شجاع خانزادہ قتل کیس: ایک ملزم کو 10 سال قید بامشقت کی سزا
راولپنڈی: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے قتل کیس میں ملزم کو سزا سنا دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے ٹی سی کے جج راجا پرویز اختر نے دھماکا خیز مواد ایکٹ (ای ایس اے) 1908 کی دفعہ 5 کے تحت ملزم محمد قاسم معاویہ کو 10 سال قیدبامشقت کی سزا سنائی۔
واضح رہے کہ اسے ستمبر 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 سمیت مختلف دفعات، ای ایس اے کی دفعات 3، 4، 5 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت الزامات کا سامنا کر رہا تھا۔
استغاثہ کے مطابق قاسم معاویہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے قاری سہیل گروپ کا رکن تھا جبکہ اس کا نام 2013 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے فورتھ شیڈول میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: شجاع خانزادہ خودکش حملہ: 'مرکزی ملزم' گرفتار
عدالت میں استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ ملزم 16 اگست 2015 کو اٹک کے گاؤں شادی خان میں وزیر کے سیاسی دفتر پر دہشت گرد حملہ کرنے اور شجاع خانزادہ اور 16 دیگر افراد کو قتل کرنے میں ملوث تھا۔
اسی سال اکتوبر میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) شیخوپورہ نے 4 مشتبہ دہشت گردوں کو قتل کردیا تھا جو وزیر پر حملے کی مبینہ طور پر منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
سی ٹی ڈی شیخوپورہ کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں فیاض، احمد، صدام، صداقت مبینہ طور پر مارے گئے تھے۔
اس کیس میں ایک اور مفرور ملزم قاری سہیل کو اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر استغاثہ نے 130 گواہان کی فہرست تیار کی گئی تھی لیکن اے ٹی سی کے سامنے 84 نے بیان ریکارڈ کروایا۔
تاہم جج راجا پرویز اختر نے ای ایس اے کے تحت قاسم معاویہ کو سزا سنائی چونکہ تفتیش کے دوران شجاع خانزادہ کے قتل سے ان کا براہ راست تعلق قائم نہیں ہوسکا۔
علاوہ ازیں اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ان کی سزا پر عمل درآمد کے وارنٹ بھیجتے ہوئے جج کا کہنا تھا کہ ’مجرم کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 382- بی کے تحت سزا کا حقدار ہوگا‘، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سزا گرفتاری کے دن سے شروع ہوگی۔
دوران ساماعت ڈپٹی پراسیکیورٹر جنرل طاہر کاظم نے بتایا کہ ملزم جاسوسی میں ملوث تھا اور اس نے سیاسی دفتر میں شجاع خانزادہ کی موجودگی کی اطلاع دہشت گردوں کو دی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے قاسم کی شناخت پر غیر استعمال شدہ دھماکا خیز مواد برآمد کرلیا۔
پولش انجینئر قتل کیس
دوسری جانب اے ٹی سی راولپنڈی نے پولش انجینئر پیوٹر استانکزیک کے قتل کیس میں ملزم کلیم اللہ اور فرید خان کو بری کردیا۔
تاہم دونوں کو دھماکا خیز سامان رکھنے کے لیے 5 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
پولش انجینئر کو ستمبر 2008 میں راولپنڈی کے قریب اٹک سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد نامعلوم اغواکاروں کے خلاف تھانہ بسل میں مقدمہ درج ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پولش انجینیئر کو قتل کرنے والے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 2 اراکین گرفتار
بعد ازاں فروری 2009 میں سابق پارلیمنٹیرین عبدالعزیز شاہ اور عطا اللہ خان کو انجینئر کے قتل اور اغوا پر گرفتار کیا گیا تھا لیکن انہیں 2011 میں انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد بری کردیا تھا۔
جس کے بعد سی ٹی ڈی پنجاب اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے یکم جون 2020 کو کلیم اللہ اور فرید خان کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب انہیں دہشت گردی کی کارروائی کے لیے ان دونوں کے راولپنڈی آنے کی خفیہ اطلاع ملی تھی۔
اس گرفتاری کے بعد پولش انجینئر کے اغوا اور بعد ازاں قتل کے کیس کو 12 سال بعد دوبارہ کھولا گیا۔
دریں اثنا چھاپہ مار ٹیموں نے ملزمان سے دھماکا خیز مواد برآمد کیا تھا اور دھماکا خیز مواد ایکٹ کی دفعہ 4/3 اور اے ٹی اے کی دفعہ 7 کے تحت سی ٹی ڈی راولپنڈی تھانے میں مقدمہ درج کیا تھا۔
یہ خبر 22 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی