کھانسی کورونا وائرس کو 6 فٹ سے زیادہ دور تک پہنچا سکتی ہے، تحقیق
کھانسی کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ذرات 6 فٹ سے زیادہ دور جاسکتے ہیں اور اپنے ساتھ نوول کورونا وائرس کی اتنی مقدار لے جاسکتے ہیں جو دیگر کو بیمار کرنے کے لیے کافی ہو۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی ماہرین کی جانب سے ہر ایک پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران سماجی دوری کے اقدامات پر عمل کریں، یعنی اجنبی یا ایسے افراد جن کے ساتھ نہیں رہتے، ان سے کچھ دور رہیں۔
اس نئی تحقیق نے ان شواہد کو مضبوط کیا ہے جن کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کم از کم 6 فٹ کی دوری بیماری سے تحفظ میں مددگار نہیں۔
سنگاپور کے محققین کی اس تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ مختلف اقسام کے ذرات کسی فرد کی کھانسی کے دوران 3.2 فٹ اور 6.5 فٹ دور کھڑے افراد تک پہنچ سکتی ہیں یا نہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 3 فٹ کی دوری پر کھڑا فرد براہ راست وائرس کی زد میں آتا ہے اور اسے ذرات کا 65 فیصد حصہ کور کرلیتا ہے۔
تحقیق کے مطابق کھانسی یا ھینک کے دوران خارج ہونے والے ذرات چکنے اور گیلے قسم کے ہوتے ہیں اور جو بھاری ہونے کے باعث فرش پر گر جاتے ہیں، جن میں حیران کن حد تک وائرل لوڈ ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کھانسی کے ذرات 6.5 فٹ دور کھڑے افراد تک بھی پہنچ جاتے ہیں، ان کی مقدار ضرور بہت کم ہوتی ہے مگر ان میں اتنا وائرس ضرور ہوتا ہے جو کسی کو متاثر کرسکے۔
دونوں کیسز میں یہ ذرات کھانسی کے ذریعے ناک اور منہ سے خارج ہوکر سفر کرتے ہوئے قریب موجود لوگوں تک پہنچتے ہیں، مگر بیشتر مقدار زیریں جسم پر گرتی ہے۔
اس وجہ سے محققین کے خیال میں لوگ ممکنہ طور پر براہ راست بڑے ذرات کو سانس کے ذریعے جسم میں کھینچتے نہیں، مگر جلد یا کپڑوں سے ہاتھوں کے ذریعے منہ تک پہنچا دیتے ہیں، جس سے وہ کووڈ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یقیناً کپڑوں پر ذرات گرنے سے آپ بیمار نہیں ہوتے، مگر ان ذرات میں سانس لینے یا ہاتھوں سے کپڑوں کو مسلنے سے انہیں اپنے اندر پہنچا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چھینکیں اور کھانسی خطرناک ہیں اور 2 افراد اگر ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں تو وائرس بہت آسانی سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔
انہوںن نے بتایا کہ یہ ذرات توپ کے نھے گولوں کی طرح اڑتے ہیں اور آپ کی آنکھوں، نتھوں اور ہونٹوں پر گرسکتے ہیں۔
وائرسز 2 ذرائع سے ایئربورن یا ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں، ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ بڑے اور بھاری ذرات منہ اور ناک سے خارج ہو اور دوسرا ایسے ننھے ذرات جو بہت تیزی سے ہوا میں خشک ہوجائیں۔
بڑے ذرات میں وائرس کی زیادہ نقول ہوتی ہیں مگر وہ عموماً بھاری ہوتے ہیں اور چھینک یا کھانسی کے فوری بعد فرش اور قریبی اشیا کی سطح پر گرجاتے ہیں۔
چھوٹے ذرات حلق کے پشت میں بات کرنے، بولنے یا گانے کے دوران بنتے ہیں اور فرش پر گرنے سے قبل خشک ہوجاتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ چھوٹے قد کے افراد جیسے بچے اور نوجوانوں کو لمبے قد کے بالغ افراد کی کھانسی سے زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ چھوٹے قد کے لوگوں کو اپنے سے لمبے افراد سے 6 فٹ سے زیادہ دور رہنا چاہیے۔
اس سے قبل میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے اپریل میں اپنی تحقیق میں بتایا تھا کہ کھانسی کے دوران خارج ہونے والے ذرات 6 فٹ سے زیادہ دور تک گیس کے بادل کی شکل میں جاسکتے ہیں۔
اسی طرح چھوٹے ذرات جو بات کرنے یا گانے کے دوران بنتے ہیں، وہ زیادہ طویل فاصلے تک سفر کرسکتے ہیں، تو ہرفرد کے لیے دوسرے سے جتنی دور رہنا ممکن ہو، دور رہنا چاہیے۔
تحقیق کے مطابق کھانسی یا چھینک سے بننے والے گیس کے بادل وائرس کے ذرات کو 8 میٹر دور تک لے جاسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں، ہاتھوں کو اکثر دھوئیں، جس حد تک ممکن ہو گھر میں رہیں۔