امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے 'پیرس معاہدے' سے باضابطہ دستبردار
امریکا بین الاقوامی ماحولیاتی تبدیلی کے 'پیرس معاہدے' سے باضابطہ دستبردار ہونے والا پہلا ملک بن گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ایک طرف صدارتی انتخاب کا عمل جاری ہے تو دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ پہلے سے طے شدہ وقت کے مطابق 2015 کے پیرس معاہدے سے دستبردار ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا ماحولیاتی معاہدے سے دستبردار، ٹیکنالوجی کمپنیز مایوس
واضح رہے کہ ایک سال قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا تھا کہ وہ ماحولیات سے متعلق عالمی معاہدے سے دستبردار ہوجائے گی۔
امریکا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے ملک ہے۔
سابق نائب صدر اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے پیرس معاہدے کو ملک میں فوری طور پر واپس لانے کا وعدہ کیا ہے جس کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔
جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ وہ امریکا کو 2050 تک کاربن سے پاک ملک بنانے کے لیے 1.7 کھرب ڈالر کا منصوبہ پیش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: یورپ کاچین کے ساتھ پیرس ماحولیاتی معاہدے پر عملدرآمد پر اتفاق
اس معاہدے کا مقصد ہے کہ اس صدی تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھا جائے اور عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک لے جانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلیوں کو انسانی غلطی تصور کرنے پر تذبذب کا شکار تھے اور پیرس معاہدہ 2015 کی تنسیخ کی بات کی تھی، تاہم اب تک انہوں نے اس معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان نہیں کیا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرنے والے ہیں۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے بین الحکومتی پینل کے مطابق صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے لانے کے لیے پیرس معاہدہ ہوا تھا۔
خیال رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے پیش نظر ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ اگر امریکا پیرس معاہدے سے دستبردار ہوا تو موسمیاتی نتائج انتہائی مایوس کن ہوں گے۔
سائنسدانوں اور ماحولیات کے ماہرین نے کہا تھا کہ اگر امریکا، پیرس معاہدے سے دستبردار ہوگیا تو دیگر کچھ ممالک بھی معاہدے سے منکر ہوجائیں گے تو اس کے نتائج وسیع تر ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی ماحولیاتی معاہدے سے امریکا دستبردار، اتحادی ناراض
کیلی فورنیا میں بریک تھرو انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ماحولیات زیک ہاسفادر نے کہا تھا کہ 'اگر دنیا پیرس معاہدے کے عمل سے دور ہوتی ہے تو شدید گرمی کی لہر پیدا ہوگی'۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے روب جیکسن نے کہا تھا کہ اگر امریکا ماحولیات کے پیرس معاہدے سے خود کو دستبردار کرلیتا ہے تو آج کے بچے 'ایسی بڑی تبدیلیوں کو دیکھیں گے جو ہم میں سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوں گی'۔
جرمنی کی ویگنینگن یونیورسٹی کے آب و ہوا کے سائنس دان نکلاس ہوہنی نے کہا کہ امریکی صدارتی انتخاب بین الاقوامی ماحولیات کی پالیسی کے لیے ایک اہم نقطہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گرمی کی لہروں، گلوبل وارمنگ، جنگل میں لگنے والی آگ، طوفان، خشک سالی اور طوفان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں اقوام متحدہ کے موسم کے حوالے سے قائم ادارے نے خبردار کیا تھا کہ جن لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی مدد کی ضرورت ہے ان کی تعداد 2018 میں 10 کروڑ 80 لاکھ کے مقابلے میں 2030 تک 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔