نیپرا کا واپڈا کے قرضوں پر سود کی ادائیگی سے انکار
اسلام آباد: جمعرات کو دو اہم پیشرفت سامنے آئی ہیں، جن میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پن بجلی کے نرخوں پر واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں سے انکار کردیا جبکہ حکومت نے صلاحیت کی ادائیگی کو کم کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر واپڈا ایکویٹی پر ریٹرن کو 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح پاور ریگولیٹر نے رواں مالی سال کے لیے واپڈا کے ذریعے طلب کردہ پن بجلی کے نرخوں میں 1.65 روپے فی یونٹ اضافے کو محفوظ کیا ہے، چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے صوبوں کو نیٹ ہائیڈل منافع (این ایچ پی) کی ادائیگی کے لیے حاصل کردہ اتھارٹی کے قرضوں پر 11 ارب روپے کے سود کی اجازت دینے کے لیے واپڈا کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس جرم میں آپ کے شراکت دار نہیں بن سکتے۔
مزید پڑھیں: ڈسکوز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 48 پیسے فی یونٹ کا اضافہ
چیئرمین نیپرا کی زیر صدارت عوامی سماعت کے دوران واپڈا انتظامیہ نے نظرثانی شدہ تخمینے کی بنیاد پر اس کی اصل قیمت 1.65 روپے فی یونٹ اضافے کے بجائے نرخوں میں 93 پیسے فی یونٹ اضافے کی مانگ کو کم کردیا۔
توصیف فاروقی نے کہا کہ واپڈا درخواست کے بارے میں فیصلہ اعداد و شمار کے تفصیلی معائنے کے بعد کیا جائے گا اور ریگولیٹر ٹیرف میں اضافے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرے گا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صوبوں کو منافع کی ادائیگی کے لیے واپڈا کے قرضوں پر سود کو ٹیرف میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ واپڈا بینک قرض کے ذریعے صوبوں کو این ایچ پی کی ادائیگی کررہا ہے، انہوں نے کہا کہ کس طرح کا مالی طریقہ کار قرض لینے کے ذریعے منافع کی ادائیگی کی اجازت دیتا ہے اور پھر اس کے سود پر این ایچ پی کے علاوہ صارفین کو بھی پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ان قرضوں کی ادائیگی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریگولیٹر، صارفین سے ان قرضوں پر 11 ارب روپے سود لینے کی اجازت نہیں دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا صنعتوں کے لیے بجلی کی ’پیک آور‘ قیمت ختم کرنے کا اعلان
توصیف فاروقی نے کہا کہ واپڈا کو بجٹ یا کسی اور طریقہ کار کے ذریعے قرض دینے کی لاگت کو محفوظ بنانے کے لیے فنانس ڈویژن کے پاس معاملہ اٹھایا جانا چاہیے لیکن ہم اس جرم میں آپ کے شرکت دار نہیں بن سکتے۔
واپڈا کی ایک ٹیم نے عوامی سماعت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے 2015 میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین ایک باضابطہ معاہدے کے تحت خیبر پختونخوا کو خالص ہائیڈل منافع کی مد میں فی یونٹ 1۔10 روپے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا، اسی طرح کے انتظام بعد میں دوسروں تک بھی توسیع دی گئی، اس معاہدے میں این ایچ پی کی شرح میں 5فیصد سالانہ اضافے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا جو ممکن نہ ہو سکا۔
ٹیم نے کہا کہ واپڈا کا موجودہ ٹیرف 5.67 روپے فی یونٹ ہے، اگست میں دائر کی جانے والی ٹیرف پٹیشن میں فی یونٹ 1.65 روپے اضافے سے 7.32 روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم استعداد کے چارجز کم کرنے کی حکومتی کوششوں کے تحت ہونے والے فیصلوں کے تحت نرخوں میں 93 پیسے فی یونٹ کے لحاظ سے 6.60 روپے فی یونٹ تک کی اجازت دی جانی چاہیے، این ایچ پی اور پانی کے استعمال کے معاوضوں کے سبب مطلوبہ اضافہ ضروری تھا۔
واپڈا حکام کے مطابق اتھارٹی کے پاس 8 ہزار میگاواٹ صلاحیت کے حامل بجلی گھر ہیں جبکہ 9 ہزار میگاواٹ کے اضافی پلانٹ زیر تعمیر ہیں۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا پیسکو میں بلنگ کی ذمہ داری بیرونی ادارے کو دینے کا فیصلہ
واپڈا نے اپنی ٹیرف پٹیشن میں کہا کہ وہ پن بجلی کے مختلف منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کی آمدنی کی ضروریات 18-2017 میں 71.349 ارب روپے طے کی گئیں جو 21-2020 میں بڑھ کر 177.518 ارب روپے ہوگئیں جس میں 106.169 ارب روپے کا اضافہ دکھایا گیا ہے۔
اس میں آپریٹنگ اور مینٹیننس لاگت کا تخمینہ 21-2020 میں 19.724 ارب روپے، تخفیفی لاگت 7.728 ارب روپے، سکوک بانڈز کی ادائیگی 1.69 ارب روپے، بجلی گھروں پر سرمایہ کاری پر 37.11 ارب روپے، بجلی کے منصوبوں سے ریٹرن پر 32.085 ارب روپے اور دیگر آمدنی 69 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے جس سے مجموعی طور پر ریگولیٹری آمدن کا فرق 68.8 ارب روپے ہے۔