لاہور ہائیکورٹ نے شوگر ملز کیس میں ایس ای سی پی کا ریفرنس ختم کردیا
لاہور ہائیکورٹ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے اہل خانہ کی شوگر ملز کے خلاف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) میں دائر ریفرنس کو جمعرات کے روز ملتوی کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو ججز پر مشتمل بینچ نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا حصہ بنانے کے حوالے سے اپنے افسران کو نامزد کرنے کے لیے ایس ای سی پی کو لکھے گئے اقدام کو بھی ختم کرنے کی ہدایت کی۔
تاہم بینچ نے فیصلہ سنایا کہ ایف آئی اے نے مبینہ کارپوریٹ فراڈ کے معاملات پر قانونی اور قابلیت کے ساتھ جائزہ لیا ہے جس کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: شوگر کمیشن کی رپورٹ افشا کرنے پر ایف آئی اے افسر برطرف
شہباز شریف کے اہل خانہ کی العربیہ شوگر ملز اور جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز اور فاروقی پلپ ملز نے وفاقی حکومت، ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کی متعدد کارروائیوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
درخواست گزاروں نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر کے ایف آئی اے کو لکھے گئے خط کو اس کے بعد ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ کال اپ نوٹس کو چیلنج کیا تھا۔
تاہم بینچ نے اپنے 65 صفحات پر مشتمل فیصلے میں معاون خصوصی کی جانب سے اس فعل میں کچھ بھی غلط نہیں پایا اور کہا ہے کہ وہ محض کابینہ کے فیصلے کے مطابق کام کر رہے تھے۔
جسٹس شاہد کریم اور جسٹس ساجد محمود سیٹھی پر مشتمل بینچ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے پاس وفاقی حکومت کے قانونی اختیارات پر شکوک و شبہات کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘۔
کال اپ نوٹس پر چیلنج مسترد کرتے ہوئے بینچ نے مشاہدہ کیا کہ کال اپ نوٹس میں شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ نہیں اور منی لانڈرنگ اور مالی / کارپوریٹ دھوکہ دہی سے متعلق تحقیقاتی ٹیم کے پاس موجود معلومات کی بنیاد پر جاری کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: شوگر کمیشن رپورٹ غیرقانونی قرار دینے کا سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل
عدالت کا کہنا تھا کہ بلاشبہ منی لانڈرنگ کا جرم 1974 کے ایکٹ کے شیڈول کا حصہ ہے اور یہ ایف آئی اے کے علم میں ہے۔
جے آئی ٹی میں ایس ای سی پی کے عہدیداروں کی نامزدگی کے بارے میں بینچ نے مشاہدہ کیا کہ اٹارنی جنرل کسی ایسی وجہ کا حوالہ نہیں دے سکے جس سے ایف آئی اے کو کسی اور ایجنسی کے افسران کی خدمات طلب کرنے کا اختیار ملے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کا عمل قوانین کے منافی ہے اور اس کی قانون میں کوئی بنیاد نہیں ہے‘۔