• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟

شائع November 13, 2020

گلگت شہر کے مرکز میں کھڑے ہوکر شہر کی طرف نظر دوڑائیں تو ہر طرف رنگ برنگے پارٹی پرچموں کی بہار نظر آتی ہے۔ بازار سے گزرتے ہوئے کہیں ’جئے بھٹو‘ کا نعرہ لگانے والے نوجوان آپ کے پاس سے گزریں گے تو ایک طرف ’ووٹ کو عزت دو‘ والے کہیں نہ کہیں آپ کو اپنی کارکردگی کے بارے میں بتاتے ہوئے نظر آئیں گے، اور تھوڑا آگے نکلیں تو ’اب کی بار انصاف سرکار‘ کی آواز آپ کو سنائی دے گی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ سب یہاں کا ہرگز معمول نہیں ہے۔

گلگت ہو یا ہنزہ، دیامر ہو یا اسکردو، جہاں بھی جائیں ایک ہی بات ہوگی اور ایک سوال گونجے گا کہ گلگت بلتستان میں اگلی حکومت کون بنائے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ گلگت بلتستان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔

دستیاب معلومات کے مطابق ثقافت اور قدرتی حُسن سے مالامال گلگت بلتستان تاریخی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن سنہ 1948ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیرِ کنٹرول آگیا۔

تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ لیکن اپنی رنگینیوں کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔

اس کی سرحدیں چین، انڈیا اور تاجکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے 2 ملک ایٹمی طاقت ہیں۔

گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔

پہلے یہاں پر ’اسٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافد تھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا، لیکن 70 کی دہائی میں سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اسے ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کرکے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ہی ضم کر لے۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے 24 حلقوں میں انتخابات ہوں گے، اور ہر حلقے سے ایک رکن کا انتخاب کیا جائے گا۔ یہاں کی قانون ساز اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 33 ہے جس میں 3 ٹیکنوکریٹس، جبکہ 6 خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ گلگت بلتستان میں 24 انتخابی حلقوں میں رجسٹر ووٹرز کی کل تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہیں، جس میں 3 لاکھ 39 ہزار 992 خواتین ووٹرز بھی شامل ہیں۔

15 نومبر کو عوام کے ووٹوں سے گلگت بلتستان میں نئی حکومت آئے گی لیکن پچھلے 2 ماہ سے چلنے والی دھواں دار انتخابی مہم کے نتیجے میں عوامی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی پہلے نمبر پر نظر آتی ہے۔

ایک ماہ ہونے کو ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا قیام یہاں ہے۔ گلگت بلتستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں بلاول نہ گئے ہوں۔ گلگت بلتستان کے دشوار راستے ہیں، سفر کٹھن ہے، انٹرنیٹ چیونٹی کی رفتار سے چلتا ہے مگر اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی نے جاندار انتخابی مہم چلائی ہے۔ سابق گورنر گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ، مصطفی نواز کھوکھر اور پارٹی کے نمایاں رہنماؤں کے ساتھ بلاول بھٹو کے قیام نے ہلچل مچادی ہے۔

گلگت بلتستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں بلاول نہ گئے ہوں
گلگت بلتستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں بلاول نہ گئے ہوں

گلگت بلتستان میں آخری حکومت مسلم لیگ (ن) کی تھی، مگر اس انتخابات سے پہلے ہی الیکٹیبلز نے اپنی راہیں (ن) لیگ سے جدا کرلیں، حتیٰ کے کابینہ کا حصہ رہنے والے وزرا بھی وفا نہ کرسکے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیرِ اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سمیت پارٹی کی دیگر مقامی قیادت یہاں بہت بڑی کامیابی کی امید نہیں رکھتی ہے۔

اگرچہ مریم نواز کی طوفانی انتخابی مہم نے (ن) لیگ کے کارکن کو چارج تو کردیا ہے اور وہ جہاں بھی گئیں بھرپور استقبال بھی کیا گیا، مگر اس جماعت کی قیادت خود بھی جانتی ہے ان انتخابات میں ان کا نمبر تیسرا ہے اور (ن) لیگ کے مقامی رہنما 3 سے 5 نشستوں پر اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہیں۔

بڑے جلسوں کے باوجود (ن) لیگ کی قیادت جانتی ہے کہ اس کا نمبر تیسرا ہے
بڑے جلسوں کے باوجود (ن) لیگ کی قیادت جانتی ہے کہ اس کا نمبر تیسرا ہے

گلگت بلتستان کے یومِ آزادی کی تقریب میں وزیرِ اعظم عمران خان کے آنے اور سیاسی تقریر کرنے کو حفیظ الرحمن انتخابات سے پہلے دھاندلی کا نام دیتے ہیں اور اس عمل کے خلاف انہوں نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج بھی کیا تھا۔

خود مجھے بھی اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اس جلسے میں انہوں نے جو تقریر کی اس میں وہ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر خاص طور پر کرتے رہے، ساتھ انہوں نے جو بڑا اعلان کیا وہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے متعلق تھا۔

وزیرِاعظم نے اس تقریر میں یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ اپوزیشن کی جانب سے موجودہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مخالفت دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے ان دونوں عہدوں پر درست انتخاب کیا ہے۔ اس تقریر کے اختتامی الفاظ یہ تھے ’اب دیکھتے ہیں کس کی ٹانگیں کانپتی ہیں اور کس کے ماتھے پر پسینہ آتا ہے‘۔

گلگت بلتستان کے نگران وزیرِ اعلی میر افضل خان جو ڈی آئی جی پولیس رہ چکے ہیں، ان کے ساتھ ایک طویل نشست کا موقع ملا۔ اس ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وزیرِاعظم کو انہوں نے مدعو کیا تھا مگر جب وزیرِاعظم یہاں پہنچے تو سیکیورٹی نے ان کو بھی آگے جانے سے روک دیا۔ وہ تو بھلا ہو گورنر کے پروٹوکول آفیسر کا، جن کی نظر ان پر پڑگئی اور اس نے وزیرِاعلی کو اسٹیج تک پہنچایا۔

ہم نے میر افضل خان سے سوال پوچھا کہ چونکہ آپ کی کابینہ کے افراد کو اسٹیج پر نشست نہیں ملی، تو کیا اس لیے وہ اس تقریب سے ناراض ہوکر چلے گئے؟ تو سابق وزیرِ اعلی اس حد تک صاف گو نکلے اور کہنے لگے کہ انہوں نے تو پہلے ہی اپنی کابینہ کو کہا تھا اس تقریب میں آنے کی ضرورت نہیں، اور اگر پروٹوکول نہ ملا تو ناراض نہ ہونا۔

وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور اور چیف آرگنائزر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سیف اللہ نیازی یہاں جوڑتوڑ میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف کے انتخابی جلسے یہی کر رہے ہیں۔ یہاں عوام میں علی امین گنڈا پور کے حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

عوامی سطح پر اس بات کو ناپسند کیا گیا کہ جب تک انتخاب کا اعلان نہیں ہوا تھا تب تک تو وزیر صاحب نے گلگت بلتستان کی طرف دیکھنا پسند نہیں کیا، لیکن جب سے الیکشن سر پر آئے ہیں وہ لوگوں سے مل رہے ہیں۔

اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین، اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی سمیت کئی آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔

تحریک انصاف وفاق میں حکومت ہونے کی وجہ سے فائدے میں ہے، کیونکہ کشمیر ہو یا گلگت بلتستان، یہاں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی حکومت وفاق میں موجود ہو۔ (ن) لیگ سے پہلے پیپلز پارٹی گلگت بلتستان میں حکومت کر رہی تھی، مگر وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بعد جب یہاں انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کو بُری طرح سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

مقامی لوگ علی امین گنڈا پور سے زیادہ خوش نہیں ہیں
مقامی لوگ علی امین گنڈا پور سے زیادہ خوش نہیں ہیں

بڑی جماعتوں کے علاوہ یہاں چھوٹی جماعتیں بھی پُرامید نظر آرہی ہیں۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا کہ جماعت اسلامی کی مقامی قیادت کی جانب سے مجھے بتایا گیا اس مرتبہ آپ ہمیں گلگت بلتستان میں نمائندگی کرتے دیکھیں گے۔ یہ دعویٰ یقیناً میرے لیے سرپرائز تھا۔ اس کے علاوہ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت شہر کے حلقہ نمبر 2 میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ (ن) لیگ گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ الرحمن بھی اسی حلقے سے جیتنے کے لیے پُرامید ہیں۔

عوامی رائے دیکھیں تو لگتا ہے پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی، لیکن ٹھہریے! یہاں حکومت بنانے کے لیے صرف یہی کافی نہیں بلکہ کچھ دیگر عوامل بھی شامل ہوتے ہیں تب جاکر حکومت بنتی ہے۔

تحریک انصاف الیکٹیبلز، اتحادی پارٹی اور آزاد کامیاب امیدواروں کے ساتھ مل کر یہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

طاقتور حلقے کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ انتخابات پر اثر انداز ہورہے ہیں؟ یہ سوال سرینا ہوٹل کے ڈائننگ ٹیبل پر موجود ایک طاقتور شخصیت سے پوچھا گیا۔ جواب آیا کسی بھی پارٹی کے لوگوں سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مزید پوچھنے پر بتایا گیا کہ ہم صرف گلگت بلتستان کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں اور کوئی بھی پارٹی حکومت بنائے ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔

پھر ایک اور سوال پوچھا گیا کہ کون سی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی؟ جواب آیا پاکستان تحریک انصاف۔

موقع سے فائدہ اٹھایا اور یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا پیپلز پارٹی کو گرین سگنل دے دیا گیا ہے کہ وہ یہاں حکومت بنائے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اپنا کردار ادا نہ کرے؟

’بالکل نہیں ایسی کوئی ڈیل نہیں ہورہی‘۔

کیا انتخابات میں کہیں اسٹیبلشمنٹ اثر انداز ہورہی ہے؟ یہ سوال میں نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقامی اہم رہنماؤں سے پوچھا تو جواب ملا ’نہیں ان کا کوئی خاص عمل دخل نہیں‘۔ یہ میرے لیے خوشگوار خبر تھی۔

ویسے قمر زمان کائرہ پیش گوئی کرچکے ہیں کہ گلگت بلتستان کا وزیرِ اعلی جیالا ہوگا، مگر پاکستان پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا مقابلہ اس سوچ سے ہے کہ گلگت بلتستان میں اسی کی حکومت آتی ہے جس کی مرکز میں پہلے سے حکومت موجود ہو۔ اب اس سوچ کا مقاملہ ہوسکے گا یا نہیں، یہ اگلے 2 دن میں واضح ہوجائے گا۔

فرخ شہباز وڑائچ

لکھاری صحافی ہیں اور مختلف اداروں میں اپنی ذمہ داریان انجام دے چکے ہیں۔ اس وقت ڈیجیٹل رپورٹنگ کے شعبے سے وابست ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

toqeer sajid kharal Nov 14, 2020 11:13am
بہت ہی مدلل اور شاندار تجزیہ
Khan Nov 14, 2020 07:43pm
great article

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024