قصہ پاکستانی جادوئی ڈبے کا
صاحبو، ’خدا کی بستی’ میں خوش آمدید۔
ایک ایسی بستی میں خوش آمدید، جہاں کی ‘ہوائیں‘ اور’ تنہائیاں‘ ایک ‘ان کہی’ کہانی سناتی ہیں۔ یہ کہانی ہے ‘وارث’ کی، ’دھوپ کنارے’ کی، ‘آنگن ٹیڑھا’، ‘دھواں‘ اور ‘الفا براوو چارلی’ کی۔ یہ کہانی ہے، پاکستان ٹیلی ویژن کی، جس کے سنہری دور سے کروڑوں پاکستانیوں کی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ اور پاکستان ہی کیا، اس کے ڈراموں نے تو ایک عرصے بھارتیوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھا۔
آج اس یاد کو تازہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ سال 1964ء میں اسی ماہ، یعنی نومبر کی 26 تاریخ کو اس باکمال ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ گو پی ٹی وی اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکا، پرائیویٹ چینلز کی بہتات میں آج کہیں دکھائی نہیں دیتا، مگر اس کے سنہری دور کی کہانی عجب ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب ناظرین پر پی ٹی وی کا سحر طاری تھا۔ ایک کے بعد ایک گرویدہ بنا لینے والے پروگرام، یادگار کھیل، متاثر کن ڈرامے۔ بات تو افسانوی لگتی ہے، مگر ہے حقیقت کہ جب پی ٹی وی کے ڈرامے نشر ہوتے، تو سڑکیں سنسان، بازار ویران ہوجاتے۔ ناظرین اس جادوئی دنیا میں داخل ہونے کے لیے اپنی تمام مصروفیات ترک کردیتے۔ تقریبات کی تاریخوں کا تعین کرتے ہوئے بھی یہ پیش نظر رکھا جاتا کہ کہیں اس روز ‘خدا کی بستی’ یا ’وارث’ تو ٹیلی کاسٹ نہیں ہورہا۔
کہانی کا ابتدائیہ
گو ریڈیو کے برعکس پی ٹی وی کی کہانی قیامِ پاکستان سے شروع نہیں ہوتی، مگر قوم کو آگاہی، شعور اور معیاری تفریح کی فراہمی میں اس کا کردار بھی ریڈیو جتنا ہی مؤثر رہا۔ پاکستان دنیا کا 52واں ملک تھا، جو ٹی وی نشریات کے نقشے پر ابھرا۔ کہانی کا آغاز 5 اکتوبر 1960 کو ہوا، جب وفاقی کابینہ نے تعلیمی مقاصد کے لیے ٹی وی کے قیام کی منظوری دی۔
صدر ایوب خان کو اس قصے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ 1961ء میں دورہ جاپان کے موقع پر ان کے ذہن میں عوام اور حکومت کے درمیان براہِ راست رابطے کے لیے پہلی بار ٹیلی ویژن اسٹیشن کے قیام کے خیال نے جنم لیا۔ اسی برس حکومتی دعوت پر جاپانی ماہرین نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں تجویز دی کہ پاکستان میں ٹی وی کو تعلیم تک محدود رکھنے کے بجائے عمومی مقاصد کے لیے متعارف کرایا جائے۔
اچھا، چند ریسرچرز کے مطابق حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اس آئیڈیے پر کام شروع ہوچکا تھا۔ اس ضمن میں ممتاز صنعت کار، سید واجد علی کا بالخصوص تذکرہ کیا جاتا ہے۔
دراصل 1961ء میں ایک جاپانی کمپنی کے تعاون سے نجی شعبے میں ٹیلی ویژن کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ بعدازاں ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اس منصوبے کو قومیا لیا گیا، مگر آغاز جہاں سے بھی ہوا ہو، کہانی کا اہم ترین موڑ 12 اکتوبر 1962ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں ہونے والی وہ صنعتی نمائش تھی، جہاں حکومتی سرپرستی میں ایک تجرباتی ٹیلی ویژن اسٹوڈیو قائم کیا گیا۔
کراچی سے لاہور تک کی کہانی
وہ دن کراچی کے لیے تجسس، مسرت اور حیرت لے کر آیا۔ اس اسٹوڈیو سے غیر ملکی فلموں اور ڈراموں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تیار کردہ خصوصی پروگرام بھی نشر کیے گئے، جن میں معروف شخصیات کے انٹرویوز، مشاعرے، مزاحیہ پروگرام اور کوکنگ شو شامل تھے۔
ان پروگراموں کو ایک ٹرانسمیٹر کے ذریعے شہر میں نصب 200 ٹی وی سیٹس پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ یہ ٹی وی سیٹس وہ دروازے تھے، جو ناظرین کو ایک نئی دنیا میں لے گئے۔ اگلے روز صدر ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی، جنہوں نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کا عندیہ دے دیا۔ لاہور اوّلین مرکز ٹھہرا، اور اس میگا پراجیکٹ پر کام شروع کردیا گیا۔
وہ 26 نومبر 1964ء کو لاہور پر اترنے والی ایک خوشگوار شام تھی، جب اچانک شہر کے چوکوں چوراہوں پر ایک ہجوم امڈ آیا۔ رش اتنا تھا کہ سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔ سب کی نظریں حکومت کی نصب کردہ جادوئی اسکرینوں پر ٹکی تھیں۔ برِصغیر کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ رونما ہونے کو تھا۔ کراچی کی صنعتی نمائش سے شروع ہونے والی پُرتجسس داستان 26 نومبر 1964ء کو اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
شام 4 بجے ‘پی ٹی وی’ کا افتتاح ہوا اور پاکستان ابلاغی دوڑ میں اپنے پڑوسیوں پر سبقت لے گیا۔ قاری علی حسین صدیقی نے تلاوت قرآن پاک پیش کی۔ صدر ایوب خان نے افتتاحی تقریر کی۔ طارق عزیز اور کنول نصیر اوّلین اناؤنسر ٹھہرے۔ انیس احمد پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے کیمرا مین قرار پائے۔ معروف گلوکار طفیل نیازی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
اس روز انگریزی اور اردو میں بلیٹن کے علاوہ مذہبی اور کوئز پروگرام بھی پیش کیے گئے، اور 2 ہی روز بعد، 28 نومبر کو پاکستان نے اپنا پہلا ڈراما ‘نذرانہ‘ پیش کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔ فضل کمال کی اس پیشکش میں قوی خان، بختیار احمد، کنول نصیر نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔
پی ٹی وی کی تشکیل میں ریڈیو کا کردار
یہ ریڈیو ہی تھا، جس کے زیرِ سایہ اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ لاہور کے معروف ثقافتی مرکز الحمرا میں اگست 1964ء میں قائم ہونے والا عارضی دفتر ریڈیو پاکستان (لاہور) کی تاریخی عمارت میں منتقل ہوچکا تھا۔ ریڈیو اور تھیٹر کا وسیع تجربہ رکھنے والے اسلم اظہر پہلے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔
پرانے کردار نئی کہانی میں، نئے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ زیڈ اے بخاری ہوں، اسلم اظہر یا آغا ناصر، پی ٹی وی کی تشکیل و ترقی میں ریڈیو کے تجربہ کار افراد نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ریڈیو کے مشہورِ زمانہ پروگرام ‘اسٹوڈیو نمبر 9’ سے شناخت حاصل کرنے والے قاضی واجد، طلعت حسین، جمشید انصاری، عشرت ہاشمی اور زینت یاسمین جیسے فنکار پی ٹی وی کا نیا چہرہ بنے۔
طلسم کدے کا دروازہ کھل چکا تھا۔ پی ٹی وی نے معلومات، آگاہی اور تفریحی کے نئے در وا کردیے۔ 25 دسمبر 1964ء کو ڈھاکا میں ٹیلی ویڑن اسٹیشن کا افتتاح ہوا۔ سیکڑوں میل کے فاصلے پر موجود پاکستان کے یہ دونوں اسٹیشن تب یومیہ 3، 3 گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
کہانی ’کسوٹی‘ کی!
ان دنوں پیر کو نشریات کی چُھٹی ہوا کرتی تھی۔ شہری اس روز اداس دکھائی دیتے۔ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام پروگرام براہِ راست نشر کیے جاتے۔ جب ایک لائیو پروگرام ختم ہوتا، تو اس کے بعد درآمدی یا دستاویزی فلم لگا دی جاتی اور اس وقفے میں دوسرے لائیو پروگرام کا سیٹ لگ جاتا۔
اچھا، اس زمانے میں پی ٹی وی نشریات کا بڑا حصہ غیر ملکی دستاویزی فلموں پر مشتمل ہوتا تھا، مگر جلد ہی پی ٹی وی نے اس مشکل میدان میں بھی قدم رکھ دیا۔ شکاریات، جنگلات اور تعمیرات کے موضوع پر بننے والی ان دستاویزی فلموں کو عبیداللہ بیگ اور قریش پور جیسے ناموں نے پروڈیوس کیا، جنہوں نے بعد ازاں ‘کسوٹی‘ جیسی دلچسپ اور معلوماتی پیشکش کے ذریعے کوئز پروگرامز کو ایک نیا روپ دے ڈالا۔
مزید پڑھیے: ہر دور کے سب سے مقبول 20 پاکستانی ڈرامے
سن 67ء میں شروع ہونے والے کوئز پروگرام ’کسوٹی’ نے 3 نسلوں کو متاثر کیا۔ پروگرام کے میزبان تھے قریش پور، جبکہ 20 سوالات میں مہمان شخصیات کے ذہن میں موجود نام تک پہنچنے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف، پھر بعد ازاں غازی صلاح الدین نے افتخار عارف کی جگہ سنبھال لی۔ یہ مقبول پروگرام کئی برس تک کامیابی سے جاری رہا۔
پی ٹی وی کی یہ کہانی ابھی ادھوری ہے، یہ تب ہی مکمل ہوگی، جب ان یادگار ڈراموں کا تذکرہ آئے گا، جنہوں نے کروڑوں افراد کو اپنی زلف کا اسیر بنا لیا تھا۔
پاکستان کو ٹیلی ویژن کے آغاز کے میدان میں ملائیشیا اور بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک پر فوقیت حاصل رہی، اور اس فوقیت پر پاکستانی ڈراموں نے تصدیق کی مہر ثبت کردی۔ یہ پاکستانی فنکاروں کی محنت کا ثمر تھا کہ ایشیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی ڈراما پڑھایا جانے لگا۔ یہ پڑوسی ممالک میں رول ماڈل ٹھہرا۔ یورپی فیسٹولز میں اعزازت سے نوازا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستانی ڈراما بذات خود ایک ‘درس گاہ’ کا درجہ حاصل کرگیا تھا۔
پاکستانی ڈرامے کا آغاز تو سن 64ء میں اس کے افتتاح کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، مگر نئے سینٹرز کے قیام کے ساتھ مسابقت کی صحت مند فضا نے جنم لیا۔ شوکت صدیقی، کمال احمد رضوی، اشفاق احمد، امجد اسلام امجد، عبید اللہ بیگ، بانو قدسیہ جیسے قد آور کہانی کاروں نے پی ٹی وی میں قدم رکھا، اور یوں گرویدہ بنا لینے والے ان ڈراموں کا جنم ہوا، جن کے مکالمے آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں۔
سن 66ء میں کراچی مرکز کا قیام عمل آیا، جو پہلا مکمل ترین ٹیلی ویژن سینٹر تھا، جس کے جنرل منیجر تھے، زیڈ اے بخاری۔ بہترین کہانی، موزوں کاسٹ اور ہدایت کاروں کی ان تھک محنت کے وسیلے پاکستانی ڈرامے نے ترقی کی سمت جست لگائی، اور اس کا نقطہ آغاز تھا، 29 جون 1965ء کو لاہور مرکز سے شروع ہونے والا مزاحیہ کھیل ‘الف نون’۔ کمال احمد رضوی کے اس کھیل نے سماجی بُرائیوں پر ایسی چوٹ کی کہ ‘الن’ اور ’ننھا’ کے کردار ناظرین کے دل میں اتر گئے۔ یہ ڈراما بعد میں کئی بار ری پروڈیوس ہوا، اور ہر بار کمال احمد رضوی اور رفیع خاور نے ناظرین پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔
مزید پڑھیے: اک شخص کتابوں جیسا تھا
’خدا کی بستی’ اور دیگر ڈرامے
حضرات، کہانی کا اہم ترین موڑ آن پہنچا۔ چند لازوال کردار ظاہر ہونے کو ہیں۔ کردار جو ’خدا کی بستی‘ کے باسی ہیں۔ جی ہاں، جولائی 1969ء میں کراچی مرکز سے ممتاز ادیب، شوکت صدیقی کے ناول پر مبنی ڈراما سیریل ‘خدا کی بستی‘ کا آغاز ہوا، جس نے ناصرف اس اسٹیشن، بلکہ خود کراچی کو ایک اساطیری جہت عطا کردی۔
عشرت انصاری کے پروڈیوس کردہ اس کھیل نے شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ناطرین کو اس کے مکالمے حفظ ہوگئے۔ ممتاز ڈراما نگار، اشفاق احمد کے مطابق، جس روز اس کی قسط نشر ہوتی، بڑے شہروں کی سڑکیں سنسان، چھوٹے قصبوں کی زندگی سکوت میں تبدیل ہوجاتی۔ سنیما گھروں کی روشنیاں ماند پڑجاتیں۔ محض اس سیریز کے زور پر کراچی لمبی جست لگا کر بامِ عروج پر پہنچ گیا۔ ڈراما ’خدا کی بستی’ سن 74ء میں بھی پیش کیا گیا، اور اس بار بھی اس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔
پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ امجد اسلام امجد کا ‘وارث’، فاطمہ ثریا بجیا کا ’شمع’، اشفاق احمد کا ’من چلے کا سودا‘، منّو بھائی کا ‘جھوک سیال’، حسینہ معین کے قلم سے نکلا ‘تنہائیاں‘ اور ’ان کہی’، یونس جاوید کا ‘اندھیرا اجالا’، اور پھر ’جانگلوس‘، ’دھواں‘، ’ہوائیں‘، ’آنچل‘ اور 1971ء میں شروع ہونے والا ‘ضیا محی الدین شو’۔ کہاں تک یہ کہانی سنائی جائے، یہ تو نصف صدی کا قصہ ہے۔ پی ٹی وی ایک کے بعد ایک سنگِ میل عبور کرتا گیا۔
مزید پڑھیے: پاکستان ٹیلی وژن کے یادگار ڈرامے
21 دسمبر 1972ء کو پاکستان کے صدر، ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پی ٹی وی کی نئی عمارت کا افتتاح کیا، اور پی ٹی وی نے اپنے پہلے جشن تمثیل کا آغاز کردیا۔ اس مقابلے میں محسن علی کا کھیل ’پت جھڑ کے بعد‘ نمایاں ہوکر ابھرا۔
‘نیلام گھر’ اور رنگین نشریات
22 دسمبر 1972ء کو پی ٹی وی نے مواصلاتی سیارے کے ذریعے ایڈیلیڈ میں جاری پاکستان آسٹریلیا ٹیسٹ میچ براہِ راست نشر کرکے ایک اور معرکہ سر کرلیا۔ کھیلوں کی عالمی نشریات کی جانب پی ٹی وی اپنا سفر شروع کرچکا تھا۔
اگلے ہی ماہ جب رومانیہ کے صدر کی آمد ہوئی، تو پی ٹی وی نے استقبالیہ تقریب براہِ راست رومانیہ نشر کرکے جنوبی ایشیا کے اس اوّلین ملک کا اعزاز حاصل کرلیا، جس کا مواصلاتی سیارے کے ذریعے کسی یورپی ملک سے رابطہ قائم ہوا تھا۔
‘دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام’، یہ طلسماتی بارعب آواز بھلا کسے یاد نہیں؟ 28 اکتوبر 1975ء کو پی ٹی وی کے مقبول اور طویل ترین عرصے تک جاری رہنے والے کوئز شو ‘نیلام گھر’ کا آغاز ہوا، جس نے کسی مقبول ڈرامے کے مانند ناظرین کو اپنے سحر میں باندھ لیا، اور جلد ہی وہ لمحہ بھی آگیا جب پی ٹی وی کی اسکرین پر رنگ باتیں کرنے لگے۔
جی ہاں، سن 1976ء میں پاکستان ٹیلی ویژن بلیک اینڈ وائٹ دنیا سے نکل کر رنگین جہان میں داخل ہوگیا۔ پی ٹی وی سے نشر ہونے والا پہلا رنگین ڈراما اشفاق احمد کا ’پھول والوں کی سیر’ تھا، جس میں آصف رضا میر اور خالدہ ریاست نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اشفاق احمد کی تحریر کردہ یادگار سیریز ’ایک محبت سو افسانے’ کا آغاز بھی اسی برس ہوا۔ (چند محققین ‘کلیاں‘ کو پہلا رنگین پروگرام، جبکہ ‘پرچھائیاں‘ کو پہلی رنگین ڈراما سیریل قرار دیتے ہیں)۔
یہ ایوارڈ کس کے نام ہوا؟
یادگار ڈراموں اور پروگراموں کی پیشکش کے بعد ان کاوشوں کو پرکھنے کا مرحلہ آن پہنچا۔ بہترین میں سے بہتر کے چناؤ کا وقت تھا۔ 5 نومبر 1980ء کو پی ٹی وی کے پہلے ایوارڈز کی تاریخی تقریب کا انعقاد ہوا۔
اس ایونٹ کو ناصرف اس سال، بلکہ اس دہائی کی اہم ترین پاکستانی ثقافتی سرگرمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ آنے والے کئی برس تک ناظرین کے ذہنوں میں ایک توانا یاد کی صورت باقی رہنے والا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اچھا خاصا تجسس پیدا کردیا۔ ذہنوں میں سوالات کا شور تھا۔ کون قرار پائے گا بہترین اداکار؟ بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ کس کے حصے میں آئے گا؟ کس کی کہانی، باقی کہانی کاروں پر سبقت لے جائے گی؟
راولپنڈی میں منعقدہ اس تقریب کی میزبانی طارق عزیز نے کی۔ 27 کیٹیگریز میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے کلاکاروں کو نشانِ سپاس پیش کیا گیا۔ فاتحین کے نام سر بہ مہر لفافوں میں تھے۔ تجسس عروج پر تھا۔ نام کے اعلان کے ساتھ ہی داد و تحسین کا غلغلہ بلند ہوتا۔
اس روز روحی بانو نے ‘دھند‘ اور محبوب عالم نے ‘وارث’ کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کیا۔ امجد اسلام امجد بہترین ڈراما نگار، نصرت ٹھاکر بہترین پروڈیوسر قرار پائے۔ ماجد جہانگیر اور فاروق قیصر کو خصوصی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
یہ ایوارڈ شو ایک سنگِ میل تھا۔ جلد ہی پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریبات نے پاکستان کی سب سے بڑی ثقافتی سرگرمی کا درجہ حاصل کرلیا۔
کشمیر اور الیکشن ٹرانسمیشن
اس یادگار سفر میں پی ٹی وی نے فقط تفریح فراہم نہیں کی، اس نے اسپورٹس کے میدان میں پاکستان کی تاریخی کامیابیوں کی داستان بھی بیان کی۔ ایونٹ ہاکی کا ہو یا کرکٹ کا، اسے بخوبی کور کیا۔
یہ کسانوں کا رہبر ٹھہرا، اور انہیں ماہرین کے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ ناظرین میں شعور بیدار کیا اور قدرتی آفات میں متاثرین کے لیے راحت کا سامان کیا، مگر اہم ترین محاذ تھا کشمیر۔
یہ پی ٹی وی ہی تھا، جو عالمی دنیا میں مظلوم کشمیریوں کی آواز ٹھہرا، جس نے اپنے مؤثر ڈراموں اور کرنٹ افیئر پروگراموں کے ذریعے ہمیشہ بھارت کے غاصبانہ اقدامات کا پردہ چاک کیا۔
پی ٹی وی کی الیکشن ٹرانسمیشن بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھی۔ جہاں خصوصی سیٹ لگتے، انٹرویوز اور رپورٹس پیش کی جاتیں، اور پھر نتائج کا اعلان ہوتا۔ عام خیال ہے کہ یہ الیکشن ٹرانسمیشن ہی ہوتی تھی، جس کے دوران پی ٹی وی حکومتی پالیسی کی بندش سے نکل کر کچھ دیر آزاد فضا میں سانس لے لیا کرتا تھا۔
پرائیویٹ چینلز کی آمد
وقت کا پہیا چلتا رہتا ہے۔ کردار بدلتے رہتے ہیں۔ اس کہانی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ڈش اور کیبل نے دیکھنے والوں پر نئے در وا کر دیے تھے۔ ایک طویل عرصے تک پاکستانی ناظرین کے دلوں پر راج کرنے والے پی ٹی وی کو نئے ہزاریے میں پرائیویٹ چینلز کی آمد کے بعد یکدم نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ جن سے نبرد آزما ہونا سہل نہیں تھا۔
سرمایہ، تکنیکی سہولیات کی فراہمی اور کوئی مضبوط حریف نہ ہونے کے باعث پی ٹی وی نے دن دونی، رات چوگنی ترقی کی۔ اس نے مصنوعی سیارے کے ذریعے 32 ممالک تک رسائی پائی۔ وقت کے ساتھ اس کے بینر تلے نئے چینلز کھلتے گئے، مگر دھیرے دھیرے مشکلات بھی سامنے آنے لگیں۔
پی ٹی وی کی پہلی دہائی سنہری دور تھا، دوسری دہائی میں ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری میں رنگ، سرمایہ اور اشتہارات کی چکا چوند رہی۔ مگر چوتھی دہائی میں جب مسابقت کا دور آیا، تو اس کی برتری ختم ہونے لگی۔ ایک گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں فی ناظر اوسطاً 117 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے، اور اعداد و شمار کہتے ہیں کہ پی ٹی وی کے ناظرین کی تعداد میں، ماضی کے برعکس، کمی آئی ہے۔
ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک، تکنیکی سہولیات اور تربیت یافتہ پروفیشنلز کے باوجود، کیا وجہ ہے کہ اب پی ٹی وی اتنا مؤثر اور مقبول نہیں رہا؟ اور کیا انٹرنیٹ اور کیبل کے اس دور میں پی ٹی وی کی تجدید ممکن ہے؟
ایسا نہیں کہ پی ٹی وی نے کبھی کچھ نیا اور انوکھا کرنے کی کوشش نہیں کی، مگر تیزی سے بدلتی اس دنیا میں، جہاں اب الیکٹرانک میڈیا بھی سوشل میڈیا کے زیر اثر آگیا ہے، پی ٹی وی بہرحال وقت سے پیچھے دکھائی دیتا ہے۔
پی ٹی وی کا شمار پاکستان کے کامیاب ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان پوسٹ یا ریڈیو پاکستان کی طرح نوآبادتی ورثہ نہیں، اسے نوزائیدہ ریاست کے باصلاحیت فنکاروں نے اپنی قابلیت اور مہارت سے سینچا۔ آمرانہ بندشوں کے باوجود اسے عروج پر پہنچایا۔ گو اس کا حال، اس کے ماضی سا درخشاں نہیں، مگر یہ امید موجود ہے کہ 6 ہزار اہلکاروں اور متعدد چینلز پر مشتمل یہ وسیع نیٹ ورک اپنے گزرے ہوئے کل کو بازیافت کرکے آنے والے کل کو پھر سے روشن بنا سکتا ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں