گلگت بلتستان میں احتجاجی مظاہرے، پاک فوج سے مدد طلب
گلگت بلتستان انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جاری تنازع اور احتجاجی مظاہروں کے دوران نگراں حکومت نے خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے پاک فوج کی مدد طلب کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط کے ذریعے گلگت بلتستان کی حکومت نے گلگت اور چلاس میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج کے دو دستوں کو تعینات کرنے کی درخواست کی ہے۔
جی بی انتظامیہ نے 480 فوجی طلب کیے ہیں ان میں سے 300 کو گلگت اور 180 کو چلاس میں تعینات کیا جانا ہے۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات: پی ٹی آئی 9 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے
انتظامیہ کی مدد کے لیے یہ فوجی تیسرے درجے کی سیکیورٹی لیئر کے طور پر کھڑے ہوں گے اور 23 نومبر تک تعینات رہیں گے۔
گلگت میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے قریب پیپلز پارٹی کے کارکنان جی بی ایل اے 2، گلگت 2 کی نشست پر انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی دھرنا دے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے الزام لگایا کہ اتوار کی رات ووٹوں کی گنتی میں اس کے اُمیدوار جمیل احمد سرفہرست تھے تاہم اگلے روز اس کا نتیجہ تبدیل کردیا گیا اور انہیں محض دو ووٹوں سے پی ٹی آئی کے فتح اللہ خان کے پیچھے کردیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے گلگت میں شاہراہ قائداعظم کو بلاک کردیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے احتجاج کے بعد جی بی الیکشن کمیشن نے پہلے ہی حلقے میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟
دوبارہ گنتی منگل کے روز دونوں اُمیدواروں کی موجودگی میں ہوئی تاہم امن و امان کی صورتحال کے سبب اب تک نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
دوسری جانب آزاد اُمیدوار حاجی دلپزیر کے حامیوں نے جی بی ایل اے 15 دیامر حلقے میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف تھالیچی اور گنرفارم کے قریب شاہراہ قراقرم کو بلاک کردیا۔
مظاہرین نے الزام لگایا کہ دلپزیر کے حق میں 418 پوسٹل بیلٹ مسترد کردیئے گئے ہیں اور ایک اور آزاد اُمیدوار حاجی شاہ بیگ کو غیر سرکاری طور پر اس حلقے سے فاتح قرار دے دیا گیا ہے۔
دریں اثنا گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر نے 22 نومبر کو جی بی ایل اے 17 دیامر 3 میں خواتین پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ کے احکامات جاری کیے۔
یہ احکامات ان اطلاعات کی روشنی میں سامنے آئے ہیں جن کے مطابق خواتین کو معاہدے کے ذریعے یا مذہبی اسکالرز کی جانب سے دھمکیوں کے ذریعے 15 نومبر کو رائے دہندگی سے روک دیا گیا تھا۔