حکومت کا ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا منصوبہ
اسلام آباد: حکومت ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے سے متعلق آئندہ ہفتے ایک آرڈیننس لانے کے لیے تیار ہے، جس میں گواہوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اور اس مقصد کے لیے علیحدہ پروسیکیوشن (استغاثہ) نیٹ ورک کے تشکیل کی تجویز دی گئی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بذریعہ ٹوئٹ اس اعلان کے بعد کہ حکومت تمام نقائص کو دور کرتے ہوئے ایک سخت اور مجموعی انسداد ریپ آرڈیننس لارہی ہے، کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ڈان سے خصوصی گفتگو میں مندرجہ بالا بات سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ ٹوئٹ سندھ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد بخش بروڑو سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ریپ میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی یا نامرد کردینا چاہیے، وزیر اعظم
خیال رہے کہ یہ وہی اے ایس آئی ہیں جنہوں نے کشمور میں خاتون اور اس کی کم سن بیٹی کا ریپ کرنے والے ملزم کی گرفتاری کے لیے بچھائے گئے جال میں اپنی بیٹی کو پیش کرکے اہم کردار ادا کیا تھا۔
بابر اعوان جو قانون سازی پر قائم کابینہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ملک کے مختلف حصوں میں ریپ کے حالیہ واقعات پر بہت زیادہ تشویش میں مبتلا تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس وزیراعظم عمران خان کی اپنی قانونی ٹیم کو دی گئی ہدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے اس میں ’4 چیزوں‘ کو کور کیا گیا ہے، جس میں متاثرہ فرد کا تحفظ بھی شامل ہے تاکہ اس کا ذاتی صدمہ عوامی نہ بن سکے اور گواہوں کا تحفظ ہو۔
مشیر پارلیمانی امور کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون کے تحت ریپ کیسز کی تحقیقات ایک عام پولیس عہدیداروں کی جانب سے نہیں کی جاسکے گی بلکہ ان کیسز کے لیے صرف ڈی آئی جی (ڈپٹی انسپکٹر جنرل) یا ایس ایس پی (سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس) کی سطح تک کا گیزیٹڈ افسر نگرانی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون میں مقدمات جلد از جلد نمٹانے کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ملک میں گزشتہ کچھ برسوں میں 21 ہزار سے زائد ریپ کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور ان میں سے ’صرف کچھ سو ہی ٹرائل کے لیے جاسکے‘۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ نقائص کو دور کرنے اور بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ایک نیا اور علیحدہ استغاثہ کا نیٹ ورک قائم کیا جارہا ہے۔
اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے سزا یافتہ افراد کی جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مجرمان کو ’حتمی اور سخت سزائیں‘ دی جائیں گی، ساتھ ہی انہوں نے ان اقدامات کی توثیق نہیں کی جو اس مقصد کے لیے قانون تجویز کرتا ہے تاہم انہوں نے سرعام پھانسی کے آپشن کو مسترد کردیا، جس کا کچھ سیاسی رہنماؤں، یہاں تک کہ وزرا کی جانب سے بھی مطالبہ سامنے آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کشمور واقعہ: وزیراعظم کا اے ایس آئی اور ان کی بیٹی کو فون، مثالی قدم اٹھانے پر تعریف
ان کا کہنا تھا کہ ٹرائلز کے مکمل ہونے میں تاخیر کو روکنے کے لیے تمام ڈویژنز میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
جب ان کی توجہ اپوزیشن کی جانب سے کی جانی والی اس تنقید پر دلوائی گئی کہ قانون سازی کے لیے حکومت صدارتی آرڈیننسز پر انحصار کرتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم نے آرڈیننس کے اجرا کی توثیق کردی ہے جسے امریکا سمیت بہت سے ممالک میں ’جائز قانون سازی‘ سمجھا جاتا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرڈیننسز تب جاری کیے گئے جب پارلیمنٹ کا سیشن نہیں تھا چونکہ اس دوران کووڈ 19 کی صورتحال کی وجہ سے پارلیمنٹ سیشن میں نہیں تھا لہٰذا حکومت آئین کے مطابق آرڈیننسز جاری کرسکتی تھی اور یہ آرڈیننسز بالآخر پارلیمنٹ میں گئے جس نے قوانین کا نفاذ کیا۔