وادی بروغل اور کرومبر جھیل سے جڑی انمٹ یادیں
بچپن میں کیے گئے سفر اور مسافت کا ہر ایک نظارہ انسان کو زندگی بھر یاد رہتا ہے۔ خاص طور پر تب جب سفر میں راحت کم اور مشکلات زیادہ ہوں۔
خوبصورت وادیوں میں بسنے والے خوبصورت چہروں کے پیچھے مشکلات سے بھری داستانیں پوشیدہ ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ان چہروں پر عیاں ہوتی جاتی ہیں۔ ان خوبصورت چہروں پر عمر کے ہاتھوں لگائی گئی یہ ضربیں، لکیروں کی صورت اپنے اندر ان کہی داستانیں چھپائے ہوئے مٹ جانے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔
گل بہار بی بی کے چہرے پر پڑی لکیریں دیکھ کر ہم چترال اور پھر مستوج سے وادی بروغل کے اس خوبصورت گاؤں ودین کوٹ تک ایک طویل، مشکل اور کٹھن سفر کو بھول چکے تھے۔
گل بہار بی بی زندگی کی 57 بہاریں دیکھ چکی ہیں۔ ہمارے گائیڈ اور میزبان سید فقیر کے مطابق گل بہار بی بی کے والد افغانستاں کے علاقے واخان سے بروغل ہجرت کرکے آئے تھے۔ تب سے گل بہار بی بی اور ان کے بچے بروغل کی خوبصورت وادی میں واخی قبیلے کے ساتھ پاکستان کی اس دُور دراز سرحد پر زندگی کے نشیب و فراز اور مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے سینوں میں پاکستان کی محبت اور اس کی حفاظت کا عزم لیے موجود ہیں۔
جب میں اپنے قریبی دوست نجات خان اور لوئر مہمند پریس کلب سے وابستہ صحافی دوست گل حسین کے ساتھ چترال کے بڑے قصبے دروش سے چترال شہر پہنچا تو یہ جمعے کا دن تھا اور جولائی کا پہلا عشرہ مکمل ہونے کو تھا۔
چترال شہر میں گرم کپڑے، ٹریکنگ شوز اور دیگر ضرورت کی چیزوں کی خریداری اور چترال شہر کی تاریخی مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم چترال کی دُور دراز اور سیاحوں کی نظروں سے اوجھل وادی بروغل اور پاکستان کی دوسری بلند ترین جھیل کرومبر تک پہنچنے کا ارمان دل میں لیے روانہ ہوئے۔
رات کے قیام کا ارادہ چترال کے خوبصورت قصبے، شندور ٹاپ اور وادی بروغل کے لیے دروازے کی حیثیت رکھنے والے خوبصورت علاقے مستوج میں تھا۔ نجات خان چونکہ پورے چترال میں فوڈ سپلائی کا کام کرتے ہیں اس لیے مستوج پہنچنے سے پہلے ہمارے قیام کا بندوبست ان کے مقامی سپلائر اور مستوج میں ایک اچھے گیسٹ ہاؤس کے مالک سید فقیر کے ہاں ہوچکا تھا۔
چترال شہر سے 100 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے بذریعہ گاڑی تقریباً 5 گھنٹے میں طے کیا۔ راستے میں جہاں گولن گول کے مقام پر مصنوعی آبشار اور بونی کے خوبصورت قصبے سے آنکھیں خیرہ کرنے کا موقع ملا وہیں پرواک کے مقام پر کوہِ ہندوکش کی 6 ہزار میٹر بلند پہاڑوں کی ایک لمبی دیوار کے ساتھ تصویر کشی کے موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔ غروبِ آفتاب سے پہلے ہم مستوج کے چھوٹے مگر خوبصورت بازار پہنچ گئے۔
سطح سمندر سے 7742 فٹ بلند اور چترال شہر سے 100 کلومیٹر پر واقع مستوج کا شہر شمالی چترال کا مرکز ہے۔ یہاں سے مشرق کی جانب 46 کلومیٹر کے فاصلے پر دنیا کی چھت کہلانے والا اور سطح سمندر سے 12139 فٹ کی بلندی پر واقع پولو کا بلند ترین میدان شندور واقع ہے اور شندور پاس کراس کرتے ہی بلند پہاڑوں اور دلفریب وادیوں پر مشتمل صوبے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا آغاز ہوجاتا ہے۔
مستوج شہر کے قریب تاریخی شاہی قلعے کے مقام پر دریائے شندور اور دریائے یارخون مل کر دریائے چترال کی شکل میں افغانستان تک بلند پہاڑوں کے درمیان رینگتا ہوا اور ہزاروں ایکڑ زمین سیراب کرتا ہے، اور پھر دریائے کابل کا لباس اوڑھ کر شبقدر، پشاور اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ میں جاکر مل جاتا ہے۔
مستوج بازار میں کچھ دیر انتظار کے بعد ہم سید فقیر کے خوبصورت گیسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ یہاں پر روایتی چترالی کھانوں سے بھرے دسترخوان پر ہمارا انتطار کیا جارہا تھا۔ کھانا کھانے اور اگلے دن کی منصوبہ بندی کرنے کے بعد ہم مستوج کی یخ بستہ رات میں نیند کے مزے لوٹنے لگے۔
چونکہ مستوج سے بروغل تک 150 کلومیٹر روڈ کچا، تنگ اور دشوار گزار ہے اس لیے اپنی گاڑی کو گیسٹ ہاؤس میں چھوڑ کر 25 ہزار روپے کے عوض 4X4 جیپ کے ذریعے ہم علی الصبح مستوج شہر سے کھانے پینے کا سامان لے کر روانہ ہوئے۔
سید فقیر کا چونکہ ودین کوٹ میں گیسٹ ہاؤس زیر تعمیر تھا اور ہمیں مقامی گائیڈ کی ضرورت بھی تھی اس لیے وہ بھی اپنی پوری تیاری کے ساتھ جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور سمیت 5 افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ 10 سے 11 گھنٹے کے طویل سفر کے لیے مستوج شہر سے نکل پڑا۔ کچی سڑکوں پر ہم خوبصورت وادیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ مستوج کی خوبصورت وادی نظروں سے اوجھل ہوئی تو گویچ کے خوبصورت علاقے نے ہمارا استقبال کیا۔
یہاں سے فیول کی ٹنکی فل کروا کر ہم وادی یارخون میں بریپ، بانگ اور پاور کے خوبصورت دیہات سے گزرتے ہوئے گزند اور برزوز پہنچے۔ یہاں سے ایک راستہ طوئی پاس سے ہوتے ہوئے گلگت کی خوبصورت وادی یاسین تک جاتا ہے۔ وادی یاسین سے بہت سارے ٹریکرز اسی راستے کے ذریعے وادی بروغل تک پہنچتے ہیں۔
گزند سے ہمارا سفر آگے بڑھا تو دربند کے مقام پر سڑک کی دونوں جانب مورچوں اور ایک چھوٹی دیوار کے بچے کھچے آثار نظر آرہے تھے۔ سید فقیر کے مطابق 17ویں صدی میں افغانی اور ترک افواج وادی بروغل پر حملہ آور ہوئیں تو اس مقام پر مقامی لوگوں نے حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہ حملہ آور بڑے جانی نقصان کے بعد واپسی پر مجبور ہوئے۔
دربند سے نکل کر ہم دوبارگر، شُست، یارخون لشٹ، کشمانجہ اور گرم چشمہ سے ہوتے ہوئے پورے 7 گھنٹوں میں ودین کوٹ کے خوبصورت گاؤں میں پہنچے۔ کشمانجہ کے چھوٹے اور سرسبز قصبے سے بروغل کی مسحور کن وادی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
3 سال پہلے مستوج سے کشمانجہ تک سڑک تھی اور کشمانچہ سے آگے کا سفر گھوڑوں اور خچروں پر کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ’جیپ ٹریک لشکر واز‘ بروغل سے بھی مزید 2 گھنٹے کی مسافت پر کرومبر جھیل کے بیس کیمپ لشکر واز (لشکرگاز) نامی گاؤں تک پہنچ چکا ہے۔ چند گھروں پر مشتمل لشکرگاز کا اصل نام لشکر واز ہے، جس کا مطلب وہ جگہ جہاں لشکر پڑاو ڈالے۔
ودین کوٹ کے خوبصورت گاؤں میں سید فقیر کے زیرِ تعمیر 4 کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس کے سامنے ہماری گاڑی نے بریک لگائی۔ گرد و غبار سے ڈھکے ہوئے چہروں کے سامنے روایتی لباس میں ملبوس سید فقیر کی منہ بولی بہن گل بہار بی بی، جو کہ پہلے سے ہمارے انتظار میں تھی واخی زبان میں ہمیں خوش آمدید کہہ رہی تھی۔
گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں ہم کچھ دیر کے لیے سستانے لگے جبکہ سید فقیر گرم چشمہ گلیشیئر کے بالکل سامنے زیرِ تعمیر گیسٹ ہاؤس کے باقی ماندہ کمروں کا جائزہ لینے لگا۔ اتنے میں قریب 2 کچے کمروں پر مشتمل گھر سے گل بہار بی بی گرما گرم چائے اور روٹی لے کر آگئیں۔
چونکہ ہمارا تھکاوٹ سے بُرا حال تھا اور بھوک بھی شدید لگی ہوئی تھی، اس لیے چائے کے ساتھ روٹی کے مزے لینے کے بعد دونوں دوست کمرے میں ہی آرام کرنے لگے، جبکہ میں سید فقیر کے ساتھ گیسٹ ہاؤس کے برامدے میں گل بہار بی بی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
57 سالہ گلبہار بی بی کو اردو اور پشتو زبان سمجھ نہیں آرہی تھی بلکہ صرف اپنی مقامی زبان واخی میں ہی بات کر رہی تھیں۔ سید فقیر ہمارے درمیان ترجمان کا کردار بن گئے۔
چند سوالات پوچھنے کے بعد پتہ چلا کہ گل بہار بی بی کے 4 بچے، 3 بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کے والد واخان افغانستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ سید فقیر کے مطابق واخان کی پٹی اور بروغل میں ایک ہی قبیلہ آباد ہے۔ آشور محمد کی قیادت میں واحق قبیلہ کے افراد 1930ء کے اوئل میں وادی بروغل ہجرت کرکے یہاں پر مستقل سکونت اختیار کرگئے تھے جبکہ قبیلے کے باقی ماندہ افراد آج بھی افغانستان، تاجکستان اور پاکستان کے درمیاں سرحدی پٹی میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔
گل بہار بی بی کے ساتھ بیٹھے ہوئے میں ان کے چہرے پر پڑی لکیروں میں وادی بروغل اور ان کے باسیوں کی مشکلات بھری زندگی کو محسوس کررہا تھا۔ تھوڑی دیر مزید بیٹھنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے آواز دی کہ جلدی کریں ہم نے مزید 3 سے 4 گھنٹے کا سفر کرنا ہے اور موسم خراب ہورہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو ہم مزید سفر نہ کرسکیں۔
ڈرائیور کی جانب سے ملنے والی اس ’وارننگ‘ میں ہم نے پھرتی پکڑی اور کچھ ہی دیر میں گل بہار بی بی کی محبت اور خلوص کو ساتھ لے کر دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ دریائے یارخون کے کنارے تقریباً آدھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم وادی بروغل کے سب سے بڑے گلیشیئر ’چٹی بوئی‘ پر پہنچ چکے تھے۔
جی ہاں، یہ وہی گلیشیئر ہے جس پر پاکستان کے کوہِ نوردوں کے استاد، مشہور سیاح اور کئی کتابوں کے مصنف مستنصر حسین تارڑ نے اپنے دوستوں کے ہمراہ قدم رکھے تھے اور ایک مشکل ٹریک کے ذریعے وادی اشکومن سے چٹی بوئی گلیشیئر کو کراس کرکے وادی بروغل میں داخل ہوئے تھے۔ گلیشیئر پہاڑ سے پھسل کر دریا کنارے آلگا تھا۔
گلیشیئر کی خوبصورتی اتنی تھی کہ دیر تک میں اس کی ہیئت اور اس کے جمال کو دیکھ کر حیریت زدہ رہا۔ گلیشیئر پر کچھ دیر قیام کے بعد ہم ایک گھنٹےکا مزید سفر کرکے ایک اونچی اور دشوار گزار پہاڑی پاس کی طرف بڑھنے لگے جس کو بروغل پاس بھی کہتے ہیں۔
راستے میں ایک سڑک مشرق کی طرف جدا ہوکر چکار نامی گاؤں کو جاتی تھی جہاں سے براستہ درکوٹ پاس (4800 میٹر) 2 دن کے پیدل سفر پر محیط ایک مشکل ٹریک کے ذریعے وادی یاسین اور درکوٹ گاؤں پہنچ سکتے ہیں۔ چونکہ ہماری منزل لشکر واز (لشکرگاز) تھا اس لیے ہم بروغل پاس (اشکر واز پاس) کی طرف بڑھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں ہمارے سامنے اشکر واز کا خوبصورت میدان تھا۔ جس کے درمیان چند خوبصورت جھونپڑی نما گھر اور چترال اسکاؤٹس کی ایک چیک پوسٹ نظر آنے لگی۔
اشکر واز چیک پوسٹ پر چترال اسکاؤٹس کے ایک نوجوان نے گاڑی میں بیٹھے تمام افراد کی انٹری کرنے اور ہمارے اصل شناختی کارڈ اپنے پاس جمع کرنے کے بعد ہمیں آگے کا سفر کرنے کی اجازت دی۔ اشکر واز کے اس میدانی علاقے میں چترال اسکاؤٹس نے ایک پولو گراونڈ بھی بنایا ہے جہاں اس سال پولو فیسٹول ستمبر میں منعقد کیا گیا۔ عام طور پر تو پولو کا کھیل گھوڑوں پر بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے، مگر یہاں بروغل میں یہاں پائی جانے والی جنگلی گائے جس کو انگریزی میں یاک جبکہ مقامی زبان میں ژاغو یا زو بولتے ہیں، اس پر بیٹھ کر یہ کھیل کھیلا جا تا ہے۔ اب ہم دریا (جو کہ اب ایک نالے کی صورت اختیار کرچکا تھا) کو کراس کرتے ہوئے سرسبز میدانوں میں آہستہ آہستہ مزید بلندی کی جانب گامزن تھے۔
تقریباً 20 منٹ مزید سفر کے بعد ہم اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سے واخان کوریڈور (واخان ٹریک) نکلتا ہے۔ اس جگہ کو مقامی لوگ دروازہ پاس کہتے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کی واخان پٹی اور تاجکستان کو ملاتا ہے۔ اس مقام سے دروازہ پاس کے ذریعے آپ واخان کی پٹی میں 5 سے 6 گھنٹے میں گھوڑے کے ذریعے یا پیدل پہنچ سکتے ہیں۔
مشہور سیاح اور کئی کتابوں کے مصنف محمد عبدہ کے مطابق واخان راہداری کو خشکی میں وہی اہمیت حاصل ہے جو سمندر میں نہر پانامہ اور نہر سوئیز کو حاصل ہے۔ واخان کی پٹی کو انگریزوں نے افغانستان کی دُم بھی کہا ہے۔ یہ پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے، چینی سنکیانگ، افغانی بدخشاں اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے۔ یہ اصل میں ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو ان ممالک کے درمیان تنگ دروں پر مشتمل ہے۔ اس پورے علاقے کو واخان راہداری، واخان پٹی یا واخان کوریڈور کہتے ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ واخی ہیں جن کی زبان بھی واخی ہے۔ ان لوگوں کی ثقافت مشترکہ ہے اور آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔
اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310 کلومیٹر اور چوڑائی 15 کلومیٹر ہے۔ مشرق کی طرف کوہِ بابا تنگی کے دامن میں چوڑائی سکڑ کے 10 کلومیٹر رہ جاتی ہے۔ یہی علاقہ ہے جو سوختہ، رباط اور سوماتاش کے راستے چینی صوبے سنکیانگ سے مل جاتا ہے۔ سرحدِ واخان کا یہ حصہ پامیر میں افغان کرغیز علاقے کے ساتھ متصل ہے۔ واخان کا دریا آبِ پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیئر سے نکلتا ہے اور روشن کے مقام پر دریائے آمو سے جاملتا ہے۔ یہ دونوں دریا مشرق سے مغرب کی طرف بہتے ہیں۔ واخان کے شمالی حصے کو پامیر کہتے ہیں جہاں واخی اور پامری قوم آباد ہے۔
پاکستان کے ہنزہ سے اوپر والے علاقے گلمت، پسو، شمشال، سوست، چہ پرسان اور واخان ایک جیسی ثقافت والے علاقے ہیں۔ زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہداری کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کو ملانے والا دروازہ پاس افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارت کی لیے بند ہوگیا لیکن چہ پرسان اور واخان کے درمیان تعلق برقرار رہا اور اس کی وجہ ارشاد پاس جیسے چند قدیم راستے ہیں جن پر لوگ سفر کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے ایک دوسرے کے ملک میں جانے پر کوئی سرحدی پابندیاں نہیں ہیں۔
دروازہ پاس کے مقام پر تصویر کشی کرنے کے بعد اب ہماری جیپ ایک ہرے بھرے میدان میں داخل ہوچکی تھی۔ جگہ جگہ پر مارموٹ (کن چوہا) اپنے بلوں سے باہر نکلنے لگتے۔ مقامی زبان واخی میں مارموٹ کو وینوک کہا جاتا ہے۔ دیوسائی کے بلند میدانوں سے لے کر خنجراب کی بلندیوں پر رہنے والے اس خرگوش نما جانور سے میرا ہمیشہ سے ایک تعلق رہا ہے۔ مجھے قدرتی رعنائیوں سے بھرپور خاموش وادیوں اور سرسبز میدانوں میں اس کی سیٹی اچھی لگتی ہے۔
گرمیوں میں 3000 میٹر سے 5000 میٹر کی بلندی پر دیکھے جانے والے مارموٹ سردیوں کا پورا موسم سو کر گزارتے ہیں اور اپنی زخیرہ کردہ خوراک کو کھاتے ہیں۔ راستہ کچا اور کیچڑ والا تھا، مگر ڈرائیور کی کمال مہارت سے جیپ اپنی اگلی منزل کی طرف گامزن تھی۔
ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم گارل یا گرل گاؤں سے گزرے۔ گاؤں کے عین وسط میں ایک کھلے میدان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھی۔ سید فقیر نے گاڑی سے ہی افضل نامی ایک لڑکے کو آواز دی اور واخی زبان میں ہی لشکر واز (لشکرگاز) میں رہائش اور دیگر سہولیات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
کچھ فاصلے پر ایک موقع ایسا آیا جب آگے بڑھنے کے لیے جیپ کو دریا کے پانی گزرنا تھا۔ ڈرائیور اور سید فقیر نے جیپ سے اتر کرپانی کا جائزہ لیا، کیونکہ شام کا وقت تھا اور دریا میں پانی کا بہاؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ مشورے کے بعد رسک نہ لینے اور واپس گرل گاؤں میں رات گزارنے کا پروگرام طے پایا۔ تھوڑی دیر میں ہم واپس گرل گاؤں پہنچ چکے تھے۔
گرل پہنچتے ہی افضل نامی نوجوان نے ہمیں گاؤں کے ایک کونے میں بنائے گئے مہمان خانے میں پہنچا دیا۔ یہ 10، 12 فٹ کا ایک کچا کمرہ تھا مگر اندر سے مقامی روایات کے مطابق خوبصورت قالینوں، گول تکیوں اور پردوں سے مزین تھا۔
پاکستان کے آخری کونے میں اس طرح کی رہائش ملنا یقیناً یہ رب کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔ شاید ہمیں قدرت کی طرف سے اس لیے یہاں روکا گیا تھا کہ ہم گرل گاؤں کی اصل خوبصورتی اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوسکیں۔
تھوڑی دیر آرام کے بعد غروبِ آفتاب کا منظر دیکھنے کے لیے میں کیمرا لے کر گرل کے سرسبز میدان کی طرف نکل پڑا۔ گرل کا میدان لال، پیلے اور نیلے پھولوں سے بھرا پڑا تھا۔ دُور دُور تک مجھے سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا تھا۔ میں ابھی ان نظاروں سے لطف اندوز ہو ہی رہا تھا کہ اچانک میری نظر درکوٹ پاس پر غروب ہوتے سورج پر پڑی۔ کیا مسحور کن نظارہ تھا۔
برف پوش پہاڑوں اور درکوٹ پاس کے دامن میں سرسبز وادی چکار کا منظر بھی لاجواب تھا۔ دیر تک قدرتی نظاروں کی منظر کشی کے بعد میں رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں لذیز کھانے کے دسترخوان پر میرا شدت سے انتظار کیا جارہا تھا۔
کھانے کے بعد اگلے دن کی منصوبہ بندی، کرومبر جھیل کے لیے گھوڑے اور مقامی گائیڈ کا بندوبست کرنے کے لیے افضل کے پاس بیٹھ گئے۔ افضل کے مطابق گرل سے کرومبر جھیل تک کل 9 سے 10 گھنٹے کا ٹریک بنتا ہے، اور اس کے لیے ہمیں ہر صورت جھیل پر رات گزارنا پڑے گی۔ ہمارے پاس رہائش کے لیے خیمہ، سلپینگ بیگ اور دیگر چیزیں موجود تھیں۔ لیکن ہماری خواہش تھی کہ علی الصبح نکلیں اور رات تک کم از کم لشکر واز (گاز) واپس پہنچ جائیں جو سید فقیر اور افضل سمیت تمام مقامی باشندوں کو نامکن نظر آرہا تھا۔
خیر صبح سویرے 6 بجے نکلنے کا پروگرام طے ہوا۔ 2 عدد گھوڑوں کا بھی افضل کو بندوبست کرنے کا کہا۔ کافی دیر بات چیت کرنے کے بعد ہم جلد ہی خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔
کسی بھی خواہش کو پورا کرنے لیے مشکل ڈگر پر چلے بغیر اس کو پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی خوبصورت وادی میں چھپی ہوئی نیلم جیسی خوبصورت جھیل تک پہنچنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں، لیکن کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ دیوانے تو راستوں کی مشکلات سے بے پروا ہوتے ہیں، وہ تو منزل کی لگن میں مدہوش ہوکر سفر جاری رکھتے ہیں۔
بس ایسی ہی دیوانگی ہمارے سر پر بھی سوار تھی جس نے ہمیں وادی بروغل تک سفر کرنے پر مجبور کیا اور شدید تھکاوٹ کے باوجود نیلگوں پانی کی وجہ سے مشہور کرومبر جھیل کے لیے رختِ سفر باندھنے کے لیے علی الصبح اٹھنے پر راضی کیا۔
ہمارے پاس سامان کے لیے ایک گھوڑا دستیاب تھا۔ آگے کے سفر کے لیے اپنے ہمسفر دوستوں نجات خان، گل حسین اور کرومبر جھیل کے لیے مقامی گائیڈ نیاز علی کے ساتھ 4 لوگوں کا یہ پُرعزم قافلہ صبح 6 بجے کے قریب 24 کلومیٹر لمبے ٹریک پر اپنی منزل کی طرف پیدل روانہ ہوا۔
گرل گاؤں سے 20 منٹ سفر کرنے کے بعد ہم دریائے بروغل (یارخوں) کے ساتھ ساتھ کھلے سرسبز میدانوں میں چلتے رہے۔ راستے میں کوئی اکا دکا مقامی فرد گھوڑے یا گدھے پر سوار نظر آتا رہا۔
تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد میرے ہمسفر دوست راستے میں ہر مقامی فرد سے کرومبر جھیل کے فاصلے کے بارے میں پوچھنے لگے۔ اس سے ان کی تھکاوٹ کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ گھوڑا اور گائیڈ آگے آگے اور پیچھے ہم تاحدِ نگاہ خوبصورت اور سرسبز ڈھلوانوں میں چلتے رہے۔
اردگرد پہاڑوں نے برفیلی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کسی مارموٹ کی سیٹی اس خاموشی کو ٹوٹنے پر مجبور کردیتی تھی۔ تقریباً 2 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد لشکر واز (لشکرگاز) کے قریب یکے بعد دیگرے 2 خوبصورت جھیلیں راہ میں آئیں۔
ان جھیلوں کے دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم 2 گھنٹے اور 10 منٹ میں لشکر واز کے وسیع اور سرسبز میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اس مقام پر افغانستان سے آنے والے احمد شاہ ابدالی کے ایک فوجی یونٹ نے پڑاو ڈالا تھا۔
لشکر واز میں آبادی کے ساتھ ہی 2 کمروں پر مشتمل ایک خوبصورت گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔ یہاں پر کرومبر جانے کے لیے گھوڑے اور گائیڈ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ لشکر واز میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم 7 گھنٹے کے ایک لمبے اور مشکل ٹریک پر گامزن تھے۔
ہمسفر دوستوں کے حوصلے بلند تھے اور ٹریک کے آغاز سے ہی ایک ساتھی گھوڑے پر بیٹھ کر سفر کرنے لگا تھا۔ لشکر واز کے وسیع میدان میں جہاں ایک طرف یاک کے ریوڑ گھاس چرنے میں مگن تھے وہیں گھوڑے بھی نظر آرہے تھے۔ لشکر واز سے نکلے ہوئے تقریباً 3 گھنٹے کا سفر ہوچکا تھا اور ہم کھلے میدانی علاقے سے بلند اور تنگ پہاڑی سلسلے میں داخل ہوچکے تھے۔
کسی انسانی بستی کے آثار دُور دُور تک نظر نہیں آرہے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ درے سے ہوکر ہم ایک بار پھر کھلے اور وسیع میدان میں داخل ہوگئے۔ ہری گھاس پر مشتمل اس وسیع میدان میں ہم تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ تقریباً آدھ گھنٹہ مزید سفر کرنے کے بعد ہمارے سامنے 15 سے 20 گھروں پر مشتمل آبادی کے آثار نظر آنے لگے۔
ہمارے گائیڈ نیاز کے مطابق یہ ’شوار شیر‘ نامی گاؤں ہے۔ آبادی میں داخل ہوتے ہی ایک کھلے کتے نے ہمارا استقبال، لیکن مقامی خاتوں کی بروقت مداخلت سے ہم محفوظ رہے۔ کتے کے تیور دیکھ کر ہم نے بروقت آبادی سے نکلنے میں عافیت جانی۔ شوار شیر گاؤں سے نکلنے کے بعد ہماری اگلی منزل لیلی رباط کی کیمپ سائٹ تھی۔ دن کے 12 بج چکے تھے۔ شوار شیر سے نکلتے ہی پہاڑوں میں چھپی خوبصورت چھوٹی جھیلیں ہماری آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں۔
یاک (زو) کے ریوڑ بھی کئی جگہوں پر ہمارے ہمسفر رہے جس سے مستنصر حسین تارڑ کی اس بات کی تصدیق ہو رہی تھی کہ وادی بروغل تو اصل میں ’یاک سرائے‘ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میں نے اتنی بڑی تعداد میں یاک پاکستان کی کسی اور وادی میں نہیں دیکھے تھے۔ سفر جاری رہا اور تقریباً ایک بجے کے قریب ہم لیلی رباط کے دلکش مناظر سے بھرپور ایک وسیع و عریض میدان میں داخل ہوگئے۔ یہاں پر زیادہ تر سیاح کیپمنگ کرتے ہیں، اردگرد چند گھر بھی موجود تھے۔
لیلی رباط کے میدان کے اردگرد پہاڑی ٹیلوں میں بھی 4 چھوٹی جھیلیں یہاں کے حُسن کو مزید دوبالا کررہی تھیں۔ لیلی رباط سے ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ جسم تھک چکا تھا، ہڈیاں درد سے چُور تھیں لیکن سروں پر جو جنون سوار تھا وہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
گرل گاؤں سے یہاں تک 7 گھنٹے کی مسلسل ٹریکنگ میں مجھے بھی 2 مرتبہ گھوڑے پر سواری کرنے کا موقع مل چکا تھا، جس سے قدرے سکون مل گیا تھا اور یہی حال میرے باقی ماندہ دوستوں کا بھی تھا۔
لیلی رباط سے ابھی نکلے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ دُور سے آواز آئی، عظمت بھائی! ایک لمحے کے لیے میں حیران رہ گیا۔ جہاں ہمارے گروپ کے علاوہ کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا، اس ویرانے میں کون ہے جو مجھے آوازیں دے رہا تھا۔ آوازیں سامنے والی پہاڑی سے آرہی تھی۔ جس کی عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے ہمارا بُرا حال ہوچکا تھا۔ اوپر سے نیچے اترتے ہوئے یہ ایک پورا گروپ تھا جس کے آگے آگے چلتے رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے موٹروے پولیس سے وابستہ دوست میاں عامر مجھے دُور سے پہچان چکے تھے۔
میاں عامر کا شمار پاکستان کے نمایاں ٹریکرز میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ تعارف فیس بک کے ذریعے 3 سال پہلے ہوچکا تھا لیکن بالمشافہ ملاقات کرومبر جھیل کے ٹریک پر ہورہی تھی۔ 6 دوستوں پر مشتمل ان کا گروپ کرومبر جھیل پر رات کا قیام کرکے واپس لشکرگاز گیسٹ ہاؤس کی طرف روانہ تھا۔
قریب پہنچ کر پرتپاک استقبال ہوا اور کچھ دیر بیٹھنے اور گپ شپ کے بعد ہم نے جھیل پر نہ رکنے اور واپس لشکر واز پہنچنے کے ارادے سے ان کو آگاہ کیا۔ عامر بھائی نے آسمان کے بدلتے رنگ کو دیکھتے ہوئے جھیل جلد پہنچنے اور واپسی کرنے کا کہہ کر ہمیں آگے جانے کی اجازت دے دی اور خود لشکرگاز میں ہمارا انتظار کرنے کا وعدہ کرکے نکل پڑے۔
لشکر واز سے 6 گھنٹے کا سفر مکمل کرنے کے بعد ٹریک کا آخری حصہ رہ گیا تھا۔ اب ہمارے سامنے قدرے مشکل ٹریک تھا اور ایک طویل چڑھائی تھی۔ موسم بھی انگڑائی لینے لگا تھا۔ نیلے آسمان پر گہرے بادل اپنا قبضہ جما چکے تھے۔ ہلکی ہلکی بوندہ باندی شروع ہوچکی تھا۔ بارش کے قطرے اب برف کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ موسم کی شدت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہواؤں نے گھیر لیا تھا۔ ایک طرف سفر کا کٹھن مرحلہ اور دوسری طرف برساتی وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے گیلے کپڑوں کے ساتھ سفر کو جاری رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ یقیناً رب کائنات کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ کئی دفعہ دل سے آہ نکلی کہ اے رب تو ہی کارساز ہے تو ہی اپنا کرم کر۔
اس سفر میں مجھے اندازہ ہوا کہ محبوب کو حاصل کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ ایک گھنٹے مسلسل برفانی طوفان کے دوران آخری چڑھائی چڑھنے کے بعد میرا حال بے حال ہوچکا تھا۔ گل حسین میری حالت کو بھانپ چکا تھا اس لیے گھوڑے سے اتر کر مجھے جھیل تک گھوڑے پر ہی مزید سفر کرنے کا مشورہ دیا جس کو قبول کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
تقریباً 3 بج کر 15 منٹ پر ہم اپنی منزل کو پاچکے تھے۔ دن کے 3 بجے میری نظر سطح سمندر سے 14 ہزار فٹ یا 4200 میٹر کی اونچائی پر واقع پاکستان کی دوسری بڑی جھیل کرومبر کے نیلگوں پانی پر پڑی تو ایسا محسوس ہوا جیسے ہم نے اپنی زندگی کا سب سے مشکل اور ناقابلِ یقین مقصد پالیا ہو۔ لیکن جھیل کے قریب جانے کے بجائے میں سیدھا جھیل کنارے لگے راولپنڈی سے آئے ہوئے 2 سیاحوں کے کیمپ میں گھس گیا۔
مجھے ہلکا ہلکا بخار ہوچکا تھا اور تھکن سے بُرا حال تھا۔ میری درخواست پر کیمپ میں موجود سیاحوں نے چائے بنانی شروع کی۔ تقریباً 10 منٹ کے بعد ہمارے سامنے گرما گرم سلیمانی قہوہ تیار ہوچکا تھا۔ قہوہ کے ساتھ بسکٹ، سلائس اور پیناڈول کی ایک گولی کھا کر کچھ جان میں جان آئی۔
کیپمپ میں 20 منٹ گزارنے کے بعد باہر دیکھا تو موسم اب تبدیل ہورہا تھا اور آسمان پر بادلوں کا قبضہ ختم ہونے لگا تھا۔ جھیل کے اردگرد برفیلی چوٹیوں پر آفتاب کی کرنیں پڑنی لگیں۔ یہ سب کچھ مجھ سمیت ہمارے گروپ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ اب ہم باہر نکل کر جھیل کنارے منظر کشی میں مصروف ہوگئے۔ یہ جھیل تقریباً 4 کلومیٹر لمبی، ڈھائی کلومیٹر چوڑی اور 52 میٹر گہری ہے۔
اس بدلتے موسم کو دیکھتے ہوئے ایک رائے تو یہ آئی کہ جھیل کنارے ہی کیمپ لگا لیتے ہیں اور رات یہیں گزار لیتے ہیں، لیکن دوستوں کے مشورے اور موسم کی ہر گھنٹے بدلتی صورتحال کو دیکھ کر واپسی کا فیصلہ ہوا۔ اب ہمارا ٹارگٹ اندھیرا ہونے سے پہلے شوار شیر کی بستی تک پہنچا تھا۔ اس لیے کچھ پھرتی دکھائی اور تقریباً 2 گھنٹے کی مسلسل ٹریکنگ کے بعد ہم 4 گھنٹوں کا سفر 2 گھنٹے میں طے کرچکے تھے۔
شوار شیر گاؤں میں کتے کی موجودگی کے خوف سے ہم ایک لمبے ٹریک سے گاؤں کی دوسری طرف سے نکل پڑے۔ اب اندھیرا ہونے لگا تھا۔ لشکر واز یہاں سے 3 گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ موسم بھی بار بار مزاج بدل رہا تھا۔ گہرے بادلوں اور گرجتی بجلی نے ماحول کو مزید خوفناک اور کٹھن بنا دیا تھا۔ تھوڑی دیر میں بارش بھی برسنے لگی۔ ہم گاؤں سے مسلسل چڑھائی چڑھنے کے بعد اب ایک کھلے میدان میں پہنچ چکے تھے۔ دُور سامنے کچھ روشنی نظر آرہی تھی۔ مسلسل بارش اور تھکاوٹ سے ہماری رفتار بہت کم ہوگئی تھی۔
پورے راستے میں ہم بغیر چھتریوں کے برف باری اور بارش میں ٹارچ کی روشنی کی مدد سے راستہ تلاش کرکے سفر کررہے تھے۔ راستے میں کبھی کبھی خانہ بدوشوں کے کتوں سے بھی پالا پڑتا رہا مگر ان سے بچنے کے لیے ہم اکثر راستہ تبدیل کرکے کسی لمبے راستہ سے ہوتے ہوئے واپس اپنے راستے پر آجاتے۔
خیر ہمیں لشکر واز تک پہنچتے پہنچے رات کے 9 بج گئے۔ بھیگے جسموں اور ٹھٹھرتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ جب ہم عامر اور اس کے گروپ کے کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بھرپور استقبال کیا۔ اپنے خشک کپڑے دیے اور گرما گرم کھانا پیش کیا۔ رات بھر بارش برستی رہی لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے ہمیں باہر کے حال احوال کا پتہ نہ چلا۔
اگلے دن صبح ڈیڑھ گھنٹے مزید پیدل چلنے کے بعد ہم گرل گاؤں پہنچ چکے تھے۔ یہاں ہم نے اپنی سیاحت کی ڈائری میں وادی بروغل اور کرومبر کی جھیل کے سفر کا اضافہ کیا اور حسین یادوں کے ساتھ مستوج اور چترال کی طرف روانہ ہوئے۔
وادی بروغل اور کرومبر جھیل کی سیر کے لیے جانے والے سیاحوں کے لیے چند ضروری ہدایات
- وادی بروغل کی سیر کے لیے کم از کم لاہور، اسلام آباد سے 7 دن کی منصوبہ بندی کرلیں۔
- لوکل گائیڈ کی خدمات ضرور حاصل کریں۔
- مستوج سے آگے سڑک کچی اور تنگ ہے۔ 4X4 جیپ سے ہی سفر ممکن ہے۔ اس لیے مستوج سے ہی جیپ کا بندوبست کیا جائے۔
- مستوج سے جیپ اور پراڈو گاڑی کا 25 ہزار سے 35 ہزار تک آنے جانے کا کرایہ بنتا ہے۔
- کرومبر جھیل کا سفر کرنے والے سیاح اپنے ساتھ فرسٹ ایڈ کٹ، خیمہ، سلپینگ بیگ اور دیگر کیمپنگ کا سامان رکھیں۔
- سامان کے لیے یا پیدل سفر سے بچنے کے لیے لشکر واز یا گرل گاؤں سے گھوڑا 7 سے 8 ہزار روپے میں 2 دن کے لیے لیا جاسکتا ہے۔
- وادی بروغل اور کرومبر جھیل کے مقام پر موسم بدلتے دیر نہیں لگتی، اس لیے اپنے ساتھ برساتی، گرم جیکٹ اور ٹریکنگ کے لیے مناسب جوتے ضرور رکھیں۔
- مستوج سے ہی خوراک کا سامان خریدیں یا بروغل کے راستے میں کشمانجہ سے بھی خریداری کی جاسکتی ہے۔
- مقامی روایات اور ثفافت کا ضرور خیال رکھیں۔
- وادی بروغل کے لوگ انتہائی ملنسار اور محبت کرنے والے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کی صورت میں مقامی افراد سے مدد لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
- یاک (جنگلی گائے) وادی بروغل کی پہچان ہے اور مقامی لوگوں کے معاش کا بھی یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ لہٰذا اپنے دورے کے دوران یاک اور دوسرے جانورں کو تنگ نہ کریں۔
- وادی بروغل اور کرومبر کے سفر کے لیے جون سے ستمبر کے مہینوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
- وادی بروغل انتہائی خوبصورت وادی ہے اور اس کا حُسن تب تک برقرار رہے گا جب تک وہاں پر جانے والے سیاح اس خوبصورت وادی میں صفائی کا خیال رکھیں گے۔ گند وہاں پر پھینکنے کے بجائے واپس گند کے مخصوص مقامات تک پہنچائیں۔
عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔