امریکا: صدارتی انتخاب کے دوران نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج جاری
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سمیت دیگر کئی شہروں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کے درمیان جاری انتخابی مقابلے کے دوران بھی نسلی امتیاز کے خلاف ‘بلیک لائیوز میٹرز’ کا احتجاج جاری رہا اور متعدد گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس سے چند فرلانگ دوری پر ایک ہزار سے زائد مظاہرین نے شدید احتجاج کیا اور سیکڑوں افراد نے واشنگٹن کے مختلف علاقوں میں مارچ کیا اور آتش بازی کی۔
مزید پڑھیں: پورٹ لینڈ میں پولیس کے تشدد، نسل پرستی کے خلاف مسلسل احتجاج کے 100 دن
واشنگٹن کے علاوہ سیٹل اور نیویارک سمیت دیگر شہروں میں بھی شدید احتجاج کیا گیا اور یہ احتجاج مجموعی طور پر پرامن رہا اور کہیں ناخوشگوار واقعے کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی، تاہم سیٹل میں پولیس کی جانب سے چند مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
واشنگٹن میں مظاہرین پرامن رہے اور نعرے لگاتے رہے کہ ‘یہ سڑکیں کس کی’ اور کہا گیا کہ ‘اگر ہمیں انصاف نہیں تو کوئی امن نہیں’۔
مظاہروں میں شریک نواجوان رقص کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے اور بینرز میں لکھا ہوا تھا کہ ‘ٹرمپ ہر وقت جھوٹ بولتا ہے’۔
دوسری جانب پورٹ لینڈ، اوریگن اور سیٹل میں سیکڑوں افراد نے ٹرمپ مخالف مظاہرے کیے جبکہ کئی گرفتار ہوئے۔
پورٹ لینڈ میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ‘جمہوریت ایسی ہوتی ہے’ اور منتظمین کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخاب کا نتیجہ جو بھی آئے لیکن مظاہرہ پرامن ہوگا اور نسلی امتیاز کے خلاف اپنے احتجاج کو انصاف ملنے تک جاری رکھیں گے۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ چند مظاہرین اسلحے کی کھلے عام نمائش بھی کر رہے تھے۔
پورٹ لینڈ کے میئر نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ کسی قسم کی کشیدگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے تحفظ ملنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے حامیوں کا نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے تصادم، ایک ہلاک
سیٹل میں پولیس کا کہنا تھا کہ متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی رہے تھے تاہم کوئی زخمی نہیں ہوا۔
رپورٹس کے مطابق انتخاب کے دوران کشیدگی کے خدشے کے پیش نظر کاروباری سرگرمیاں بھی محدود رہیں جبکہ حکام نے بھی اس طرح کے بیانات دیے تھے۔
خیال رہے کہ سیٹل میں بھی امریکا کے دیگر شہروں کی طرح نسلی امتیاز کے خلاف شدید احتجاج کیا جاتا رہا جو رواں برس مئی میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پولیس اصلاحات لائی جائیں۔
امریکا بھر میں احتجاج کے باوجود صدارتی انتخاب پرامن ماحول میں مکمل ہوا جبکہ کشیدگی کے خدشات بھی تھے اور کورونا وبا کے باعث شہری بھی تذبذب کا شکار تھے، لیکن سیاسی عمل اچھے انداز میں تکمیل کو پہنچا اور اب ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس مئی میں مینیوپولس میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت سمیت دیگر واقعات پر خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر نسلی امتیاز کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا: سیاہ فام شخص کی ہلاکت پر مظاہرے، 2 شخص ہلاک
بعد ازاں 26 اگست کو ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا میں پولیس کی فائرنگ سے ایک اور سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد پرتشدد مظاہروں میں 2 افراد ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوگیا تھا۔
کاؤنٹی شیرف نے بتایا تھا کہ سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے تیسرے روز بھی پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوتی رہی۔
ریاست منی سوٹا میں 46 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔