دنیا کی پہلی کورونا ویکسین آخرکار تیار ہوگئی
امریکا کی فائزر اور جرمنی کی بائیو این ٹیک نے سب سے پہلے 9 نومبر کو اپنی کورونا ویکسین کے انسانی ٹرائل کے تیسرے اور آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری کرتے ہوئے اسے بیماری سے تحفظ کے لیے 90 فیصد سے زیادہ مؤثر قرار دیا تھا۔
اب یہ دنیا کی پہلی ویکسین بن گئی ہے جس کے آخری مرحلے کے ٹرائل کو مکمل کرکے حتمی نتائج جاری کردیئے گئے ہیں اور اب یہ کمپنیاں امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے ایمرجنسی استعمال کی منظوری حاصل کرنے کے لیے درخواست جمع کرائیں گی۔
حتمی نتائج میں بتایا گیا کہ یہ ویکسین بیماری کی روک تھام میں 95 فیصد تک مؤثر ہے۔
دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنا ڈیٹا موجود ہے جو یو ایس ڈرگ ریگولیٹر کی شرائط کو پورا کرسکتا ہے اور آئندہ چند روز میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری کی درخواست جمع کرائی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے دونوں کمپنیوں نے تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج میں کہا تھا کہ اس کی افادیت کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ہے، جسے سائنسدانوں نے توقعات سے زیادہ قرار دیا تھا۔
ایک اور امریکی کمپنی جو فائزر ویکسین جیسی جینیاتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین استعمال کررہی ہے، نے رواں ہفتے اپنے ابتدائی نتائج میں بتایا تھا کہ اس کی ویکسین بیمااری سے تحفظ کے لیے 94.5 فیصد موثر ہے۔
روس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج گزشتہ ہفتے جاری ہوئے تھے جس میں اسے بیماری کے تحفظ کے لیے 92 فیصد مور قرار دیا گیا۔
فائزر کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹیو البرٹ بورلا نے حتمی نتائج پر کہا 'تحقیق کے نتائج 8 ماہ کے تاریخی سفر میں اہم سنگ میل ہے، جس سے جان لیوا وبا کو روکنے کے قابل ویکسین کو آگے لانے میں مدد ملی'۔
ان کا کہنا تھا 'ہم اس رفتار کو جاری رکھیں گے اور تمام تر ڈیٹا کو دنیا بھر کے ریگولیٹرز سے شیئر کیا جائے گا'۔
امریکی اور جرمن کمپنیوں نے دنیا میں پہلی بار تجرباتی کورونا ویکسین کے آخری مرحلے کے حتمی نتائج جاری کیے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ رواں سال ہی 5 کروڑ ڈوز تیار کرلیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ یہ ویکسین 2 ڈوز کے ذریعے استعمال کرائی جائے گی تو 5 کروڑ ڈوز ڈھائی کروڑ افراد کے لیے ہوں گے جبکہ اگلے سال یہ کمپنیاں ایک ارب 30 کروڑ ڈوز تیار کرنے کے لیے پرامید ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اور دیگر ریگولیٹرز نے کم از کم 50 فیصد افادیت والی کورونا ویکسینز کو موثر قرار دیا ہے، مگر ویکسینز کے حالیہ نتائج توقعات سے کافی زیادہ ہیں۔
فائزر نے بتایا کہ مختلف عمروں، جنس اور اقلیتی گروپس میں اس کی ویکسین کی افادیت کا تسلسل یکساں رہا۔
65 سال سے زائد عمر کے افراد جو اس بیماری کی سنگین شدت کے سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں، ان میں ویکسین سے ملنے والا تحفظ 94 فیصد رہا۔
اس ٹرائل میں 43 ہزار افراد شامل تھے اور 170 میں کورونا کی تشخیص ہوئی، جن میں سے 162 پلیسبو گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ ٹرائل میں 10 کیسز میں بیماری کی شدت سنگین تھی جن میں سے 9 پلیسبو گروپ اور ایک ویکسین گروپ میں شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق میں لوگوں کے تحفظ کے حوال سے کوئی نمایاں خدشات سامنے نہیں آئے، 8 ہزار افراد میں سائیڈ ایفیکٹس دیکھے گئے، مگر تھکاوٹ اور سردرد ہی سب سے زیادہ سنگین اثرات تھے۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت پہلے ہی ایک ارب 95 ارب ڈالرز کے عوض اس ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز خرید چکی ہے جبکہ مزید 50 کروڑ ڈوز بھی خریدنے والی ہے۔
جہاں تک پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی بات ہے تو یہ ویکسین مختلف مسائل کے باعث ان کے لیے موزوں نہیں۔
زیادہ گرم موسم، دور دراز علاقوں تک آبادیاں، بہت زیادہ ٹھنڈک فراہم کرنے والے فریزرز کی کمی اور ویکسین کی محدود دستیابی کے باعث پاکستان سمیت بیشتر ایشیائی ممالک اور ترقی پذیر اقوام کووڈ 19 کی وبا کی جلد روک تھام کے حوالے سے فائزر کی تجرباتی ویکسین پر انحصار نہیں کرسکتے۔
اس ویکسین کو اسٹور کرنے کے لیے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے کم کی ضرورت ہوگی۔
این پی آر کی رپورٹ کے مطابق فائزر کی جانب سے 2021 تک محدود تعداد (ایک ارب 30 کروڑ) میں ہی ویکسین کے ڈوز تیار کیے جائیں گے، اور ایک فرد کو 21 دن دوران کے دوران 2 ڈوز استعمال کرائے جائیں گے۔
یعنی ایک ارب 30 کروڑ ڈوز صرف 65 کروڑ افراد ہی استعمال کرسکیں گے، جبکہ کمپنی کی 80 فیصد سپلائی پہلے ہی امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا اور جاپان خرید لیے ہیں۔
آسان الفاظ میں باقی ممالک بالخصوص غریب ملکوں کے لیے ویکسین کا حصول بہت مشکل ہوگا۔
پاکستانی ماہرین بھی اس ویکسین سے مطمئن نہیں
سائنس و ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے سربراہ پروفیسر عطا الرحمن نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہ فائزر کی کورونا ویکسین کولڈ اسٹوریج کی ضروریات کے باعث ترقی پذیر ممالک کے لیے موزوں نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے فائزر کے اعلان پر خوش ہونا قبل از وقت ہوگا۔
انہوں نے کہا 'اس ویکسین کو ایئرپورٹ سے شہروں اور ممالک تک پہنچانے کے لیے کولڈ اسٹوریج انفراسٹرکچر اور چینز ترقی پذیر ممالک میں موجود نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ اس ویکسین کے 2 ڈوز 21 دن کے وقفے میں درکار ہوں گے اور اس عرصے میں انتہائی کم درجہ حرارت میں اسے محفوظ رکھنا مشکل ترین ہوگا۔
اسی طرح کے جذبات کا اظہار وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کیا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا 'یہ ویکسین کے لیے کولڈ چین کا ناتظام ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، ہمارا کولڈ چین سسٹم ممکنہ طور پر اس درجہ حرارت پر کام نہیں کرسکے گی تو ہمیں ملک بھر میں اس کی سپلائی کے لیے نئے انتظامات کرنا ہوں گے'۔