اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائیں، وزیراعظم کا مسلمان حکمرانوں کو خط
وزیراعظم عمران خان نے مسلمان ممالک کے سربراہان کو ایک خط کے ذریعے زور دیا ہے کہ اسلامو فوبیا اور خاص کر یورپی ممالک کے رہنماؤں کے بیانات کے خلاف انتہاپسندی کو توڑنے کے لیے متحد ہو کر قائدانہ کردار ادا کریں۔
وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر 28 اکتوبر کو مسلمان حکمرانوں کے نام لکھے گئے خط کو جاری کیا اور یہ خط فرانس میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع ہونے اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے ان کے فعل کی حمایت کے کئی دنوں بعد لکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی اسلاموفوبیا پر ترک صدر کے ’ٹھوس مؤقف‘ کی تعریف
فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘مسلمان ہمارا مستقبل چھیننا چاہتے ہیں’۔
وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری خط میں کہا کہ ‘امہ میں بڑھتی بے چینی اور تشویش کی وجہ مغربی دنیا خاص کر یورپ میں اسلاموفوبیا میں تیزی، نفرت انگیزی اور ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی گستاخی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘قیادت کی سطح پر حالیہ بیانات اور قرآن پاک کی بے حرمتی جیسے حالیہ واقعات بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا مظہر ہیں جو یورپ بھر کے ممالک میں پھیل رہے ہیں جبکہ ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑی آبادی مقیم ہے’۔
وزیراعظم نے کہا کہ پورے یورپ میں مسلم مخالف جذبات پھیل رہے ہیں جہاں مساجد کو بند کردیا گیا اور مسلمان خواتین کو عوامی مقامات پر اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی اور ‘یہاں تک پادری اور راہبائیں اپنے مذہبی لباس میں ہوتی ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک کی قیادت مسلمانوں کے قرآن پاک اور حضرت محمد ﷺ سے پیار اور احترام سے متعلق ‘اکثر لاعملی کی بنیاد پر ردعمل دیتی ہے’ اور ان کے اقدامات ‘خطرناک عمل اور اس کے ردعمل’ کا باعث بن جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان معاشروں میں مسلمان پیچھے رہ جاتے ہیں۔
خط میں انہوں نے کہا کہ ‘مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ سے بنیاد پرستی جنم لیتی ہے اور یہ مکروہ سلسلہ ہر طرف انتہاپسندوں کے لیے موقع فراہم کرتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ متحد ہوجائیں اور ‘نفرت اور انتہا پسندی کے اس سلسلے کو توڑ دیں جس سے کشیدگی اور یہاں تک کہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن جاتا ہے’۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں تمام مسلمان قیادت پر زور دیتا ہوں کہ یک جا ہو کر آواز اٹھائیں اور غیر مسلم رہنماؤں خاص کر مغربی ممالک کو آگاہ کریں کہ مسلمانوں کے اندر قرآن پاک اور حضرت محمد ﷺ کے لیے کس قدر گہری عقیدت اور محبت ہے’۔
مسلمان حکمرانوں پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ دوسروں کو آگاہ کرنے اور نفرت اور جرائم کے سلسلے کو ختم کرنے کا وقت ہے’۔
مزید پڑھیں: فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور
انہوں نے نشان دہی کرتے ہوئے لکھا کہ 1940 کی دہائی میں نازیوں کی جانب سے 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام ہولوکاسٹ پر تنقید اور سوال کرنا مغربی ممالک میں جرم ہے اور مسلم دنیا کو اس کا احساس ہے اور احترام بھی کرتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘مغربی دنیا کو مسلماں کے احترام میں بھی اسی طرح کے مقام کو سمجھنا ہوگا کیونکہ بوسنیا سے عراق، افغانستان سے بھارت کے غیرقانونی قبضے میں موجود جموں و کشمیر تک مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے عقیدے اور حضرت محمد ﷺ کی گستاخی کی جاتی ہے تو یہ اس سے بڑا اور انتہائی درد ناک اور دلوں کو توڑ دیتا ہے’۔
عمران خان نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے عیسائی یا یہودیوں سمیت کسی کے بھی پیغمبر کے خلاف گستاخی ناقابل قبول ہے، ‘دنیا میں یہ نفرت انگیزی جاری نہیں رہ سکتی جس سے ہر اطراف کے صرف انتہاپسندوں کو موقع ملتا ہے’۔
معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2006 میں ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی تھی، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین نے پھر ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی۔
اسی میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے باوجود وقتا فوقتاً ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت جاری رکھی، جس پر 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مذکورہ واقعے کے بعد میگزین نے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کا سلسلہ روک دیا تھا، تاہم گزشتہ سال ایک بار پھر مذکورہ میگزین میں ’توہین آمیز خاکوں‘ کی اشاعت ہونے لگی تھی، جس پر دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی گستاخانہ خاکوں کےخلاف قرارداد منظور
رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔
بعد ازاں چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔
استاد کے سر قلم کیے جانے اور فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے بعد ہی عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت فرانسیسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
یہی نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ ’دماغی معائنہ‘ کرانے کی تجویز دی تھی، جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں پارلیمان نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف قرارداد منظور کی تھی جبکہ فرانس سے سفیر کو واپس بنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ
اس کے علاوہ بھی دنیا بھر کے مسلم ممالک میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا اور کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فرانس کے سیکیولر "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔
ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے 'بنیاد پرست اسلام' کے خلاف 'دفاع' کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔