ایک قفس جیسے گاؤں کی درد بھری کتھا!
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
یہ زمین جو ہمارا مسکن ہے یہاں مسکراہٹ کی فصل بہت ہی کم اُگتی ہے۔ اگر اُگ بھی جائے تو زمانے کی گرم ہوائیں اسے زیادہ جینے نہیں دیتیں۔ بالکل ایسے جیسے یاسمین کے پھول کے مرجھانے کا سفر اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ مکمل کِھل چکا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس دکھوں کی فصلیں ہر جگہ اُگ جاتی ہیں کہ دکھوں کے بیج نہیں ہوتے، بس وہ اُگ پڑتے ہیں۔ زمانے کی تکالیف اور آنکھوں سے بہتا نمکین پانی ان کے لیے زرخیزی کا باعث ہوتا ہے اور درد کی یہ فصلیں کاٹتے کاٹتے لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔
’اس برس جتنی شدید گرمی پڑی، اتنی ہی شدید بارش بھی ہوئی، اور ان بارشوں نے ہمیں برباد کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی‘، یہ بات محمد ہاشم نے مجھ سے کہی جو مجھے ان ہزاروں خاندانوں میں سے چند خاندانوں سے ملوانے جا رہا تھا جو اپنے آنگن چھوڑ کر میلوں دُور جاکر بسے تھے۔ وہ آنگن جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور چٹکتی چاندنی اور جاڑوں کی ٹھنڈی شاموں میں دوڑتے، بھاگتے، کھیلتے بڑے ہوئے تھے، جن آنگنوں سے ان کے اپنے پیاروں کے جنازے اٹھے تھے۔
قرۃ العین حیدر سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کی نظر میں اس جہان میں سب سے زیادہ مقدس جگہ کونسی ہے؟ تو جواب ملا کہ ’اپنے گھر کا آنگن کہ جہاں ہم جنم لیتے ہیں‘۔
ہم ان خاندانوں سے ملنے جا رہے تھے جن کو روٹھی ہوئی فطرت نے ان کے آنگنوں سے دھکیل دیا تھا۔
سندھ کا ڈیلٹائی خطہ کسی زمانے میں 17 شاندار نہروں پر مشتمل تھا۔ ان نہروں کے ذریعے 150 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا تھا۔ میٹھے پانی اور سمندر نے مل کر ڈیلٹا کی زمین کو بُنا، وسعت بخشی اور ساتھ میں حیات کی رنگا رنگی بھی دیکھنے کو ملی کیونکہ سب سے زیادہ جھیلیں اسی 9 لاکھ 66 ہزار 752 ہیکٹر میں پھیلی ڈیلٹا کی اراضی میں تھیں۔
مزید پڑھیے: ایک تھا چنیسر: کہ جس کا جیون دُکھ ہی دُکھ ہے۔۔۔!
یہ سب ڈیم اور بیراج بننے سے پہلے کے حقائق ہیں۔ اب تو یہ شاید 6 ہزار ایکڑ سے بھی کم سکڑ کر رہ گئی ہے، اور ساتھ میں انسان کی من مانی اور ترقی کی وجہ سے ’ماحولیاتی تبدیلیوں‘ کا قہر بھی اس کے شاملِ حال ہے۔
انڈس کوسٹ 320 کلومیٹر کی اراضی میں پھیلی ہوئی ہے۔ چونکہ اب کوٹری سے نیچے دریائے سندھ کا بہاؤ نہ ہونے کے برابر ہے تو سمندر آگے روندتا ہوا بڑھ رہا ہے، اور ہر سال لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے سب سے زیادہ نقل مکانی اسی ساحلی بیلٹ سے ہو رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نقل مکانی میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اکتوبر کی ابتدا تھی اور راستے کے دونوں اطراف دھان کی فصلیں تیز ہرا رنگ اوڑھے ہوئے تھیں۔ اکتوبر کے دنوں سے ہوا کے جھونکے بالکل ایسے روٹھ جاتے ہیں جیسے چھوٹا بچہ جلدی روٹی نہ ملنے پر ماں سے روٹھ جاتا ہے۔ رات کو پڑی ہوئی اوس ابھی تک دھان کی فصل پر ایک نیلی تہہ کی صورت میں موجود تھی۔ کچھ زمینوں سے دھان کی فصل کٹ چکی تھی تو وہاں موجود بکریاں اور بھیڑیں گھاس کم چرتی تھیں اور راستے سے آتی جاتی گاڑیوں کو زیادہ دیکھتی تھیں۔
ہم جب گولاڑچی شہر سے کراچی جانے والے راستے پر، چار، پانچ کلومیٹر کا سفر طے کرچکے تو محمد ہاشم نے راستے کے مشرق میں نکلتے ہوئے ایک کچے راستے پر چلنے کا اشارہ کیا۔ پگڈنڈی جیسے اس راستے کے دونوں اطراف دھان کی شاندار فصلیں تھیں۔ ایک کلومیٹر کے بعد وہ گاؤں تھا جس میں گاؤں جیسی کوئی نشانی نہیں تھی۔ نہ کوئی کانٹے دار جھاڑیوں سے بنا ویہڑا تھا اور نہ اس ترتیب سے گھر بنے ہوئے تھے، جیسے گاؤں میں ہوتے ہیں۔
مجھے یہ 40، 50 چھپرے ایک بازار جیسے لگے، کیونکہ ان گھاس پھوس کی بنی جھونپڑیوں کے شمال میں وہ دھان کی فصلوں کے کھیت تھے جن کے بیچ سے گزرتے ہم یہاں پہنچے تھے اور جنوب میں، مشرق سے مغرب کی طرف ایک نہر بہتی ہے۔ اب نہر اور فصلوں کے بیچ میں 50 سے 60 فٹ کی زمینی بچی ہے جہاں یہ اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔ جہاں ایک مقرر کردہ فریم میں زندگی گزارنی پڑجائے تو آپ اسے کسی بھی حالت میں گاؤں نہیں کہہ سکتے۔
ہاں البتہ قفس کہیں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا، کیونکہ قفس کے لیے پنجرہ کہاں ضروری ہوتا ہے؟ قفس تو کچھ مقرر کردہ لکیروں کا نام ہوتا ہے اور وہ کہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ زمین پر، ذہن میں اور خون کے اس بہاؤ میں جس میں ارتقائی انسان کی وحشت ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔
’یہاں کب سے ہیں؟‘
’5 برس ہوگئے پکے‘، محمد آچار نے میرے سوال کے جواب میں کہا۔
’کیسی گزر رہی ہے؟‘
میرے سوال پر اس نے کچھ پل سوچا، آنکھوں کو میچا اور کہا ’بس گزر رہی ہے‘۔
’پہلے جہاں رہتے تھے، وہاں کے حالات یہاں سے بھی خراب تھے کیا؟‘
’ہم محنت مزدوری کرنے والوں کے حالات کہیں بھی اچھے نہیں ہوتے، مگر وہاں ہم روپاماڑی میں ٹھیک تھے۔ (روپاماڑی ایک تاریخی مقام ہے، جس سے سندھی زبان کی پہلی رزمیہ داستان ’دودو چنیسر‘ وابستہ ہے، وہاں دودو چنیسر کا مقبرہ اور قبر بھی ہے)۔ وہاں مچھلی کی بڑی فراوانی تھی تو ہمیں کبھی زمین میں ہل چلانے کی ضرورت نہیں پڑی، اور وہاں ہماری زمینیں بھی نہیں تھیں۔ میٹھے پانی کی بہت جھیلیں تھیں جہاں سے ہمیں مچھلی کے علاوہ گھر بنانے کے لیے پھوس، سرکنڈے اور دوسری گھاس بڑی مقدار میں مل جاتی تھی، کناروں پر سروٹ کی گھاس ملتی تھی جس سے رسیاں بنا لیتے تھے۔ جھیل سے بچوں کے لیے پانی میں اُگے ہوئے بہت سارے میوے بھی مل جاتے تھے۔ پھوس کے پیلے پاؤڈر سے بھاپ پر مٹھائی بنا لیتے۔ سردیوں کے موسم میں دُور سے آئے ہوئے پرندوں کا شکار کرتے تھے۔ ان سے خوراک بھی ملتی اور بیچ کر پیسے بھی کما لیتے۔ سمندر بھی نزدیک تھا تو جھینگے اور دوسری سمندری مچھلیاں بھی پکڑ لیتے۔ اس طرح گزر بسر اچھا ہوجاتا تھا۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آئی۔‘
آچار سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔ یہ سب بتاتے ہوئے اسے اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ چہرہ انسان کی کسی کیفیت کو نہیں چھپاتا۔ جس طرح جب دل کے اندر درد کے قبرستان میں کسی نئے درد کی قبر بنتی ہے تو آنکھوں سے نمکین پانی اس درد کی کیفیت کو عیاں کردیتا ہے۔
’کتنی جھیلیں تھیں ان دنوں؟‘
’دین سے ٹھٹہ، جاتی اور کیٹی بندر تک چھوٹی بڑی 70 سے 80جھیلیں تھیں۔ یہ 80ء-1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ سب ٹھیک تھا، پھر ایل بی او ڈی کا سیم نالہ اس طرف آگیا۔ اس نے سمندر کو یہاں کا راستہ دکھا دیا۔ بارشیں اگر زیادہ ہوتیں تو اس کے پشتوں میں شگاف پڑجاتے اور گاؤں کے گاؤں ڈوب جاتے اور ہم نہروں کے کنارے جاکر بس جاتے۔ یہ کیفیت بارش کے ان دنوں میں ہوتی جب بارشیں زیادہ پڑتی تھیں۔ مگر پھر ایک ڈیڑھ ماہ میں حالات بہتر ہوجاتے۔ زندگی اچھی کٹ رہی تھی۔‘
آچار نے بات ختم کرکے سگریٹ کو سلگا لیا۔ میں نے جب اس سے اس کے بچوں سے متعلق پوچھا تو جواب آیا ’5 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں۔ سب کی شادی کروا دی ہے، اب میں اور میری بیوی ہیں۔ ساتھ میں چھوٹا بیٹا شادی شدہ ہے وہ ہمارے ساتھ رہتا ہے‘۔
ایل بی او ڈی یعنی 'لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین' کا ذکر بھی سن لیں۔ یہ منصوبہ یہ کہہ کر شروع کیا گیا تھا کہ اس پراجیکٹ سے ساحلی پٹی کی زندگی تبدیل ہوجائے گی، یہاں کی ماحولیات اور فصلوں پر بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور یہاں کے مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش پر بھی انتہائی بہتر اثرات دیکھے جاسکیں گے۔ مگر اس کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس آیا۔ 2003ء اور 2011ء کی بارشوں نے تو کم نقصان پہنچایا مگر جو سیکڑوں شگاف اس ٹائڈل لنک کے بہاؤ میں پڑے، انہوں نے گاؤں کے گاؤں کو دیکھتے ہی دیکھتے ڈبو دیا۔
آچار کا سارا گاؤں جس میں کل ملاکر 40 کے قریب خاندان تھے، وہ 5 برس پہلے یہاں آئے تھے۔ وہ اپنے آنگن چھوڑ کر یہاں کیوں آئے تھے؟ اس سوال کے جواب میں وہ 3 باتوں کا ذکر کرتا ہے
’سائیکلون A-2 1999ء‘،
’سمندر کا آگے بڑھنا‘ اور
’میٹھے پانی کی کمی‘۔
ان میں سے پہلے 2 والے اسباب کا تعلق تو فطرت سے ہے، البتہ تیسرے کا ذمہ دار انسان ہے۔
پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے جو بربادی ہو رہی ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کا واحد سبب انسان کی لالچ اور نام نہاد ترقی ہے۔ اوزون لیئر کا کمزور ہونا، گرین ہاؤس گیسز کا بڑی مقدار میں اخراج ہونا، جنگلات کا بے تحاشہ کٹاؤ اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ پر ڈیمز کا بننا، یہ وہ اہم اسباب ہیں جن کی وجہ سے فطرت کے توازن میں بگاڑ آیا ہے۔
سورج کی گرمی میں شدت ساری دنیا میں گلیشیئروں کے پگھلنے کی وجہ بنی ہے، جس سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ سمندر کے اس کچھ ملی میٹر کے اضافہ کی وجہ سے ساری دنیا میں بہت سارے جزیرے یا تو ڈوب گئے ہیں یا ڈوبنے کو ہیں یا پھر سخت متاثر ہوئے ہیں۔ اس بربادی کو دیکھنے کے لیے ہمیں شاید کچھ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ ہم انڈس ڈیلٹا میں سیکڑوں جزیروں کو اس کیفیت میں کسی وقت بھی دیکھ سکتے ہیں۔
وہ 17 نہریں جن کے ذریعہ دریائے سندھ کا میٹھا پانی سمندر میں جاتا تھا اب ان میں سمندر کے کڑوے پانی کی ملاوٹ اپنا کھیل کھیلتی ہے۔ اس لیے سمندر کنارے جتنے بھی گاؤں تھے جہاں شاندار قسم کی دھان کی فصلیں ہوتی تھیں وہ پہلے سمندر کے پانی کے بڑھنے کی وجہ سے جزیرے بنے اور پھر دھیرے دھیرے انہیں سمندر نگل گیا۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا. سمندر کے کنارے بسنے والے ہزاروں خاندان گزشتہ 35 برس سے اس سمندر کے کڑوے پانی سے پریشان تھے۔ یہ پانی جون اور جولائی میں تیز مغربی اور جنوبی ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے اس ساحلی پٹی پر آجاتا تھا اور پھر اُتر جاتا تھا۔
مزید پڑھیے: کھیتوں اور باغوں کی زمین کھاروچھان، جسے سمندر بے دردی سے کھا گیا
مگر مئی 1999ء میں 36 گھنٹے چلنے والے سائیکلون A-2 نے اس ساحلی پٹی کو برباد کر کے رکھ دیا۔ سیکڑوں ماہی گیروں کو بے وقت کی موت نے مار ڈالا، ہزاروں چھوٹے بڑے درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے، لاکھوں جنگلی حیات کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ رات کو سمندر سے 6 سے 8 فٹ تک آنے والی بڑی لہر نے 8 کلومیٹر کی اراضی میں چھوٹی بڑی جھیلوں، زرخیز زمینوں اور آب پاشی کے نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ سمندر کی آئی ہوئی لہر تو لوٹ گئی مگر سندھ کی اس ساحلی پٹی کی زمینوں اور جھیلوں سے ان کی حیات چھین کر لے گئی۔
وہ لہر اتنے وسیع علاقے تک پہنچی تھی کہ جس کی بحالی ممکن نہیں تھی۔ تاہم آب پاشی کے نظام کو بحال کیا جاسکتا تھا مگر محکمہ آب پاشی نے یہ تکلیف گوارا نہیں کی۔ اس کی وجہ سے نہروں سے نکلنے والی پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں بالکل ختم ہوگئیں جو دُور دُور تک میٹھا پانی لے جاتی تھیں اور زمینوں کو سیراب کرتی تھیں۔ ساتھ میں ’نریڑی‘ اور ’جھبو‘ لگون، جن کو رامسر سائٹس کا اعزاز ملا ہوا تھا وہ بھی تحس نحس ہوگئیں۔ اگر آپ اس حوالہ سے اس ساحلی پٹی پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ علاقے کس طرح برباد ہوتے ہیں۔
میں اس قفس جیسے گاؤں کی مشرق کی طرف بنی ہوئی آخری گھاس پھوس کی جھونپڑی تک پہنچا تو دوپہر کی روٹی پکنے کا وقت ہوگیا تھا۔ گھر کے مختصر سے چھپرے کے نیچے مائی آمنت تھی اور ساتھ میں 2 اور عورتیں تھیں جو رلیاں سیتی تھیں۔
مائی آمنت کی عمر 50 برس سے اوپر نہیں ہوگی مگر شوہر کی وقت سے پہلے وفات، بیٹوں کے تلخ رویے، اپنے پرانے گھر چھوڑنے اور پیسے کی تنگی نے انہیں بلڈ پریشر اور شوگر کے عذاب سے دوچار کردیا تھا اور نظر تو کمزور ہونی ہی تھی سو وہ تھی۔ اتنی زندگی نہیں گزری تھی جتنی چہرے پر وقت نے لکیروں کی صورت میں اپنے نقش چھوڑے تھے۔ مگر پھر بھی وہ رلی سیتی تھی کیونکہ ہاتھ پھیلانے سے محنت کے لیے ہاتھ چلانا اچھا ہے۔
میں نے جب ان سے بات کی تو ان کے لہجے میں تلخی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جب زندگی آپ کی تمناؤں کی جھولی میں کنول کے پھول کی جگہ کیکر کی کانٹے دار جھاڑ ڈال دے، ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ہر تمنا کا انجام ایسا ہی ہو تو، لب و لہجے میں تلخی آہی جاتی ہے مگر مائی آمنت میرے سوال کا جواب دینے کے بعد ہلکا مسکرا دیتیں۔ زندگی کی تیز دھوپ دیکھنے کے بعد بھی شفقت ان کے چہرے پر پھولوں جیسے کھلتی تھی۔
اس وقت جب میں یہ سب تحریر کر رہا ہوں تو سوچتا ہوں کہ انسان آخر ہے کیا؟ کس مٹی سے گوندھا گیا ہے؟ اگر ہمت کے ہتھیار ڈال دے، زندگی کی جدوجہد کے میدان سے ڈر جائے اور بھاگنا چاہے تو ایک تپتی دوپہر اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ اگر بیزاری پر آئے تو اپنا گھر تک چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اگر وحشت کے جنگلوں کی راہ لے تو ذلتوں کی آخری سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اگر سہنے پر آئے تو زندگی کی ساری مصیبتوں، ذلتوں اور مشکلات کی گٹھڑیاں سر پر رکھ کر چلتا رہتا ہے۔ سب سہتا رہتا ہے اور مائی آمنت کی طرح شفیق بھی رہتا ہے اور مسکان اس کے چہرے پر یاسمین کے پھولوں کی طرح کھیلتی ہے۔
مزید پڑھیے: مائی بھاگی: جس کے بھاگ نہ جانے کیا ہوئے!
میں نے جب مائی آمنت سے اپنے پرانے گاؤں سے نقل مکانی کرکے یہاں آنے کا پوچھا تو کچھ پل کے لیے ہلکی مسکان جو ان کے چہرے کی اثاث تھی وہ چھپاک سے اڑ گئی۔ ان چند پلوں میں، مَیں نے آمنت کی بے بسی کو دیکھا۔ فطرت نے انسان کے روپ میں کیا تخلیق کردیا ہے؟ اگر کھڑا رہے تو پہاڑ، ٹوٹے تو ایک چُٹکی مٹی! لیکن چند پلوں کا کھیل تھا اور آمنت کے چہرے پر پھر وہی مسکان کی چڑیا آ بیٹھی۔
’مجھے میرا پچپن اچھی طرح یاد ہے۔ ہمارے علاقہ بہت اچھا تھا۔ مطلب پانی بھی تھا، جھیلیں بھی تھیں۔ اب تو میلے نہیں لگتے مگر ان زمانوں میں چھوٹے چھوٹے میلے بھی لگتے تھے۔ ہمارے گھر میں 2 گائیں تھیں۔ پھر میری شادی ہوگئی تو میاں بھی مچھلی کا شکار کرتا تھا۔ جاڑا آتا تو پرندوں کے لیے جال لگاتا اور پرندوں کو بیچ کر ہمارے پاس اچھی رقم آجاتی اور پھر گرمیاں آتیں تو جھیلوں سے مچھلی اور سمندر سے جھینگے پکڑنے کے لیے چلا جاتا۔ اپنی بیٹیوں کی شادیاں کروائیں۔ سب اچھا تھا، مگر پھر ایسا لگا کہ نظر لگ گئی ہمارے علاقے کو۔ جہاں میٹھے پانی کی بندی کے وقت ہم پینے کے پانی کے لیے کنویں کھودتے تھے اور میٹھا پانی نکلتا تھا وہاں کڑوا پانی نکلنے لگا۔ لوگوں نے کہا کہ سمندر نزدیک آگیا ہے جس کی وجہ سے میٹھے پانی کی جگہ کڑوا پانی آنے لگا ہے۔
'کبھی 4، 4 برس بارشیں نہیں ہوتیں، اگر ہوتیں تو بہت کم ہوتیں اور پانچویں برس آتیں تو جیسے آسمان کا چھپر پھٹ جاتا۔ ہمارے گاؤں ڈوب جاتے اور ہم کئی ماہ تک نہروں کے کناروں پر دن گزارتے۔ جب ہم چھوٹے تھے تب کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پھر بڑا طوفان (1999ء) آیا اس نے سب الٹ پلٹ کردیا۔ سمندر کے سوا ہمارے پاس روزگار کا اور ذریعہ نہیں بچا۔ مگر سمندر میں بھی پہلے جیسی نہ مچھلی رہی نہ جھینگے کا شکار رہا۔ مجبور ہوکر یہاں آگئے، نہیں تو ماں باپ کی ہڈیاں چھوڑ کر کون آتا ہے۔ یہاں بھی نزدیک جو وڈیروں کے گاؤں ہیں، وہ یہ رلیاں سینے کے لیے دیتے ہیں اور کبھی کبھار قدیمی سندھی لباس بنانے کے لیے بھی مل جاتا ہے۔ بس ہاتھ پھیلانے سے بچے ہوئے ہیں۔‘
بیماری کی صورت میں یہ لوگ نزدیک والے شہر گولاڑچی جاتے ہیں۔ قرب و جوار میں جو گاؤں ہیں وہ یا تو وڈیروں کے ہیں یا دوسری ذات والوں کے۔ تو اس چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے پر یہ 40 سے 50 خاندان زندگی گزارتے ہیں۔ آپ کہیں یا نہ کہیں میں تو اس کو قفس کہتا ہوں۔ کیونکہ جہاں آدمی آزادی سے کہیں آ جا نہ سکے وہ قفس ہی ہے۔ ہاں البتہ جب یہاں کسی کے سانس کی ڈوری ٹوٹتی ہے، تب قفس سے آزادی ملتی ہے۔ پھر اس ٹھنڈے وجود کو آج بھی وہ اپنے آبائی قبرستان روپاماڑی لے جاتے ہیں کیونکہ بچپن کی وہ پگڈنڈیاں جن کا اب وجود تک نہیں مگر وہ اب بھی ان کے روح میں بستی ہیں اور ان کو بلاتی ہیں۔
مزید پڑھیے: کہ یہاں پانی ایک خُوبصورت سپنا ہے!
اگر آپ اس تحریر کا لب لباب نکالیں تو یہ ہوگا کہ اس ساری اتھل پتھل کا ذمہ دار خود انسان ہے۔ اس نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی صورت میں پیسہ کمانے کے لیے جو نام نہاد ترقی کی نامکمل تصویر پیش کی تھی اس نے ہماری ماحولیات کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ان تھرمل، کول پاور پراجیکٹس، ڈیم، کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور کیمیکل ملے پانی کے سمندروں میں اخراج کی وجہ سے موسموں میں جو ’شدت‘ کا عنصر شامل ہوا ہے، یہ قفس جیسا گاؤں اس کی چھوٹی بلکہ بہت ہی چھوٹی مثال ہوسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ 50 خاندان جس میں 400 سے بھی زیادہ آچار اور آمنتیں نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کو ایک ذلت کی طرح گزار رہے ہیں ان کے درد کو ہم کہاں رکھیں؟ دنیا میں انسان اور اس کی روح کے لیے سب سے بڑی سزا نقل مکانی ہے، تو ان کی سخت مجبوریوں میں کی ہوئی نقل مکانی کے اس کبھی نہ ختم ہونے والے قفس کے خلاف ’ایف آئی آر‘ ہم کس پر داخل کریں؟
کیا صوبائی حکومت یا ضلعی انتظامیہ کو یہ نقل مکانی نظر نہیں آتی؟ اگر نظر نہیں آتی تو اس کی وجہ؟ اگر نظر آتی ہے تو اب تک ان بھٹکنے والے خاندانوں کے لیے حکومت نے کیا کیا ہے؟ ایسی کوئی پالیسی بنائی ہے جس سے Climate Migration کرنے والے ہزاروں خاندانوں کو در در بھٹکنے، پریشان ہونے اور ذلتوں سے بچایا جاسکے۔ یہ ان ماہ و سال کے اہم ترین سوالات ہیں، جس کے مثبت جواب کی ہم حکومت سے امید رکھتے ہیں۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں