• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پولیو وائرس کی منتقلی: 4 اہم نکات جو وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنتے ہیں

اورل، فضلے اور فرد سے فرد وائرس کی منتقلی کے وہ اہم راستے ہیں جنہیں یہ اکثر انسانی جسم کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
شائع November 28, 2020 اپ ڈیٹ November 29, 2020

عالمی سطح پر وائلڈ پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی غرض سے رواں برس متعدد معلوماتی مہمات چلائی گئیں، جن میں بنیادی طور پر ان 2 آخری ممالک میں آگاہی پروگرامز اور حفاظتی ٹیکوں کی مہمات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو پولیو وائرس کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، ان میں افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔

یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی بچہ پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے سے اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتا جبکہ دنیا کے ایک بھی ملک میں وائرس موجود ہے۔

جہاں میڈیکل سائنس عالمی سطح پر اس مرض کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، وہیں پاکستان اس مقصد کی مکمل حمایت کرنے اور اس میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

پولیو کے پھیلاؤ کی عام سی وجوہات

ان بنیادی طریقوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے جن کے ذریعے وائرس پھیلتا ہے۔

فرد سے فرد کے درمیان رابطے سے

وائلڈ پولیو وائرس بنیادی طور پر متاثرہ شخص کے گلے اور آنتوں میں موجود ہوتا ہے اور منہ یا ناک کے ذریعے دوسرے انسان کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔

اگر کسی شخص کا رابطہ متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہونے والے مادے یا چھینک اور کھانسی سے نکلنے والے بخارات کے ساتھ ہوتا ہے تو اسے وائرس لگنے کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے۔

فضلہ-اورل اور منہ سے منہ کے ذریعے

اگرچہ پولیو وائرس بہت سے طریقوں سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے لیکن پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ فضلے یا منہ کا راستہ ہے۔

وائرس کی منتقلی کا یہ ذریعہ صفائی کی ناقص صورتحال والے علاقوں میں روزبروز تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

وہ مقامات جہاں حفظان صحت کے اعلی معیار کو برقرار رکھا جاتا ہے، وہاں وائرس صرف منہ سے منہ کے ذریعے پھیلتا ہے۔

آلودہ پانی، کھانے اور مشروبات کے ذریعے

یہ مرض عام طور پر اس وقت پھیلتا ہے جب وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے، بنیادی طور پر یہ ناک یا منہ کے ذریعے ان کھانے پینے کی اشیا کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے جس میں وائرس اسٹرین (strain) موجود ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ وائرس کچے یا پوری طرح نہ پکے ہوئے کھانے اور متاثرہ شخص کے فضلے سے آلودہ پینے کے پانی یا مشروبات کے ذریعے بھی سفر کرتا ہے لیکن یہ اتنا عام نہیں ہے۔

کھلی جگہوں پر رفع حاجت سے

صفائی کے ناقص طریقوں بشمول کھلی جگہوں پر رفع حاجت، کھانا کھاتے سے قبل یا ٹوائلٹ کے استعمال کے بعد ہاتھ نہ دھونا دیہی علاقوں اور کچی آبادیوں میں عام ہیں۔

جو بچوں میں انتہائی متعدی سے وائرس پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

بڑھتے ہوئے آلودہ ماحول میں تھوڑی بہت یا آگاہی نہ ہونے سے، متعدی وائرس کے ہاتھوں پاکستانی بچوں کی صحت کو بہت زیادہ خطرہ درپیش ہے۔

جب کوئی بچہ وائلڈ پولیو وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو وائرس منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور آنتوں میں جاکر متاثر کرنا شروع جاتا ہے۔

اس کے بعد یہ فضلے کے ذریعے ماحول میں جاتا ہے جہاں یہ آبادکاری خاص طور پر ناکافی حفظان صحت اور صفائی کے ذریعے تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

اس سال پولیو سے لڑنے کیلئے پاکستان کیا کر رہا ہے؟

اگرچہ پولیو وائرس اب بھی پاکستان میں بہت زیادہ پھیل رہا ہے، ایک ترقی پذیر ملک جہاں بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ، صفائی کی بنیادی سہولیات کی کمی اور بڑھتی ہوئی غذائی قلت جیسے مسائل موجود ہیں، نائیجیریا جیسے ممالک کچھ بنیادی لیکن مستقل کوششوں سے اس وائرس سے لڑنے کے قابل تھے۔

ان ممالک نے متعدی وائرس کے خلاف مسلسل آگاہی سیشنز اور بڑے پیمانے پر حفاظتی ٹیکوں کی مہمات میں سرمایہ کاری کی جس سے اس وائرس کا خاتمہ کیا گیا۔

پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے اقدامات کی وجہ سے رواں برس 5 برس سے کم عمر لگ بھگ 4 کروڑ بچے معمول کی ویکسینیشن سے محروم ہوئے، ویکسینشین سے محرومی اور حفاظتی ٹیکوں کی کمی کیسز میں اضافے کی وجہ بنی۔

دوسری جانب، پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام (پی پی ای پی) قطرے پلانے سے متعلق افواہوں کو دور کرنے اور اس طرح کی مہمات میں حصہ ڈالنے کی اہمیت سے متعلق شعور اجاگر کرنے کی مکمل کوشش کررہا ہے۔

30 نومبر سے 4 روزہ پولیو مہم شروع ہورہی ہے جس میں 2 ہزار 504 موبائل ٹیمز کی مدد سے 8 لاکھ 85 ہزار بچوں کو اورل پولیو ویکسینز پلائی جائیں گی، یہ انسداد پولیو ٹیمیں ضلع راولپنڈی کے یونین کونسل کے ہر گھر کا دورہ کریں گی۔

ملک بھر میں حفاظتی ٹیکوں کی بڑھتی مہم اور آگاہی کے سرگرم پروگرامز کے ساتھ، پی پی ای پی پراعتماد ہے کہ پولیو کیسز میں اضافے میں جلد ہی کمی آئے گی۔