایس او قطر کے ساتھ کیے گئے طویل مدتی معاہدے (جو گزشتہ حکومت نے کیا تھا اور موجودہ حکومت اس پر بہت مہنگا ہونے کے الزامات لگا رہی ہے) کی مدد سے گیس حاصل کرسکے تو اس سے ’ایک سے سوا کروڑ ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے‘۔
یہ تھی تاخیر کرنے کی قیمت، یعنی ان میں برینٹ تیل کی قیمت میں اضافے اور گیس فراہمی کے وقت میں کمی کی وجہ سے اضافہ ہوتا رہا۔
گزشتہ سال پی ایل ایل کو طلب کے تخمینے اپریل کے مہینے میں ہی موصول ہوگئے تھے اور پی ایل ایل نے اس حساب سے سال بھر کی گیس خریداری کا شیڈول بھی تیار کرلیا تھا۔ اس شیڈول میں اکتوبر کے مہینے تک کے لیے 30 کارگو شامل تھے جبکہ نومبر اور دسمبر کے مہینے کے لیے بولیاں اگست میں طلب کی گئیں۔ ان بولیوں کے تحت اکتوبر اور نومبر کے مہینوں کے لیے 6 کارگو اور دسمبر کے مہینے کے لیے 4 کارگو بک کیے گئے۔
لیکن اس سال کچھ گڑبڑ ہوگئی۔ پی ایل ایل کی ویب سائٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں بولیاں طلب کی گئیں جو ستمبر میں موصول ہونے والی گیس کے حوالے سے تھیں (یہ اسپاٹ کارگو تھا جسے طویل مدتی معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ طلب کی صورت میں خریدا جاتا ہے)۔ پی ایل ایل کی قسمت اچھی تھی جو انہیں اس کی قیمت برینٹ کی قیمت کے 10.88 فیصد پر ملی (جبکہ معاہدے کی قیمت 13.37 فیصد تھی)۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کورونا کی وجہ سے مارکیٹ گراوٹ کا شکار تھی۔
مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگست میں وہی وقت تھا کہ جب معمول کے مطابق سردیوں کے دوران طلب پوری کرنے کے لیے گیس خریداری کی بولیاں طلب کرلینی چاہیے تھیں اور کوشش کرکے ان کم قیمتوں پر 5 سالہ مدت کے گیس فراہمی کے معاہدے بھی کرنے چاہیے تھے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دوران (پاکستان سے باہر) دیگر خریداروں کی جانب سے اس کم قیمت پر طویل مدت کے کم از کم 3 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ یہ سب برینٹ کی قیمت کے 10 فیصد سے کچھ زیادہ قیمت پر ہی طے پائے ہیں۔ یہ وہ قیمت ہے جو ان دنوں پاکستان کو ملنے والی قیمتوں سے بہت زیادہ کم ہے۔
مزید پڑھیے: کیا حکمران ملک چلانے کو مذاق سمجھتے ہیں؟
لیکن پاکستان نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے نومبر کے مہینے میں درکار گیس کے لیے ستمبر میں بولیاں طلب کیں اور یہ تمام بولیاں طویل مدتی معاہدے کی قیمت سے بہت زیادہ تھیں۔ ان میں سے سب سے کم بولیاں 13.48 اور 14.23 فیصد کی تھیں۔ کچھ بولیاں تو 15 اور 16 فیصد تک پہنچی ہوئی تھیں جو ایک طویل عرصے کے دوران سب سے مہنگی بولی تھی۔ اس کے ایک ہفتے بعد نومبر کے لیے ہی ایک بار پھر بولیاں طلب کی گئیں اور ان میں بھی سب سے کم بولی 13.87 کی تھی جو کہ معاہدے کی قیمت سے زیادہ ہے۔
اس وقت تک ایل این جی مارکیٹ میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ پاکستان کو گیس کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت نے دسمبر میں استعمال ہونے والی گیس کے 6 کارگو کے لیے 3 مہینے تاخیر سے اکتوبر میں بولیاں طلب کیں۔ اس کے بعد تو جیسے مارا ماری شروع ہوگئی۔ بولیاں لگنے کا سلسلہ تو شروع ہوگیا لیکن یہ 16.1 سے 19.3 فیصد کے درمیان تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایل این جی کی اتنی مہنگی قیمتیں نہیں دیکھی گئیں۔
اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ بدانتظامی کی وجہ سے اس موسمِ سرما میں ایل این جی کی درآمد میں پاکستان کو 20 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہورہا کہ جب موجودہ حکومت گزشتہ حکومت پر قطر سے کیے جانے ایل این جی کی درآمد کے 15 سالہ معاہدے پر کرپشن کے الزامات عائد کرنے میں مصروف ہے۔
یہ مضمون 3 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں