'چھتہ جنت' والا پُراسرار مکان جو 'اوپر والوں' نے مانگ لیا تھا!
گلی نمبر 4 کا اندرونی حصہ ہماری کالونی کے ان چند پُرسکون حصوں میں سے ایک تھا جہاں اگلی سمت سے بند راستے یہاں کے مکینوں کو تحفظ کا احساس دلاتے تھے، کیونکہ عموماً یہاں کے رہائشیوں کا ہی یہاں سے گزر ہوتا اور کوئی اجنبی یا مشکوک آدمی باآسانی نظروں میں آجاتا تھا۔
بس صبح سے شام تک کبھی کوئی ٹین ڈبے والا، قلعی گر، گولر والا، باقرخانی والا، پاپڑ والا یا کوئی سل بٹے والا یہاں نکل آتا اور صدا لگا کر اپنی راہ لیتا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب یہاں زیادہ تر ایک منزلہ گھر ہی تھے، چند ایک 2 منزلہ عمارتیں تھیں اور 5، 6 منزلہ عمارتیں تو ابھی پورے محلے میں ہی خال خال تھیں۔ شمال سے جنوب تک دراز گلیوں میں 4 نمبر گلی آخر تک بالکل سیدھی ہے۔
اپنے اختتام پر یہ گلی بھی بند ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے پار پرانا ویران 'ریس کورس' واقع ہے۔ زیادہ نہیں کچھ برس پیچھے کی باتیں ہیں جب اسی 4 نمبر گلی کے اختتام پر اسی سیدھ میں ایک پتلی سی گلی مزید 5 مکانوں کو راستہ دے رہی تھی، جس کی چوڑائی کوئی 3، 4 فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ تمام مکان دائیں سمت واقع تھے اور ایک گھر کا دروازہ بالکل آخر میں سامنے کے رخ پر تھا۔
اس 'پتلی گلی' کا داخلی راستہ بالکل ایسا تھا کہ جس پر باآسانی دروازہ نصب کیا جاسکتا تھا۔ اس گلی کا نام 'چھتہ جنت' تھا۔ ایک ٹِین کی پٹی پر انگریزی میں ابھرا ہوا یہ نام اس گلی کی 'پیشانی' پر کیلوں سے ٹُھکا ہوا بھی تھا۔ یہ دراصل ہماری امّی اور ابّو دونوں کی نانی کے اسم گرامی 'جنت بی' سے منسوب ہے اور 'چھتہ' لفظ شاید ہمارے بزرگ پرانی دلی سے لائے تھے کہ وہاں ایسی پتلی، مگر چَھتی ہوئی گلی کو 'چھتہ' کہا جاتا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ کبھی یہ گلی بھی چَھتی ہوئی رہی ہو، یا ممکن ہے چَھتنے سے رہ گئی ہو، نام بہرحال اس کا 'چھتہ جنت' یا 'جنت کا چھتہ' ہی پڑا، بلکہ محلے بھر میں یہ خوب مشہور بھی ہوا۔ اس کی وجہ شہرت اس کے ساتھ والا پُراسرار خالی مکان تھا اور کچھ لوگ اس گلی کے بجائے اس خالی بے نام گھر کو ہی 'چھتہ جنت' سمجھتے اور پکارتے تھے۔
یہ پُراسرار مکان دراصل 'چھتہ جنت' کے دائیں سمت کی دیوار کے پار کا ایک الگ گھر تھا، جس کا راستہ اس پتلی گلی سے نہیں، بلکہ گلی کے مرکزی راستے کے بالکل برابر میں سے تھا۔ اس گھر کی پُراسراریت ہمارے بچپن میں ہی کافی پرانا قصہ ہوچکی تھی۔ یہ بے آباد ایک منزلہ گھر کسی کھنڈر کا سا نقشہ پیش کرتا تھا۔ مشہور تھا کہ یہاں کوئی آپا روشن رہتی تھیں، پھر انہوں نے اپنا یہ گھر 'اوپر والوں' کے لیے چھوڑ دیا۔
مزید پڑھیے: جب ’بابو سلمیٰ‘ کشمیر آزاد کرانے چل پڑے
ہمارے ہاں کی بولی میں 'اوپر والوں' سے مراد اللہ کی غیر مرئی مخلوق لی جاتی تھی۔ اب یہاں 'نیک جنات' کا بسیرا ہے، جنہوں نے دراصل اپنے لیے یہ گھر مانگ لیا تھا اور جب مکین یہ گھر چھوڑ کر گئے تو بس پھر ان کے دن ہی پھر گئے۔ یہ سب انہی 'نیک جنات' کا انعام تھا۔
یہی نہیں بلکہ کبھی یہ گھر کھلتا بھی تھا، ہمیں بھی اپنے بچپن میں یہ ایک آدھ بار کھلا ہوا یاد پڑتا ہے۔ بتایا یہ جاتا کہ گھر کے اندر بارش یا کسی اور سبب پانی جمع ہوجاتا تھا، تو گھر کے سابق مکین جنریٹر وغیرہ لاکر باقاعدہ پانی صاف کرتے تھے کیونکہ انہیں 'وہ' کسی طرح یہ 'پیغام' دے دیا کرتے تھے کہ انہیں یہ پریشانی ہے۔
چھتہ جنت کو ہم اگر اپنے ابّو کی طرف سے کہیں تو 'نانی امّاں' اور امّی کی طرف سے پکاریں تو 'امّاں جی' کا پاکستان میں ابتدائی آشیانہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو یہاں واقع 5، 6 مکان سب 'نانی امّاں' کے 'ترکے' میں بٹ چکے تھے۔ ایک مکان کلکتے والی 'خالہ امّاں' کے حصے میں بھی آیا تھا اور جب جب وہ کلکتے سے کراچی آتیں، اسی 'چھتے' والے مکان میں ہی ٹھہرتی تھیں۔ لیکن یہ سب ہماری پیدائش سے پہلے کی باتیں ہیں۔
جب ہم نے ہوش سنبھالا تو 'چھتہ جنت' میں ہماری خالہ کا گھر واقع تھا۔ یہ چوتھی لائن تھی اور ہمارا گھر چھٹی لائن میں تھا۔ اب 'چھتہ جنت' سے واپس باہر نکلیں تو دائیں طرف ایک پتلی سی گلی تیسری لائن کو نکل رہی ہے، اور بائیں طرف خاصا چوڑا راستہ پانچویں لائن کو راستہ دے رہا ہے، چوتھی سے پانچویں لائن، بالکل 'U' کی شکل میں اور پانچویں لائن سے آپ آگے بڑھیے، تو چند قدم بعد وہ سیدھا راستہ آجاتا ہے، جو دائیں طرف گلی نمبر ایک تک اور بائیں طرف گلی نمبر 8 تک کی ایک طرح سے مرکزی گزرگاہ ہے، بس اسی گزرگاہ سے جب 6 نمبر گلی میں پہنچیں، تو دوسرا ہی گھر ہمارا آبائی مکان تھا۔
ہمارے گھر سے 'چھتہ جنت' سے گھر تک ایک منٹ کی مسافت میں گویا ہمارے بچپن کا سارا زمانہ پنہاں ہے، اور اسی وجہ سے ہمیں اب تک کسی جنت کی طرح ہی عزیز لگتا ہے۔ یہیں بچپن کے کتنے ساونوں میں بارش کے پانی میں ایک دوسرے پر چھینٹے اڑائے زندگی کے کتنے تیوہار انہی گلیوں کے درمیان یادگار بنے ہیں۔ ہفتے کے ہفتے نانی کے ہاں جاتے ہوئے ہم بچے آپس میں طے کرتے تھے کہ کیا کیا چیزیں لے کر جانی ہیں؟ اور اب کے چھٹی والے دن کہاں گھومنے جانا ہے؟
کبھی 3، 3 روپے والے رنگ برنگے چوزے لیے گئے، تو کبھی چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیوں کو شفاف شیشی میں لیے رکھا گیا تو کبھی ننھیال کی کسی دعوت یا شادی بیاہ کی تقریب میں جانے کے لیے تیار ہونا ہے، الغرض ہمارے اسکول، مدرسے اور ٹیوشن تک کے اکثر راستے یہیں سے ہوکر گزرتے تھے۔ 'چھتہ جنت' سے وابستہ ہماری یہ ساری یادیں ہماری خالہ کی یہاں رہائش کے سبب ہیں جو عملاً ہمارے لیے دوسرا گھر تھا۔ ہم وہاں اتنی کثرت سے پائے جاتے کہ لوگ سمجھتے کہ ہمارا گھر ہی وہی ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی جو اِک شہر تھا
ہماری خالہ کے سب سے چھوٹے بیٹے دانش ہم سے 2 سال بڑے ہیں، لیکن ہماری ساجھے داری اتنی رہی تھی کہ ہم بچپن میں لوگوں کو اپنا نام بھی 'دانش' بتایا کرتے تھے۔ اب پتا نہیں اس کا سبب اپنا نام لینے میں دشواری تھی یا دانش نام سے لگاؤ ہونا۔ ان کے بڑے بھائی کو ہم 'بھیّا' پکارتے تھے۔ 14 اگست کو جھنڈے یا جھنڈیاں منگوانی ہوں یا نئے کورس کے لیے اردو بازار سے کاپیاں، یہ کام بخوشی ہمارے 'بھیّا' ہی انجام دیتے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں 'چھتہ جنت' نامی یہ پتلی سی گلی ہماری یادوں کی نگری میں اتنی کشادہ ہے کہ اس میں ہماری پوری عمر سما سکتی ہے۔
اس 'بند گلی' سے ہماری یادوں کے اتنے راستے نکلتے ہیں کہ شاید ہی اور کہیں سے نکلتے ہوں۔ ہمیں تو اپنے گھر سے یہاں '2 قدم' کے راستے میں اپنی امّی کے ساتھ آنا بھی یاد ہے، اور اس روز کی پرچھائیں بھی ذہن میں موجود ہے کہ جب ہم پہلی بار اپنے گھر سے اکیلے خالہ کے ہاں آئے تھے اور بہت خوش ہوئے تھے۔ اور وہ دسویں روزے کی پُرسکون دوپہر بھی ہمیں نہیں بھول سکتی، جو ہمارے سامنے ایک کہرام میں بدل گئی تھی۔ تب ہمارے ہاں فون نہیں لگا تھا، برابر گھر کی دیوار کے پار سے پھپھو نے آواز دے کر بلایا تھا اور پھر امّی وہاں فون سن کر آئی تھیں۔ پتا چلا کہ ابّا (نانا) کا انتقال ہوگیا ہے۔
امّی چھوٹے بھائی کو پھپھو کے سپرد کرکے خالہ کے ہاں گئی تھیں، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ 'باؤ جی کا انتقال ہوگیا!' یہ خبر سنتے ہی خالہ زار و قطار رونے لگی تھیں۔ تب مجھے اتنی سمجھ نہ تھی کہ ہمارا ننھیال یتیم ہوگیا ہے۔ 'ابّا' ہمیشہ کے لیے اللہ میاں کے ہاں چلے گئے، بس ایسی کوئی بات سمجھی تھی، لیکن اس روز ہم بچوں کو رشتے کے ایک ماموں کے گھر پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ 'وہاں بچے نہیں جاتے'۔ ہم لوگ پھر اگلے روز گئے تھے، جب سب کو چپ چاپ سپارے پڑھتے ہوئے دیکھا، اس منظر کا ہمارے ذہن پر اتنا اثر ہوا کہ اس کے کچھ دن بعد ایک رشتے دار نے جب نیا گھر لیا اور وہاں قرآن خوانی کروائی تو سپارے پڑھتے لوگ دیکھ کر ہمارے دل میں وہم آ نے لگے کہ کہیں یہاں بھی کسی کا انتقال تو نہیں ہوگیا، لیکن اس بات کی نزاکت کا احساس تھا، اس لیے یہ بات پوچھنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
ہم ذکر کر رہے تھے کہ گھر سے 'چھتہ جنت' کے اس راستے کا، جس کی دھول میں گویا ہماری بے فکری اور کم سَنی دفن ہے۔ کبھی ہم اپنی انگنائی میں چلائی جانے والی 3 پہیوں کی سائیکل گھر سے باہر لائے، تو اسی راستے پر ہی دوڑائی۔ ہماری فرصت میں یہی ایک سرگرمی تھی، ذرا اسکول کا کام نمٹا، پڑھائی سے فرصت ہوئی یا چھٹی کا دن ہوا، ہم یہاں نکل آئے۔
یہیں ایک بار محلے کی ایک پالتو کتیا سے خوفزدہ ہوکر ہم دوڑے تھے، زندگی میں پہلی بار جان پر بن آئی تھی، کہ کہیں کاٹ واٹ نہ لے۔ ہوا یوں کہ ہم نے گزرتے ہوئے یوں ہی کتیا کو پچکار دیا، وہ اٹھ کر ہماری طرف بڑھی، تو ہم نے خوفزدہ ہوکر دوڑ لگا دی۔ وہ تو بھلا ہو 'چھتہ جنت' کے باہر بنے ہوئے ایک چھوٹے سے دفتر میں موجود لڑکے اختر کا، جو ہماری چیخ و پکار سن کر فوراً باہر نکلا اور اس نے کتیا کو بھگا دیا۔ ہم نے دوڑ کر خالہ کے ہاں پناہ لی، خوف سے اعصاب بے قابو تھے اور سانس بُری طرح پھول رہا تھا یہ ہمارے بچپن کا ایک بہت خوفناک واقعہ ہے۔
'چھتہ جنت' کے مکین ایک دوسرے کے کام آنے والے تھے۔ شام ڈھلے بچے ایک دوسرے کے ہاں آتے چلے جاتے، گویا پرانے وقتوں کی ہم سائیگی کا خاصا خیال تھا۔ گھروں کے باہر کچرے کے واسطے 'ہودی' بھی بنی ہوئی تھی، پہلے یہاں نا ہموار اور اونچی نیچی گلی میں اکثر کا پانی بھر آتا تھا، اس لیے گزرنے کے واسطے اینٹیں اور بڑے پتھر رکھے ہوئے ہوتے تھے۔
پھر یہ ہوا کہ خالہ کے گھر میں 'مدد' لگی (یعنی راج مزدوروں کا کام ہوا) تو ایک سیمنٹ کی تہہ بچھا کر اس گلی کو ایک دم سیدھا کردیا گیا تھا۔ پھر اکثر ایسا ہوتا کہ ہم، دانش کے ساتھ گیند بلّا لیے اسی پتلی سی گلی میں کھیلتے رہتے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہماری بیٹنگ کبھی نہیں آتی تھی، یا شاید ہم بھی بس باؤلنگ کرانے میں ہی خوش رہتے تھے۔ جمعے کی چھٹی کے دنوں میں شام کا اکثر وقت اس پتلی سی گلی میں گیند کے پیچھے دوڑتے ہوئے گزرتا تھا۔
شمال سے جنوب میں پھیلی ہوئی یہ 4 نمبر گلی کوئی 240 میٹر کے بعد 'بابو ہوٹل' پر ختم ہوتی تھی، جہاں میں کبھی رات کو خالہ زاد بھائی دانش کی چھوٹی سی 2 پہیوں کی سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر خالو کے ساتھ روٹیاں لینے جاتا تھا۔ 'چھتہ جنت' سے باہر نکلتے تو سامنے والے حصے میں 'رحیم بابا' کا گھر تھا، جو زیادہ تر اکیلے رہتے تھے، اکثر شام کو وہ کام پر سے لوٹ کر ریڈیو پاکستان سن رہے ہوتے تھے جس میں کبھی عصر کی اذان تو کبھی اور کچھ آرہا ہوتا تھا۔
شام کی ان کی مصروفیت میں ایک لازمی سرگرمی پانی کا پائپ لے کر باہر چھڑکاؤ کرنا ہوتا تھا۔ جیسے ہی دن کے سائے بڑھتے، وہ تہ بند باندھے پانی کا پائپ لیے نکلتے اور پوری گلی میں تیز پچکاری سے دُور تک پانی کا چھڑکاؤ کرتے جس سے سارے دن کی تپش زدہ زمین سے گرم گرم بھپارے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے۔
یہیں 'چھتہ جنت' کی گلی کے باہر ہم نے دانش کے ساتھ مل کر ایک کپڑا بچھا کر گھر کے پرانے رسالوں کی 'دکان' بھی سجائی، تو کبھی گھروں کے باہر لکھے ہوئے مردم شماری یا اور کسی سروے کے درج نمبر اپنی کاپی میں لکھے۔ اس زمانے میں 'م ش' کرکے ایک نمبروں کا سلسلہ تھا، جبکہ ایک سلسلہ ' کے ای' تھا، اب نہیں معلوم یہ اس وقت کی 'کے ای ایس سی' کی جانب سے لکھا گیا تھا یا کوئی اور حساب کتاب تھا۔
ہمارا یہ شغل تھا کہ اردگرد کے گھروں کے باہر سیاہ رنگ سے درج یہ نمبر اپنی کاپی میں لکھتے۔ دوپہر میں ہمارا یہ شغل برائے شغل ہوتا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں شہر ناپُرساں کراچی کی کتنی خوں آشام ہڑتالیں ہم نے یہیں گھومتے پھرتے گزاریں، 'پہیا جام' ہڑتال کا سن کر ہم اس روز گلی میں اپنے کھلونے کے ایک چھوٹے سے پہیے کو لڑھکا کر کہتے کہ لو ہم نے تو پہیا چلا دیا۔
مزید پڑھیے: جب گائے کا رسی چھڑا لینا ہی بہت بڑی 'تفریح' ہوتا تھا
یہاں کی ایک اور خاص بات یہاں کی گلہریاں تھیں، جو اکثر دیواروں اور عمارتوں پر ڈولتی دکھائی دیتیں، دن میں ان کی آوازیں خوب گونجتی رہتیں، اور کبھی کچھ بلیاں اس گھر کی دیواریں پھیلانگ کر آتی جاتی دکھائی دیتی تھیں۔ رات ہوتے ہی یہاں چمگادڑیں ماحول میں خاصی پُراسراریت بھر دیتی تھیں، یوں معلوم ہوتا کہ ابھی ہم سے ٹکرا جائیں گی۔
اگرچہ 'چھتہ جنت' کے ساتھ نصب بجلی کے ایک کھمبے پر ہمیشہ زرد روشنی والا بلب روشن رہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ماحول میں روشنی کچھ کم کم ہی دکھائی دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت بچے ادھر سے گزرتے ہوئے خوفزدہ رہتے، لیکن ہمارے لیے کبھی رات کے وقت بھی یہاں آنا خوف کا باعث نہیں رہا۔ ہر چند کہ سناٹا بھی ہوتا تھا، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہمیں ڈر لگا ہو، جبکہ محلے کے دیگر بچوں کا تو رات کے وقت یہاں آتے ہوئے جیسے سانس ہی رکنے لگتا تھا۔ وہ حیرت کرتے تھے کہ تم رات میں کیسے وہاں چھتہ جنت والی پتلی گلی میں گھومتے رہتے ہو۔
جلد ہی ہماری خالہ نے یہاں سے گھر چھوڑ دیا اور اس کے 2 برس بعد ہم بھی ان گلیوں سے منتقل ہوگئے، لیکن اس جگہ سے لگاؤ برقرار رہا۔ بہت عرصے تک 'چھتہ جنت' کے مکانات یونہی خالی پڑے رہے، پھر کچھ عرصے قبل وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ابتدائی 3 مکانات مسمار ہو چکے ہیں، ہماری خالہ والا گھر اور اس کے بعد والا سامنے کے رخ کا مکان اپنی جگہ پر موجود ہے۔ تاہم 'چھتہ جنت' کا برابر والا پُراسرار گھر آج بھی قائم ہے، یہ مکان عین گلی کے سامنے کے رخ پر ہے، یعنی اس کے سامنے پوری گلی ہے۔
اس حساب سے اس کی قدر و قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ سامنے کی سمت پر کوئی تعمیرات ہونا ممکن نہیں۔ ہر چند کہ اب اس مکان کے اردگرد اونچی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں، لیکن یہ گھر اب بھی جوں کا توں ہی ہے۔ اس میں اگنے والے خودرو پیڑ نے اس کی پُراسراریت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
پہلے کی نسبت گنجانی ہونے کے باوجود دوپہر کے وقت اب بھی یہاں سوفتہ اتنا ہوتا ہے کہ کانوں میں ہوا سرسراتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہاں کے سارے پرانے مکین کوچ کرچکے ہیں، فلیٹوں میں بیشتر نئے لوگ بسیرا کیے ہوئے ہیں، سب کچھ بدل چکا ہے، شاید گلی کے نئے مکین اس گھر کے غیر آباد رہنے کے سبب سے بھی ٹھیک طرح واقف نہ ہوں، لیکن اس مکان کی بوسیدہ دیواریں اور زنگ آلود دروازہ آج بھی گئے وقتوں کی بازگشت سناتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔