سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن، اراکین کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوگی، بل پیش
پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے قیام کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کے ملازمین سول ملازمین تصور نہیں ہوں گے جبکہ اتھارٹی کے چیئرپرسن اور اراکین کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاسکے گی۔
سی پیک اتھارٹی کے قیام کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کے چیئرپرسن اور اراکین کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات
بل میں کہا گیا کہ اتھارٹی چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹر آپریشنز یا ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریسرچ اور 6 اراکین پر مشتمل ہو گی اور اتھارٹی کا سربراہ چیئرپرسن ہو گا۔
اتھارٹی کے چیئرپرسن، اراکین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے کیا جائے گا اور شرائط و ضوابط کا تعین بھی وزیراعظم ہی کریں گے۔
اراکین کے انتخاب کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ مفاد کا ٹکراؤ رکھنے والا کوئی بھی شخص چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا رکن نہیں بن سکے گا۔
بل کے مطابق سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن اور ارکان کا تقرر چار سال کے لیے ہو گا اور ارکان کی 4 سال کے لیے دوبارہ بھی تقرر کیا جا سکے گا۔
اتھارٹی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کہا گیا کہ سی پیک منصوبوں میں آسانی پیدا کرنے، رابطہ کاری، فیصلوں کے نفاذ، منصوبوں کی نگرانی اور ان کی جانچ کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔
اتھارٹی کی منصوبہ بندی کا کام منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے اختیار کردہ موجودہ انتظامات کی پیروی میں ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے ’سی پیک اتھارٹی‘ کے آرڈیننس پر دستخط کردیے
سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن سی پیک سے متعلق کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے سکیں گے اور اتھارٹی کا اجلاس طلب کای جاسکے گا جبکہ اتھارٹی کا ہر مالی سال میں سہہ ماہی بنیادوں پر اجلاس ہوگا اور کورم کے لیے تعداد کل اراکین کی دو تہائی ہو گی۔
بل میں کہا گیا کہ سی پیک کاروباری کونسل بھی قائم کی جائے گی، سی پیک فنڈ وزارت خزانہ کی منظوری سے تشکیل دیا جائے گا جبکہ حسابات کی جانچ پڑتال آڈیٹر جنرل کرے گا۔
مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے ملازمین سول ملازمین تصور نہیں ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اس بل کے قانون بننے تک سی پیک سے متعلقہ سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گے، اتھارٹی اپنے امور کی انجام دہی کے لیے مربوط معلومات طلب کر سکے گی اور اس حوالے سے کسی بھی اتھارٹی یا ایجنسی، صوبائی یا مقامی حکومت سے سہولت حاصل کر سکے گی۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے ایوان بالا میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ 'سی پیک اتھارٹی کس قانون کے تحت کام کررہی ہے'۔
انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ گزشتہ سال جاری کردہ اس آرڈیننس کو قومی اسمبلی نے جنوری میں ایک قرار داد کے ذریعے 120 دن کی توسیع دی تھی لہٰذا جون میں آرڈیننس کی توسیع شدہ مدت اختتام کو پہنچی۔
مزید پڑھیں: 'جو شخص معاون خصوصی کیلئے ٹھیک نہیں، وہ سی پیک اتھارٹی کا سربراہ کیسے ہوسکتا ہے'
یاد رہے کہ صدر مملکت نے 8 اکتوبر 2019 کو جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے 10رکنی سی پیک اتھارٹی قائم کی تھی جس کے تحت اربوں ڈالر کے روڈ اور ریل نیٹ ورک سے متعلق منصوبوں میں تیزی لائی جانی تھی جو چینی علاقوں کو بحیرہ عرب سے پاکستان کے راستے جوڑتے ہیں۔
اتھارٹی کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ معاشی نمو کے نئے محرکات کو تلاش کرے اور علاقائی اور عالمی رابطے کے ذریعے باہمی طور پر منسلک پیداواری نیٹ ورک کی اور عالمی ویلیو چینز کی صلاحیت کو پرکھے۔
سینیٹر ربانی نے کہا تھا کہ سی پیک اتھارٹی کے اپنے فنڈز اور بینک اکاؤنٹ ہیں اور وہ حیرت زدہ ہیں کہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر ادائیگیوں کے لیے یہ کس طرح چلایا جارہا ہے۔