لاہور ہائی کورٹ: جہانگیر ترین کی شوگر ملز کے آڈٹ کا نوٹس معطل
لاہور ہائی کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو آڈٹ کے لیے منتخب کرنے کے نوٹسز معطل کر دیے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی اور درخواست گزار کی جانب سے شہزاد عطا الہٰی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: آڈٹ کیلئے جہانگیر ترین کی شوگر ملز کا انتخاب عدالت میں چیلنج
جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کی درخواست میں وفاقی حکومت اور ایف بی آر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ باقاعدگی سے انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ملز کسی قسم کی نادہندہ نہیں ہیں جبکہ ایف بی آر نے یکے بعد دیگرے انکم ٹیکس کی وصولی کے تین نوٹس بھیجے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی کے الزام پر ان کی ملز کو آڈٹ کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے جبکہ قانون کے مطابق ان لینڈ ریونیو کو شوگر ملز کے گزشتہ برسوں کا آڈٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ ایف بی آر کو شوگر ملز کے خلاف کارروائی سے روکا جائے اور ایف بی آر کے 16ستمبر، 29 ستمبر اور 22 اکتوبر کے نوٹس کو کالعدم قرار دیا جائے۔
عدالت نے درخواست پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ایف بی آر سمیت دیگر سے جواب طلب کر لیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے ایف بی آر کے محکمہ ان لینڈ ریونیو کی جانب سے آڈٹ کے لیے ان کے انتخاب کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جہانگیر ترین اور شریف خاندان کی شوگر ملز سے متعلق قائم جے آئی ٹی کالعدم قرار
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ایف بی آر نے کمپنی کے پانچ سال پرانے اکاؤنٹس کا آڈٹ شروع کردیا جبکہ قانون کے مطابق بورڈ 5 سال سے زائد کا آڈٹ نہیں کرسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ ان لینڈ ریونیو نے آڈٹ کے لیے نوٹسز کے خلاف درخواست گزار کے دائر کردہ اعتراضات کو ذاتی طور پر سننے کا موقع فراہم کیے بغیر ہی مسترد کردیا گیا۔
یاد رہے ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
مزید پڑھیں: جہانگیرترین کے شوگر مل آفس پر چھاپہ، ریکارڈ ضبط
بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے تھے۔
7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: رپورٹ میں کچھ نہیں ہے،عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں، جہانگیر ترین
واضح رہے رواں ماہ لاہور ہائی کورٹ نے جہانگیر ترین اور شریف فیملی کی شوگر ملز کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) انکوائری پر فیصلہ سناتے ہوئے دونوں ملز کے خلاف سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے قائم جے آئی ٹی کو کالعدم قرار دیا تھا۔
جہانگیر ترین اور شریف فیملی کی شوگر ملز نے ایف آئی اے انکوائری کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ایف آئی اے کو ایسے معاملات میں انکوائری کا اختیار حاصل نہیں ہے۔