• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

'فوج کو آرمی چیف کے خلاف بغاوت کرنے کا کہنا، اس سے بڑی غداری کیا ہوگی'

شائع November 12, 2020 اپ ڈیٹ November 13, 2020
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور وزیراعظم ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی اور ہمت سے زیادہ کام کیا —فوٹو: اسکرین شاٹ
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور وزیراعظم ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی اور ہمت سے زیادہ کام کیا —فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف نے لندن سے بیٹھ کر فوج کو آرمی چیف کے خلاف بغاوت کرنے کا کہا اس سے بڑی غداری اور کیا ہوگی۔

نجی چینل ’جی این این‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بھارتی بیانیہ لے کر بات کر رہی ہے، اگر اس وقت پاکستان کی فوج کمزور پڑتی ہے تو بھارت ہمارے ملک کے تین ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔

مزید پڑھیں: مناظرہ کرلیں ہم آئینہ دکھانے کیلئے تیار ہیں، مراد سعید کی ایک مرتبہ پھر بلاول بھٹو کو پیشکش

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو نواز شریف موزوں لگتا ہے، یہ تجزیہ نہیں بلکہ معلومات ہے کیونکہ ایجنسی سب جانتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تمام معلومات ہیں کہ نواز شریف بھارت میں کس کس سے ملاقات کرتے رہے۔

عمران خان نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی پر نواز شریف اور مریم نواز پر انکشاف ہوا کہ عمران خان کسی حال میں بھی این آر او نہیں دے گا تو اس کے بعد انہوں نے آرمی اور عدلیہ پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کو تمام سیاستدانوں کے اثاثوں سے متعلق معلومات ہیں اور اسی وجہ سے ان کا فوج سے جھگڑا ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مجھ پر نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے روانہ کرنے کا دباؤ اس وقت ہوتا جب میرے اثاثے باہر ہوتے، ان کا مجھ پر دباؤ ہے کہ میری کرسی چلی جائے گی لیکن مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سارے چور اکٹھا ہو کر کہہ رہے ہیں عمران خان کی کرسی گرادیں، تو گرا دو لیکن میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔

'غیر یقینی کی کیفیت معشیت کے لیے تباہ کن ہے'

ان کا کہنا تھا کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانے سے متعلق فیصلے میں تاخیر کے سبب بہت نقصان ہوا، اب سوچتا ہوں کہ ہمیں حکومت کے بعد فوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ غیریقینی کی کیفیت معشیت کے لیے تباہ کن ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو توڑنے والوں کی راہ میں عمران خان رکاوٹ ہے، وفاقی وزیر

ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد جتنی محنت کی ماضی میں کبھی نہیں کی اور گزشتہ 2 برس کے دوران جو بھی کام کیا اس پر مکمل مطمئن ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور وزیراعظم ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی اور ہمت سے زیادہ کام کیا۔

بیوروکریسی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد ملکی مالیاتی اداروں میں بحران کا اندازہ ہوا، 60 کی دہائی میں پاکستان کی بیوروکریسی پورے ایشیا میں بہت معیاری تھی، پاکستان میں ڈیولمنٹ بیوروکریسی نے کی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ 70 کی دہائی میں بیوروکریسی میں سیاست کا دخل شروع ہوا اور دونوں جماعتوں نے تباہی کردی۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر کہا کہ ان دو جماعتوں نے پیسہ بنانے کے لیے بیوروکریسی، ایف بی آر، عدلیہ سمیت تمام احتساب کے اداروں کو کمزور کیا تاکہ انہیں کوئی پکڑ نہ سکے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بیوروکریسی میں بہت سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے معیار انتہائی پستی کا شکار ہے جس کی وجہ سے انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: اب عمران خان این آر او چاہ رہے ہیں مگر ہم نہیں دے رہے، مولانا فضل الرحمٰن

عمران خان نے کہا کہ انسان کو اپنے مقاصد کی بنیاد پر تبدیلی لانی پڑتی ہے، اب میرے معمولات زندگی انتہائی محدود ہوگئے ہیں، آفس کے بعد گھر اور اگلے دن پھر آفس۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اخراجات کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں جاتا، میرے بچے لندن میں زیر تعلیم ہیں اور جب سے اقتدار میں آیا ایک مرتبہ بھی برطانیہ نہیں گیا۔

'پاکستان میں یہ روش ہے کہ اقتدار میں آؤ اور پیسہ بناؤ'

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں یہ روش رہی ہے کہ اقتدار میں آؤ اور پیسہ بناؤ، اقتدار ختم ہوجائے اور احتساب کا عمل شروع ہو تو نعرہ لگاؤ کہ انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔

حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ 'تھوڑے لوگوں کو جمع کرکے کہیں کہ آپ بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'دونوں پارٹیز کرپشن کی بنیاد پر نکالی گئیں، نواز شریف نے آصف علی زرداری کو جیل میں ڈالا، پیپلز پارٹی نے نواز شریف کے خلاف کیسز بنائے جس کے بعد پرویز مشرف نے دونوں کو این آر او دے دیا اور وہ دوبارہ اقتدار میں آگئے'۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آصف علی زرداری کی کرپشن پر ڈاکیومنٹری اور کتاب موجود ہیں۔

'وائٹ کالر جرائم کے گرد گھیرا تنگ کرنا مشکل ہوتا ہے'

عمران خان نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں انتظامی ڈھانچے کمزور ہوں وہاں وائٹ کالر جرائم کے ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس مہنگے وکیل ہوتے ہیں اور یہ تحقیقاتی اداروں کو رشوت دے دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں پارٹیز نے عدلیہ اور احتساب کے اداروں میں اپنے لوگوں کو شامل کیا ہوا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مقابلے میں ملائیشیا بہت مستحکم ہے لیکن وہاں بھی کریٹ سیاستدان کو بے نقاب کرنے کے لیے 2 سال کا عرصہ لگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور این آر او کے لیے نیب کے قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا کہ احتساب کا ادارہ غیر فعال ہوجائے اور راہ فرار اختیار کرلیں۔

'اپوزیشن نظریہ کی جنگ نہیں لڑ رہی'۔

ان کا کہنا تھا وہ ادارے جو ہمارے ماتحت آتے ہیں اب آہستہ آہستہ ان کے خلاف ثبوت سامنے آرہے ہیں اور اسی لیے وہ زیادہ شور کر رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن نظریہ کی جنگ نہیں بلکہ چوری کے پیسے بچانے کے لیے چیخ و پکار کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: موسم سرما میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوسکتا ہے، عمران خان

عمران خان نے کہا کہ 'میرے لیے سب سے بڑی پریشانی غیر پاکستانیوں سے قرضے مانگنے سے ہوئی'۔

وزیر اعظم نے قدرے جذباتی انداز میں کہا کہ 'میں ہر روز دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہماری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ہمت دے'۔

'عثمان بزدار کو میڈیا کا سامنا کرنا نہیں آتا'

انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں کہا کہ عثمان بزدار زبردست کام کر رہے ہیں لیکن ان کی ایک کمزوری ہے کہ انہیں میڈیا کا سامنا کرنا نہیں آتا، ان میں وہ اعتماد نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا کہ 'یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح نواز شریف اپنے ابتدائی دور میں میڈیا کے سوالات کا جواب نہیں دے سکتے تھے'۔

انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار اپنے کام کی تشہیر نہیں کرسکتے جس طرح شہباز شریف کرتے تھے، اس لیے فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا اور فیاض الحسن چوہان بھی بہترین کام کر رہے تھے۔

پنجاب میں آئی جی کی تبدیلی سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ 'میری مداخلت کے باوجود قبضہ مافیا کے لوگ آزاد گھومتے تھے تب میں نے آئی جی پنجاب کو تبدیل کیا اور نئے افسر نے قبضہ مافیا کے کارندوں کو گرفتار کرلیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کام نہیں کرے گا انہیں فارغ کردیں گے اور بہت جلد بڑے بڑے قبضہ گروپ جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ رِنگ روڈ کے معاملے میں عثمان بزدار کا کوئی دخل نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پنجاب کے تمام بڑے منصوبوں کی خود نگرانی کر رہا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ پنجاب کے کسی منصوبے سے نقصان نہیں ہوگا۔

'محکمہ زراعت وفاق کے پاس ہونا چاہیے'

ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اتنے طریقہ کار کو ختم کر رہے ہیں اب صوبوں سے پوچھنا نہیں پڑے گا کہ کتنی گندم ہوئی ہے بلکہ سپارکو سیٹلائٹ کے ذریعے 'اسکرینگ' ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ گندم سمیت دیگر اجناس کی اسمگلنگ کا بڑا مسئلہ اور اس لیے فوڈ ڈیپارمنٹ یا زراعی ادارے وفاقی حکومت کے پاس ہونے چاہیے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا اسلام آباد میں قائم پناہ گاہ کا دورہ

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی بحران کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس وقت سارے معاشی اشاریے ٹھیک راستے پر ہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس کی دوسری لہر آرہی ہے اس لیے میں سب کو کہوں گا کہ وہ ماسک پہن کر کام کریں۔

'اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے'

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطین کے عوام کسی معاہدے پر اطمینان کا اظہار نہیں کریں گے ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔

یو اے ای اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ کئی ممالک سے ہمارے تعلقات اچھے ہیں اور ہم ان کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ 'پہلے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں پھر ایسے سوال پوچھیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات بلکل ٹھیک ہیں۔

اگر چین اور بھارت کے مابین جنگ کی صورت پیدا ہوتی اور چین پاکستان سے مدد مانگتا ہے تو تب آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ پر عمران خان نے کہا کہ امید ہے ایسی صورت پیدا نہ ہو اور میں جنگ پر یقین نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے سعودی ولی عہد سے ملاقات انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ شام میں جنگ ختم ہوسکتی ہے جبکہ ایران اس بات پر آمادہ تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024