مسابقتی کمیشن پاکستان نے سیمنٹ بنانے والوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا
اسلام آباد: مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) کی ٹیم نے مینوفیکچررز کی ممکنہ غیر مسابقتی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے دفاتر کی تلاشی لی اور معائنہ کیا۔
سی سی پی میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ 2 مختلف ٹیموں نے کراچی میں اے سی ایم اے کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے دفاتر میں داخل ہو کر تلاشی لی اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس مئی میں سی سی پی نے خصوصا ً اپریل کے دوران سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافے پر ظاہر کیے گئے تحفظات، شکایات اور متعدد میڈیا رپورٹس سے اکھٹی کی گئی معلومات کی بنیاد پر سیمنٹ سیکٹر میں انکوائری کا آغاز کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:جہلم میں سیمنٹ فیکٹریوں پر پانی کے تحفظ کے چارجز عائد کیے جانے کا انکشاف
رپورٹس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ بظاہر اے پی سی ایم اے کی چھتری تلے منعقدہ ایک اجلاس میں سیمنٹ کے مینوفیکچررز نے اکٹھے سیمنٹ کی بوری کی قیمت میں 45 سے 55 روپے اضافے کا فیصلہ کیا تھا۔
24 ستمبر کو مسابقتی کمیشن نے اے پی سی ایم اے کے علاوہ لاہور کی ایک بڑی سیمنٹ کمپنی کے ایک سینئر ملازم اور ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سینئر وائس چیئرمین کے دفاتر کا معائنہ کیا تھا اور تلاشی لی تھی۔
مزید برآں قبضے میں لیے گئے ریکارڈ بشمول واٹس ایپ مسیجز اور ای میلز کی بنیاد پر ساؤتھ زون میں تلاشی اور معائنہ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسابقتی طریقہ کار سے متعلق شواہد بھی اکٹھے کیے گئے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ شواہد سیمنٹ مینوفیکچررز کے مابینہ مبینہ طور پر ایک کارٹل جیسے انتظام کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سیمنٹ کی قیمت میں اضافے کے بعد پی ایس ایکس میں مثبت رجحان
سی سی پی نے اپنی انکوائری کا آغاز متعدد عوامل کی بنیاد پر کیا تھا جس میں سال 2020 کی پہلی ششماہی میں سیمنٹ کی طلب میں کمی، سیمنٹ کی قیمت میں متوازی، پاکستان ادارہ شماریات اور سیمنٹ کمپنی سے حاصل کردہ اعداد و شمار شامل تھے۔
سی سی پی کی ابتدائی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی کہ سیمنٹ مینوفیکچررز نے ایسے وقت میں قیمتوں میں اضافہ کیا جس وقت مینوفیکچررز کی گنجائش کے مقابلے طلب کم، ایندھن سستا، نقل و حمل اور شرح سود کم تھی جس سے سیمنٹ کمپنیوں کے اکٹھا قیمتوں میں اضافے پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
خیال رہے کہ ماضی میں سیمنٹ سیکٹر کو کارٹل بنانے اور ایکٹ کی دفعہ 4 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ممنوعی معاہدوں میں شامل ہونے پر 6 ارب 30 کروڑ روپے تک کے جرمانے کے جاچکے ہیں۔
سال 2012 میں سی سی پی نے سیمنٹ کمپنیوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا لیکن ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے باعث کارروائی آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
اس صورتحال پر اے پی سی ایم اے کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے متعدد کوششی کی گئیں تاہم کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔
یہ خبر 20 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔