جب ٹھٹہ مہینوں تک جلتا رہا۔۔۔!
وہ کوئی کردار ہو، عمارت ہو یا لوک داستان، کوئی قدیم گزرگاہ ہو یا کوئی نسخہ، کوئی تصویر ہو یا کچھ بھی، ہم جب اس کی تاریخ کے حوالے سے کام کر رہے ہوتے ہیں تو اس سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہوتا، نہ دوستی کا اور نہ دشمنی کا۔
ہمارا انحصار تو صرف دستیاب حوالوں پر ہوتا ہے۔ اب اگر وہ کردار یا تاریخی مقام خوش نصیب ہوگا تو اس کے حوالے سے ایسا مواد بھی مل جائے گا جس میں اس دور کے سیاسی اور معاشی حالات بھی شامل ہوں۔
ایسے میں ہماری سوچ کو وسعت مل جاتی ہے اور اس مواد کی روشنی میں ہم کوشش کرتے ہیں کہ جو تجزیہ ہم کریں وہ شکوک میں گھرا ہوا نہ ہو بلکہ حقیقت سے قریب تر ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہمارا تجزیہ حرفِ آخر ہو، اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی چیز بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی۔
اکبر بادشاہ کی ولادت 15 اکتوبر 1542ء کو سندھ کے تاریخی شہر عمرکوٹ میں ہوئی تھی۔ یہ سال کا وہ عرصہ ہوتا ہے کہ جب دن گرم ہوتے ہیں، شام میں ہوائیں رک جاتی ہیں اور دھواں سیدھی لکیر کی طرح آسمان کی طرف جاتا ہے۔ زمین سے اٹھتی باریک مٹی کی تہہ زمین سے کچھ فٹ اوپر ایک لکیر کی طرح ساکت موجود رہتی ہے۔ جب رات ڈھلتی ہے تو اوس کی باریک بوندیں رات کے وجود میں ٹھنڈ بھر دیتی ہیں اور ساتھ میں یہ پیغام بھی دیتی ہیں کہ جاڑے کی شاندار ٹھنڈی ہوائیں آنے کو ہیں۔
رات کی سیاہی ڈھلی تو ہمایوں کو بیٹے کی ولادت کی خبر ملی۔ کچھ ہفتوں بعد ہمایوں اہل و عیال کے ساتھ ٹھٹہ کے مشرق میں 70 میل دُور واقع فتح باغ کے کوٹ میں آکر رہا۔ مرزا شاہ حسن جو ٹھٹہ کا حاکم تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہمایوں یہاں زیادہ وقت گزارے، کیونکہ اسے اپنی حکومت ڈولتی نظر آتی تھی۔
اس سے جتنا ہوسکا اس نے ہمایوں کو پریشان کیا۔ اکبر نے جو پہلا منظر دیکھا ہوگا وہ یقیناً سندھ کے آسمان کا نیلا رنگ ہوگا۔ جتنا وقت وہ یہاں رہا اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اکبر نے ابتدائی قدم فتح باغ کوٹ کے وسیع آنگن میں اٹھائے ہوں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹی عمر میں جتنے سرد و گرم زمانے اکبر نے دیکھے کسی اور مغل شہزادے نے مشکل ہی دیکھے ہوں گے۔ شاید یہی اسباب ہیں کہ اکبر کا زمانہ دیگر مغل بادشاہوں کے مقابلے اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔
یہ اکتوبر کا ہی مہینہ تھا اور اکبر کو بادشاہ بنے 29 برس کا زمانہ گزر چکا تھا۔ 9ویں شوال 993ھ کا چاند کب کا ڈوب چکا تھا۔ سرد رات میں اوس پڑ رہی تھی کہ جب ٹھٹہ کے حاکم مرزا باقی بیگ نے اپنے آپ کو مار ڈالا یا اسے مار دیا گیا۔
مرزا باقی کا جب خون بہا تو مرزا پائندہ اور اس کا بیٹا مرزا جانی بیگ سیہون میں تھے۔ خاندانی حاکمیت کے باعث تخت کا وارث پائندہ بیگ تھا مگر وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں تھا۔ البتہ مرزا باقی کا ایک اور بیٹا مرزا مظفر بیگ بھی تھا جو بدین کا حاکم تھا اور کَچھ کی جاڑیجا قوم کے معزز گھرانے سے تھا۔ بنیادی طور پر فیصلہ تو مل بیٹھ کر کرنا چاہیے تھا مگر محلاتوں کے فیصلے شطرنج کی ان چالوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے اندر فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں ننگر ٹھٹہ کے محلاتوں میں بھی ایک طاقتور ٹولہ تھا جو آنے والے کل کے لیے فیصلے کرتا تھا۔
مرزا باقی کے کفن دفن سے پہلے آنے والے حالات کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا۔ قدوسی صاحب لکھتے ہیں ’مرزا باقی کی وفات کے بعد اس کے اراکین، دولت خلیل مہردار، ملا محمد فراخی، شمس الدین سلطانی، ملا جمال الدین اور دوسرے امرا نے باہمی مشورہ کیا کہ مرزا کے 2 بیٹے ہیں، مرزا مظفر بیگ اور مرزا پائندہ ترخان جو اتفاق سے یہاں موجود نہیں ہے، ہمیں ان میں سے ایک کو منتخب کرکے تخت پر بھٹانا چاہیے۔ پہلے طے ہوا کہ، مرزا مظفر کو بدین سے بلایا جائے اور اسے مرزا کا قائم مقام بنایا جائے۔ لیکن چونکہ اس کی ماں جاڑیجا سمہ قوم سے تھی اس لیے خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ راجپوت ہیں جو اکثر جھگڑالو ہوتے ہیں اور حکومت پر قبضہ کرکے ہمیں ملک سے باہر نکال دیں گے۔ اس لیے سب نے مرزا پائندہ بیگ ترخان کو تخت نشینی کے لیے پسند کیا۔ مگر جب یہ سوچا کہ مرزا پائندہ کے مزاج میں دیوانگی اور کاؤدی پن غالب ہے اس لیے اس کے بیٹے مرزا جانی بیگ کو اس کا قانونی مشیر مقرر کرکے کاروبارِ مملکت اس کے تحت رکھے جائیں‘۔
اس فیصلے کے بعد مرزا باقی کی تجہیز و تکفین کی گئی۔ یہ خبر جب مظفر بیگ کو ملی تو وہ لشکر لے کر ٹھٹہ کے لیے نکل پڑا۔ مگر شہر سے باہر امرا نے اسے دریا کے کنارے روکے رکھا جب تک مرزا پائندہ بیگ کو تخت پر بٹھا کر مرزا جانی کو اس کا وکیل مقرر نہیں کردیا گیا۔ پھر مظفر بیگ واپس بدین لوٹ آیا۔ اگر ان دنوں کی تاریخی تحریروں کو غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فیصلہ ایسے ہی ہونا تھا کیونکہ چاچکان کا وسیع علاقہ جس میں بدین، رڑی اور جُون مشہور شہر تھے ان کی کبھی ننگر ٹھٹہ سے بنی نہیں۔ ہمایوں کے زمانے میں بھی بدین کی طرف والی مشرقی پٹی جو فتح باغ (جون) سے بدین، رھمکی بزار، ونگو، ولاسو، ماندھر یہ سب ایک ساتھ تھے اور کچھ کے راجاؤں سے ان کے اچھے رابطے اور واسطے تھے۔ ٹھٹہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ مشرقی پٹی یہاں حکومت کرے خاص کر مغل حاکم۔
مظفر بیگ جیسے ہی بدین پہنچا تو اس نے مرزا جانی بیگ سے لڑنے کے لیے قرب و جوار کے راجواڑوں سے مدد لے کر جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ بدین اس سے پہلے بھی اس طرح کی جنگوں کا میدان بنتا رہا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں جو بھی جنگ ہوئی اس میں جیت ہمیشہ ننگر ٹھٹہ کی ہوتی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ اس لیے کہ مشرقی حصے کے لوگ مقامی طور پر جنگیں لڑتے رہے تھے۔ مگر ٹھٹہ پر سمہ سرداروں کے بعد مغلوں نے اپنے پنجے گاڑے تو ان کے ترک خون میں سنگلاخ چٹانوں کی سختی اور چٹیل میدانوں کی بے رحمی بہتی تھی۔ ابنِ خلدون نے اپنے مقدمے میں یہ خوب کہا کہ معروضی حالتیں انسان کو بناتی ہیں۔ جھیل اور دریا کے کنارے بسنے والے کا تلوار اور تیر سے کیا کام کہ آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ان کو سرکنڈوں کا سفید دودھ جیسا سٹہ مل جاتا ہے اور اس کے نیچے میٹھا پانی بہتا ہے جس میں خوراک کی کمی نہیں۔ تو آلس تو رگوں میں بہےگا اور تن آسانی آپ کو جنگ کے میدان میں کبھی جیتنے نہیں دیتی۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا آیا تھا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ مظفر بیگ نے جنگ کی بڑی تیاری کی تھی۔ مگر مرزا جانی بیگ کو پتا تھا کہ جنگیں طاقت کے ساتھ ساتھ عیاری سے بھی جیتی جاتی ہیں۔ جنگ کا میدان شطرنج کی بساط سے الگ نہیں ہوتا۔ دونوں میں ہی پُرسکون اور تیز تجزیاتی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں جذبات کے بہاؤ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اگر اس میدان میں ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا جائے تو نتیجہ ہار کی صورت میں ہی ظاہر ہوگا۔
مرزا جانی بیگ نے وہی کیا جو جنگوں میں کیا جاتا ہے۔ مظفر بیگ کے لشکر میں بہت سارے مغل بھی تھے۔ جانی بیگ نے ان کو ایک خفیہ خط لکھ بھیجا کہ ’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے بہت سے بھائی اور عزیز میرے لشکر میں ہیں، اگر تم ہم پر حملہ کرو گے تو اپنے بھائیوں اور عزیزوں کے خون سے ہاتھ رنگو گے، جو تمہارے لیے کسی طرح مناسب نہیں۔ اگر مرزا مظفر بیگ نے فتح حاصل کرلی تو وہ اپنے کچھی لوگوں کو تم پر مسلط کرے گا اور تمہاری زندگی تلخ ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن اگر ہم نے فتح حاصل کی تو میں آپ کی ساری امیدیں پوری کروں گا اور تم کو مناصب اور جاگیروں سے سرفراز کروں گا‘۔
بدین کے مغلوں پر اس خط کا اثر بالکل ویسا ہی ہوا جیسا جانی بیگ چاہتا تھا۔ دوسرے دن جب جنگ شروع ہوئی تو مغل عین میدانِ جنگ میں لڑائی سے علیحدہ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ قدوسی لکھتے ہیں کہ ’مرزا مظفر نے مقامی لوگوں جیسا کہ خاصہ خیلوں اور جاڑیجا قبائل کے لوگوں کی مدد سے بڑی بہادری سے جنگ لڑی مگر وہ اس نفاق کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے اور اسی طرح جنگ کے دوران وہ اپنے خاندان کو بدین کے کوٹ سے لے کر کَچھ کی طرف لوٹ گیا'۔
طاہر محمد نسیانی تحریر کرتے ہیں کہ ’مرزا جانی بیگ کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ ’جب تک وہ اپنی والدہ، متعلقین اور ساز و سامان کو لے کر، باہر نہ چلا جائے تب تک کوئی شخص بدین میں داخل نہیں ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ جب وہ (مرزا مظفر) ساز و سامان لے کر چلا گیا تو وہ (مرزا جانی بیگ) بدین میں داخل ہوا اور گھبراہٹ میں جو سامان رہ گیا تھا وہ بھی بعد میں مرزا مظفر کو کَچھ بھجوادیا‘۔
فارسی تاریخ دانوں کی جو بھی کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں سب سے زیادہ جو بات نظر آتی ہے وہ یہ کہ وہ خاص کر بادشاہ کے کیے گئے عمل پر اپنی کیفیت کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ اگر کردار کوئی مثبت عمل کر رہا ہے تو اس عمل کے لیے وہ کئی جملے اس کی تعریف میں تحریر کردیں گے۔ مگر تھوڑا ہی آگے چل کر وہی کردار اگر کوئی منفی عمل کرے گا تو اس کی بُرائی کرنے میں بھی وہ اسے ادھیڑ کر رکھ دیں گے۔ یہ تاریخ کی کسی بھی تحریر کے لیے اچھی اور صحت مند علامت نہیں ہے۔ کیونکہ تحریر کرنے والا ذاتی کیفیت کی اتنی دھول اڑاتا ہے کہ اس میں سے حقیقت کی چند سطریں ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
مرزا جانی بیگ نے بدین کو اپنے کنٹرول میں لیا اور ٹھٹہ واپس آکر اس نے کچھ اہم قدم اٹھائے۔ ٹھٹہ میں ٹکسال قائم کیا کیونکہ اس سے پہلے ننگر ٹھٹہ میں دارالضرب نہیں تھا اور زیادہ تر فرنگیوں کی مہر زدہ اشرفی جس کا نام ’بیکی‘ تھا وہ چلتی تھی۔ البتہ مرزا عیسیٰ نے اپنے زمانے میں تانبے کا پیسہ ایجاد کیا تھا جسے ’عیسائی‘ کہتے تھے۔ یہی سکے مرزا باقی کے دور میں بھی رائج رہے۔ مگر مرزا جانی بیگ نے ’عیسائی‘ کے وزن کو کچھ کم کرکے اس کا نام ’میری‘ رکھا۔ اور اسی طرح غلہ ناپنے کے پیمانوں میں بھی کمی کردی۔ مرزا جانی کے ان اقدامات کو لوگوں نے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا، خاص طور پر آگرے میں بیٹھے، اکبر بادشاہ نے اسے بالکل ’بدشگونی‘ ہی سمجھا۔
تخت شاہی کے پایوں میں حوس کے ایسے ریگستان بستے ہیں جن کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ آپ ان کی پیاس بجھانے کے لیے کتنے بھی لوگوں کی رگوں سے ان کا خون نچوڑ لیں مگر اپنی سلطنت کی وسعت میں اضافے کی پیاس کبھی نہیں بجھے گی۔ جب جانی بیگ نے اپنے سکے جاری کیے اور یہاں کے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے کچھ اہم قدم اٹھائے تو ہندوستان کے شہنشاہ کو یہ یقیناً اچھا نہیں لگنا تھا۔ اس لیے فوری طور پر، اکبر نے مرزا جانی بیگ کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ ’تم پرانے وقتوں سے ہمارا خطبہ پڑھنا لازمی سمجھتے آئے ہو، بہتر یہ ہے کہ آج کے بعد سکہ اور ہمارے شایان شان تحائف اور بھی سال بسال پیش کرنا لازمی سمجھو اور اپنے بزرگوں کے طریقے کے مطابق ہماری بندگی کو اپنا فرض عین جانو‘۔
بنیادی طور پر اکبر کا یہ فرمان ایک دھمکی تھی جس کی گہرائیوں میں لوگوں اور حکومتوں کو غلام بناکر رکھنے کی تمنا موجود تھی۔ مرزا جانی بیگ نے بڑی کوشش کی کہ اکبر کو تحفے تحائف پر راضی رکھا جائے۔ شہنشاہ کے فرمان کے جواب میں مرزا جانی بیگ نے جو رقم کیا اس کا لب لباب یہ تھا کہ اس نے چند برس میں محنت کرکے ملک کو آباد کیا ہے اس لیے اکبر کو اس حوالے سے توقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے چچازاد بھائی مرزا شاہ رخ کے ذریعے بہت سارے تحفے دہلی بھیجے۔ مگر اکبر بادشاہ کو یہ سب اچھا نہیں لگا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ اس کے فرمان کے بعد، مرزا جانی بیگ ننگے پاؤں دوڑتا چلا آئے گا اور ایک بادشاہ کی تسکین ایسی غلامانہ روش سے ہی ہوتی ہے۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو بادشاہ سلامت ناراض ہوگئے اور اس ناراضگی کی سزا جنوبی سندھ کی حکومت کو ملنی ہی تھی۔ اب جن بربادیوں اور بے گناہ اور بے وقت بجھتی آنکھوں کا ذکر ہوگا اس کا واحد سبب ایک بادشاہ کی اَنا کی تسکین تھی۔
مرزا جانی بیگ 1585ء میں تخت پر بیٹھا۔ 1586ء کے آخر میں بدین کی حکومت کو اپنے ماتحت کیا۔ اسے آزادانہ حکومت کرنے کے لیے 3 سے 4 سال ملے۔ ان برسوں میں اس نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ ننگر ٹھٹہ کے معاشی حالات کو بحال کرسکے اور اس نے ایسا کیا بھی۔ بلکہ اس نے مقامی قبیلوں جیسے شوروں، سمیجوں، سموں، سومروں، پلیجوں اور دوسروں سے اچھے تعلقات قائم کرلیے تھے۔ اس لیے ہمیں مرزا جانی بیگ کی ایک مضبوط اور مستحکم حکومت نظر آتی ہے۔
اب اسے یہاں کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ یہاں بندرگاہ موجود تھی جو ’لاڑی بندر‘ کے نام سے مشہور تھی۔ اس کا ذکر ہمیں اس زمانے کی تقریباً تمام کتب میں ملتا ہے۔ تو وہاں کی آمدنی بھی اکبر بادشاہ کے لیے یقیناً کشش کا باعث رہی ہوگی اور ساتھ میں ننگر ٹھٹہ کی منڈی کی وسعت اس تحریر سے لگائی جاسکتی ہے کہ یہاں کشمیر، بنگال، لاہور اور ملتان میں بنی اشیا کی فروخت بڑی تعداد میں ہوتی تھی۔ تو معاشی طور پر ایسے مستحکم شہر کی طلب آخر شہنشاہ ہند کو کیوں نہیں ہوتی؟ اور اسی چاہت کو پورا کرنے کے لیے بادشاہ نے نواب صادق محمد خان کو ’بکھر‘ جاگیر کے طور پر دیا اور اس میں ٹھٹہ کی تسخیر کی شرط شامل کردی۔
صادق محمد خان ایک بڑے لشکر کے ساتھ نکل پڑے اور قلعہ سیہون کا محاصرہ کیا جو جنوبی سندھ کی حکومت کو فتح کرنے کے لیے پہلا اہم قلعہ اور شہر تھا۔ طاہر محمد نسیانی لکھتے ہیں ’جو قلعے کے اندر تھے انہوں نے قلعے کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور اس قدر بہادری سے لڑائی لڑی کہ کوئی مخالف قلعے کے پاس ٹِک نہیں سکتا تھا‘۔
صادق خان نے بڑی کوشش کی کہ قلعے کو تسخیر کرسکے، مگر تمام کوششوں کے باوجود وہ ناکام رہا۔ جب مرزا جانی بیگ کو یہ خبر ملی کہ قلعے پر صادق خان نے حملہ کیا ہے تو وہ ٹھٹہ سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ سیہون پہنچا اور صادق محمد خان کے لشکر پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا اور انہوں نے بھاگ کر جان بچائی۔
اب ہم1591ء میں کھڑے ہیں اور میرے سامنے ’دربار اکبری‘ کے صفحات ہیں جہاں ابوالفضل اور عبدالرحیم خان خاناں کے خطوط کی تحریریں سانس لیتی ہیں۔ خطوط میں ملکوں پر قبضہ کرنے کی باتیں اس طرح ہو رہی ہیں جیسے ملک نہیں چھوٹی چھوٹی بستیوں کی باتیں ہو رہی ہوں۔ فلاں فلاں ٹکڑوں کو چھوڑ دو اس پر تو جب چاہیں گے قبضہ کرلیں گے۔ بات یہاں پہنچی کہ قندھار پر قبضہ کیا جائے یا ٹھٹہ پر تو خان خاناں کا جواب تھا ’قندھار فقط نام کا میٹھا ہے۔ ملک بھوکا ہے اور حاصل خاک نہیں بلکہ خرچ ہیں کہ جن کا کوئی حساب نہیں اور اس وقت میرے پاس کچھ نہیں۔ میں بھوکا، سپاہ بھوکی۔ خالی جیب لے کر جاؤں گا تو کروں گا کیا؟ جب ملتان سے بکھر اور ٹھٹہ تک تمام ملک سندھ میں اکبری نقارہ بجے گا اور سمندر کا کنارہ اکبری تصرف میں ہوگا تو قندھار خودبخود ہاتھ آجائے گا‘۔
اور اکبری نقارہ بجا، ننگر ٹھٹہ اور اس کی بندرگاہ کو اس کی زرخیزی اور آمدنی نے جنگ کے سیاہ بادلوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیا۔ مرزا جانی بیگ نے بڑی کوشش کی کہ جنگ نہ ہو۔ اس لیے اس نے ایک طویل گزارش نامہ بھی بادشاہ کو تحریر کیا، مگر ٹھٹہ کو حاصل کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ مرزا جانی نے اپنے مدبروں سے مشورہ کیا۔ مدبروں کی رائے یہ تھی کہ بادشاہ کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرگردانی نہیں کرنی چاہیے اور بھی بہت سارے مشورے دیے گئے، مگر مرزا جانی بیگ نے ان باتوں اور مشوروں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں کیا۔
تاریخ طاہری کے نسیانی لکھتے ہیں کہ ’مرزا میں لاکھ کمزوریاں سہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا بہادر انسان تھا۔ انہوں نے اپنے مشیروں سے کہا کہ ایک جزوی ملک کے لیے ہتھیار ڈال دینا جو کسی کا ملک نہیں ہے، اور ایسے تن کے لیے آسائش ڈھونڈنا جو ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ہے، یہ بزدلی کے سوا کچھ نہیں، اور یہ امر شجاعت اور مردانگی کے خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنا ملک مفت دشمن کے سپرد کردے'۔
میں نہیں جانتا کہ مرزا جانی بیگ نے یہ جملے اس طرح ہی کہے ہوں گے یا نہیں۔ مگر مجھے اتنا یقین ہے کہ اس کے بعد جس طرح، خان خاناں سے جنگ لڑی گئی تھی وہ ان جملوں کی کیفیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور سیہون سے نصرپور اور نصرپور سے ننگر ٹھٹہ تک ایک ایسی جنگ ہوتی نظر آتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہےکہ اگر خوف پر قابو پالیا جائے تو اسی خوف کی زمین پر بہادری کے نخلستان پھوٹ پڑتے ہیں۔ میدانِ جنگ میں لڑتے لڑتے جب آپ تھک جاتے ہیں تو ان بے خوف نخلستانوں کی چھاؤں اور چشموں کا ٹھنڈا شیرین پانی آپ کو ہمت سے بھرے نئے راستے دکھاتا ہے۔
جنگ کے پہلے دن دونوں طرف کے کئی لوگ تہہ تیغ ہوئے۔ وہ 1591ء کے اکتوبر کی 24 تاریخ تھی اور جمعرات کا سورج ڈھل رہا تھا۔ دونوں جنگی کیمپوں سے دھوئیں کی ایک لکیر اٹھتی تھی کہ اکتوبر کے ان دنوں میں شام کو ہوا نہیں چلتی۔ یہ دھواں ان چولھوں سے اٹھتا تھا جہاں رات کی خوراک پکانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ کل جنگ کے میدان میں اس خوراک سے بنا خون جو بہنا تھا۔
مرزا جانی بیگ جہاں بہادر تھا وہاں خرچہ کرنے کے معاملے میں بڑا شاہ خرچ تھا۔ جس کی وجہ سے جنگ کے دوران پیسے کی کمی ہونے لگی۔ اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ خشکی کے راستے سے خان خاناں کے لیے دارالخلافہ سے جو خزانہ آتا ہے وہ چھین لیا جائے۔
نسیانی لکھتے ہیں کہ ’جانی بیگ نے ابوالقاسم ولد شاہ قاسم ارغون کو ایک جمعیت کے ساتھ وہاں بھیجا جہاں خشکی کے راستے سے خزانہ آتا تھا۔ رات کے وقت جب انہوں نے پڑاو کیا تو اچانک ان پر ٹوٹ پڑے اور خزانہ چھین لیا۔ البتہ ابوالقاسم کے بہت سارے لوگ مارے گئے۔ خزانے کو لوٹنے کا یہ واقعہ یہاں محض اس لیے تحریر کیا گیا ہے کہ ان شب و روز کی ایک نفسیاتی کیفیت کو محسوس کیا جاسکے۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو ان دنوں دارالسلطنت سے ایک چھوٹے سے ملک کا بِھڑ جانا بھی بڑی بہادری تھی اور پھر جب دن و رات جنگ کے میدان آباد ہوں اور راجستھان اور گجرات کی طرف سے اکبر، خان خاناں کی مدد کے لیے فوجیں بھیج رہا ہو ایسے میں خزانہ چھین لینا بالکل ایسا تھا جیسے آپ جلتی آگ پر تیل چھڑک دیں۔ مگر جانی بیگ نے پھر بھی یہ کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاقتور قوت ارادی کا مالک تھا اور سخت سے سخت حالات میں بھی وہ فوری فیصلے کر لیتا تھا۔
ان دنوں کے متعلق آپ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیں آپ کو مرزا جانی بیگ بہادری سے لڑتا نظر آئے گا۔ آخری معرکے میں ہمیں جانی بیگ جنگ کے میدان میں جیتتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مگر اچانک آندھی چلنے اور ہاتھی کے بھڑک جانے سے جنگ کا منظرنامہ بدل جاتا ہے اور مرزا جانی ہارتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر وہ ہمت نہیں ہارتا اور کشتیوں پر سفر کرتا انڑپور پہنچتا ہے اور وہاں اکبری فوج کو روکنے کے لیے کوششیں کرتا ہے تاکہ خان خاناں ننگر ٹھٹہ تک نہ پہنچ سکے۔ مگر یہاں ہمیں جانی بیگ تھکا ہوا اور مایوس لگتا ہے کہ فوج کا ایک بہت بڑا حصہ اسے چھوڑ کر ننگر ٹھٹہ چلا گیا تھا۔ یہ کیفیت ہمیں اس کے اس خط سے معلوم ہوتی ہے جو اس نے اپنے والد (مرزا پایندہ بیگ) کو لکھا تھا کہ ’حالات نہایت مایوس کن ہیں، میرا مشورہ ہے کہ آپ محل والوں، مال و دولت اور خاص آدمیوں کو لے کر ننگر ٹھٹہ سے کلاکوٹ چلے جائیں۔ لوگوں کو شہر سے نکال کر ٹھٹہ کے ہر کوچہ و بازار میں آگ لگادیں۔ اس طرح جہاں تک بھی دسترس ہو، ہر پرگنے، قصبے اور گاؤں کو برباد کردیں۔ ہر گاؤں اور شہر میں 3 دن تک منادی کرائیں کہ وہاں کا ہر آدمی آبادی کو اس طرح چھوڑے کہ وہ ویرانہ بن جائے‘، اور پایندہ بیگ نے ایسا ہی کیا۔
ان دنوں تاریخ میں ہمیں ایک نام نظر آتا ہے ’گوریو‘ (مہتو)۔ یہ مرزا جانی بیگ کے نزدیک رہنے والا انتہائی اہم آدمی تھا۔ یہاں تک کہ ’ترخان نامہ‘ کا مولف اسے ’مدارالمہام‘ کا لقب دیتا ہے۔ جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا اہم آدمی تھا۔ میں اس پہیلی کو کبھی نہیں سمجھ سکا کہ جو قریبی ہوتے ہیں، جن کے سروں پر آپ کی شفقت ہو، جن پر آپ کے اعتماد کی سرحدیں آکر ختم ہوں وہی وجود آپ کی پیٹھ میں خنجر گھونپتا ہے۔ جانی بیگ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ’گوریو‘ نے غداری کی، جانی بیگ کے طرف کی جو بھی معلومات تھی وہ اپنے آدمیوں کی مدد سے خان خاناں تک پہنچاتا رہا اور ساتھ میں صلاح و مشورے بھی دیتا رہا کہ جانی بیگ کو کس طرح اور کہاں کہاں کمزور کیا جا سکتا ہے اور وہ اپنی اس چال میں کامیاب بھی ہوا۔
ناکامیوں کے اس موسم میں جانی بیگ کے والد ’مرزا پایندہ بیگ‘ اور بیٹا ’میر ابوالفتح‘ اس فانی جہاں کو چھوڑ کر منوں مٹی کے نیچے دفن ہوئے۔ جنگ کے میدان کا ذہنی دباؤ انسان ایک حد تک برداشت کرسکتا ہے۔
تاریخ فرشتہ نے تحریر کیا ہے کہ ’جنگ فقط 2 ماہ چلی مگر جو حالات، واقعات اور مفاصلے تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کا کم سے کم عرصہ بھی 6 سے 10 ماہ ضرور رہا ہوگا اور ان 10 ماہ کے 600 شب و روز نے دونوں طرف کے لوگوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دیا تھا۔
میرے سامنے جو تاریخ کی کتابیں ہیں ان میں ’صلح‘ کے حوالہ سے متضاد آرا ہیں۔ کچھ مولف لکھتے ہیں کہ جانی بیگ نے اور کچھ لکھتے ہیں کہ خان خاناں نے صلح کا پیغام بھیجا، اور اسی طرح بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیہون کا قلعہ خان خاناں کے حوالہ کیا گیا۔
ترخان نامہ میں تحریر ہے کہ ’بات چیت اور قلعہ حوالے کرنے کے بعد مرزا جانی بیگ ٹھٹہ گیا اور خان خاناں نے بارش کا موسم ’سن‘ میں گزارا۔ جاڑوں کی ابتدا ہوئی تو پھر جانی بیگ کی طرف متوجہ ہوا۔ ’فتح باغ‘ جہاں ہمایوں نے اپنے خاندان اور بیٹے کے ساتھ اندازاً 2 برس کے قریب وقت گزارا تھا۔ وہاں خان خاناں اور جانی بیگ کی ملاقات ہوئی۔ جہاں خان خاناں نے جانی بیگ کو یقین دلایا کہ وہ خود بادشاہ سے سفارش کرکے یہ ملک اس کو واپس کردے گا۔
کتنا عجیب محسوس کیا ہوگا جانی بیگ نے جب وہ خان خاناں کے ساتھ ننگر ٹھٹہ کی گلیوں، تغلق آباد کے قلعے اور لاڑی بندر کو، ساتھ ساتھ دیکھنے گئے ہوں گے کہ وہ جانی بیگ جو ان سارے مقامات کا مالک تھا وہ مالک سے محکوم کی حیثیت میں ساتھ تھا۔ وہ لاڑی بندر سے منوڑہ بھی گئے۔ واپسی میں ننگر ٹھٹہ میں جشن منایا گیا۔ جشن ختم ہوا تو مرکزی حکومت سے شاہی فرمان پہنچا کہ ’خان خاناں، دولت خان لودھی اور خواجہ مقیم کو ملک کے انتظام کے لیے نائب مقرر کرکے اور مرزا جانی بیگ کو اپنے ہمراہ لے کر فوراً دارالسلطنت پہنچے‘۔
اس طرح جانی بیگ 27 مارچ 1593ء ہفتے کے دن اکبر کی بارگاہ میں پیش ہوا اور 8 برس تک اکبر کے دربار میں رہا۔ ان 8 برسوں میں، جانی بیگ کے حوالے سے جو واقعات ہمیں ملتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اکبر کے ساتھ کبھی خوش نہیں رہا۔ جتنا عرصہ بھی رہا مجبوری میں ہی رہا اور ذلت کے لمحات انسان کو مستقل ستا تے رہتے ہیں جس سے بچنے کے لیے لوگ شراب کا سہارا لیتے ہیں کہ تلخ لمحات کو اس میں ڈبو دیا جائے۔ جانی بیگ نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔
طبقات اکبری کے مطابق ’جانی بیگ شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے بیمار ہوا اور رعشہ و سرسام میں مبتلا ہوکر 1فروری 1601ء بروز جمعرات برہان پور میں وفات پائی۔ سانس کی ڈور ٹوٹتی ہے تو دنیا کے سارے زندانوں سے چھٹکارہ مل ہی جاتا ہے۔ اکبر کا عناد بھی اس ڈور کے ساتھ ہی تھا۔ ڈور ٹوٹی تو احکامات کے مطابق مرزا جانی بیگ کی لاش کو ٹھٹہ پہنچایا گیا اور مکلی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
مکلی کے شہرِ خموشاں میں مرزا جانی بیگ کا اپنی طرز کا ایک الگ مقبرہ ہے۔ اگر آپ 8 کونوں والے اس مقبرے کے اندر جاتے ہیں تو شام کے ویران لمحات میں آپ کو 2 قبریں نظر آتی ہیں۔ ایک مرزا جانی بیگ کی اور دوسری اس کے بیٹے مرزا غازی بیگ ترخان کی۔ گزرے زمانوں میں غازی بیگ کے متعلق کچھ حیرت انگیز کہانیاں اور حقیقتیں موجود ہیں۔ یقیناً کسی اور نشست میں ہم اپنا کچھ وقت غازی بیگ کے ساتھ ضرور گزاریں گے۔
حوالہ جات
۔ ’دربار اکبری‘ ۔ محمد حسین آزاد۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’تاریخ فرشتہ‘ ۔محمد قاسم فرشتہ۔ المیزان، ناشران و تاجران کتب، لاہور
۔ ’تاریخ ہندوستان‘ ۔ مولوی ذکا اللہ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ ابوبکر شیخ ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’ترخان نامہ‘ ۔ سید میرمحمد بن جلال ۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’تاریخ سندھ‘ ۔ اعجازالحق قدوسی ۔ سندھیکا اکیڈمی کراچی
۔ ’تاریخ طاہری‘ ۔ طاہر محمد نسیانی ۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں