گلشن معمار سے ‘ٹی ٹی پی کے 3 عسکریت پسند' گرفتار
کراچی: پاکستان رینجرز سندھ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے 3 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گلشن معمار سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ گرفتار ملزمان ایئرپورٹ، امریکی قونصل خانے اور سیکیورٹی پرنٹنگ پریس پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
ترجمان رینجرز کا کہنا تھا کہ پیرا ملٹری فورسز نے پولیس کے ہمراہ خفیہ اطلاع پر مشترکہ کارروائی کی جس کے نتیجے میں یاسین عرف ابو ہنزلہ، اکرام اللہ عرف فیصل اور محمد خالد عرف منصور کو حراست میں لیا گیا۔
عہدیدار نے بتایا کہ ان میں سے 2 افراد حال ہی میں افغانستان سے آئے تھے اور جلد ہی کراچی میں دہشت گرد حملے کرنا چاہتے تھے جبکہ ان کا تعلق ٹی ٹی پی کے قاری سعد بلال کے گروپ سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنداللہ کا مبینہ دہشت گرد کراچی سے گرفتار، سی ٹی ڈی
ان کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تفتیش کے دوران گرفتار ملزمان نے مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے'۔
رینجرز کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ یاسین ایک تربیت یافتہ جنگجو تھا جو اب تک اپنے کمانڈر قاری سعد بلال سے 2 سال سے رابطے میں تھا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ 'وہ کراچی میں دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے اہم تنصیبات جیسے قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ، امریکی قونصل خانے اور پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کی جاسوسی کی تھی جبکہ ٹیلی گرام ایپلی کیش کے ذریعے قاری سعد اور موسٰی کو ویڈیوز بھی بھیجی گئی تھیں‘۔
مزید پڑھیں: کراچی: تخریب کاری کی منصوبہ بندی کرنے والے '4 دہشت گرد' گرفتار
مزید یہ کہ گرفتار اکرام اللہ، ٹی ٹی پی کمانڈر اقبال حسین عرف ابو تراب اور دیگر کے ہمراہ سوات میں 3 سرکاری اسکولوں اور ایک پولیس اسٹیشن پر حملے میں ملوث تھا، اعلامیے میں کہا گیا کہ مشتبہ شخص خالد کے یاسین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور یہ اس کے ساتھ گزشتہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔
رینجرز عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ وہ تربیت یافتہ جنگجو تھا جو پاکستان میں حملے کرنے کے بعد چھپنے کے لیے افغانستان چلاگیا تھا، تاہم ملزم حال ہی میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حملے کرنے کے لیے افغانستان سے کراچی آیا تھا۔
علاوہ ازیں پیرا ملٹری فورسز نے ان کے پاس موجود اسلحہ اور گولہ بارود اپنے قبضے میں لے لیا اور بعد میں انہیں مزید قانونی کارروائی کے لیے پولیس کے حوالے کردیا۔
یہ خبر 23 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔