امریکی صدارتی انتخاب: ووٹنگ سے صدر منتخب ہونے تک کے مراحل
امریکی صدارتی انتخاب ایسے وقت میں ہونے جارہا ہے جب کورونا کی عالمی وبا نے امریکا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور 2 لاکھ سے زائد جانیں اس کا نشانہ بن چکی ہیں، جس کے نتیجے میں امریکی عوام کی غیرمعمولی تعداد بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کو ترجیح دے رہی ہے جبکہ گزشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مطابق کثیر تعداد نے قبل از ووٹ میں براہ راست ووٹ کاسٹ کرنے کو ترجیح دی۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 3 نومبر سے قبل ہی زیادہ تر ووٹنگ مکمل ہوجائے گی لیکن کیا یہ عمل ووٹوں کی گنتی اور فاتح کے اعلان کی طرح سادہ ہے؟
یو ایس الیکشن پروجیکٹ کے اعداد وشمار کے مطابق الیکشن سے 6 دن قبل 28 اکتوبر تک امریکا کے 15 کروڑ ووٹرز میں سے 7 کروڑ امریکیوں نے ووٹ کاسٹ کردیا تھا جو تاریخ ساز رفتار ہے اور یہ ایک صدی کا سب سے بڑا ٹرن آؤٹ ہوسکتا ہے۔
تازہ اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ قبل از ووٹنگ میں ڈیموکریٹس کو دو-ایک کی برتری حاصل ہے لیکن ری پبلیکنز نے حالیہ ہفتوں میں براہ راست ووٹنگ میں اس مارجن کو مزید کم کردیا ہے۔
لیکن کیا محض مزید ووٹ حاصل کرنے سے جیت یقینی ہوگی؟
وضاحت کے لیے پڑھیے:
صدارتی اُمیدواروں کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
امریکی آئین کے مطابق صدارتی اُمیدوار کے لیے تین بنیادی شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے۔
اُمیدوار کو امریکا کا پیدائشی شہری، کم از کم 35 سالہ اور 14 سال سے امریکا میں مقیم ہونا چاہیے۔
امریکا کی صدارت کے لیے ان بنیادی شرائط کے باوجود اب تک کوئی خاتون صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے منتخب نہیں ہو پائیں اور باراک اوباما ملک کی تاریخ کے واحد صدر ہیں جو افریقی نژاد امریکی ہیں۔
امریکا میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن دو مرکزی جماعتیں ہیں جنہیں گرینڈ اولڈ پارٹی (جی او پی) بھی کہا جاتا ہے، ان جماعتوں کی جانب سے اپنے اُمیدواروں کو حتمی شکل دینے سے قبل تمام ممکنہ اُمیدواروں کو پارٹی کے اندر ہی ریاستوں کی سطح پر مقابلے کی طویل سیریز میں جانا پڑتا ہے جس کو ‘پرائمریز’ اور ‘کوکیسز’ کا بھی نام دیا جاتا ہے۔
ان مقابلوں میں ہر اُمیدوار کو پارٹی کے نیشنل کنونشن سے پہلے زیادہ ڈیلیگیٹس جمع کرنے کا ہدف ہوتا ہے، کنونشن سے جہاں دونوں جماعتوں کو اپنے باصلاحیت اُمیدواروں کو نمایاں کرنے کا موقع ملتا ہے وہیں نئے سیاست دانوں کے ابھرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔
اس کی ایک مثال 2004 میں ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن کی ہے جس میں باراک اوباما نامی ایک نوجوان نے تقریر کی، وہ اس وقت ایک ریاست کے سینیٹر تھے لیکن ان کے کلیدی خطاب نے ان کے لیے 4 برس بعد صدارت کا عہدہ حاصل کرنے کا راستہ ہموار کیا۔
پاپولر ووٹ اُمیدوار کی جیت کا فیصلہ نہیں کرتا
قانون کے مطابق الیکشن کا دن انتخاب کے لیے نومبر کے پہلا منگل ہوتا ہے، حیران کن طور پر گزشتہ انتخاب میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اُمیدوار کو کامیابی نہیں ملی تھی اور یہی وہ مرحلہ ہے جب الیکٹورل کالج کا تصور اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
واضح رہے کہ الیکٹورل کالج ایک عمل ہے اور اس کا مطلب حقیقی کالج ہر گز نہیں ہے۔
انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی اُمیدوار اکثر ووٹ کے حصول کے بغیر صدر نہیں بن پاتا بلکہ الیکٹورل ووٹس میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے، ہر ریاست میں اس کی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر الیکٹورل ووٹ مختص ہوتے ہیں اور جو اُمیدوار ایک خاص ریاست میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو توقع کی جاتی ہے کہ وہ ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹس حاصل کر پائے گا۔
امریکی صدارتی انتخاب کے لیے مجموعی طور پر 538 الیکٹورل ووٹس ہیں اور ایک اُمیدوار کو جیت کے لیے 270 الیکٹورل ووٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔
بی بی سی کے مطابق اس بات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یوں کہیں گے کہ جب امریکا کے عوام الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ براہ راست صدر کے لیے ووٹ نہیں دیتے بلکہ لوگوں کے ایک ایسے گروپ کو ووٹ دیتے ہیں جو بعد میں صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتا ہے۔
یہاں لفظ ‘کالج’ کا سادہ مطلب مشترکہ مقصد سے جڑے لوگوں کا ایک گروپ ہے، الیکٹورل کالج کا اجلاس ہر 4 سال میں الیکشن کے ایک دن بعد ہوتا ہے تاکہ کام جاری رکھا جائے۔
واشنگٹن کے معروف لبرل تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پروگریس کے مطابق ہیلری کلنٹن نے 2016 میں قومی مقبولیت کی ووٹنگ میں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی لیکن ٹرمپ نے 30 ریاستوں اور 304 الیکٹورل کالج ووٹ کے ساتھ اگلے 5 برس تک صدارت کے لیے فتح حاصل کرلی۔
دوسری جانب کسی بھی اُمیدوار کے لیے ایک ریاست میں کامیابی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ منتخب افراد ان کو ووٹ دینے کے پابند ہیں۔ نیشنل کانفرنس اسٹیٹ لیجسلیچرز کے مطابق منتخب افراد کے حوالے سے کوئی ایسا وفاقی قانون یا آئینی شق نہیں ہے جس کے تحت وہ اس پارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہیں جس نے انہیں منتخب کیا تھا۔
چند ریاستیں زیادہ اہم ہیں
امریکا کی اکثر ریاستوں کو سیاسی نکتہ نظر سے تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن میں سے چند ڈیموکریٹس یا ری پبلکنز کے درمیان ووٹنگ کی ‘سوئنگ’ ہوتی ہیں اور ان ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس یا گھمسان مقابلے کا میدان کہا جاتا ہے تاہم حالیہ تاریخ اور پولز میں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ریاستیں نیلی ہیں یا سرخ ہیں اسی لیے ان ریاستوں کو صدارتی دوڑ میں فیصلہ کن کہا جاسکتا ہے۔
عام طور پر اُمیدوار ان چند اہم ریاستوں میں پیسہ جھونک دیتے ہیں اور فیصلہ کن ووٹ کے حصول کے لیے مہم پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔
امریکا میں 6 بڑی ریاستیں ہیں جو کامیابی اور ناکامی کا باعث ہوسکتی ہیں اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کا جھکاؤ کس طرف ہے، 2020 کی صدارتی دوڑ میں مشی گن، ویسکونسن، پنسلوانیا، فلوریڈا، نارتھ کیرولینا اور ایریزونا 6 بڑی ریاستیں ہیں اور مجموعی طور پر ان 6 ریاستوں کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد 101 ہے۔
ستمبر میں این پی آر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جوبائیڈن کی مہم اور ان کے حامی گروپ اپنے 90 فیصد اخراجات ان ریاستوں میں کر رہے ہیں جبکہ ٹرمپ اور ری پبلکن تنظیمیں ایک ڈالر کے 78 سینٹ ان 6 ریاستوں میں صرف کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘ان ریاستوں میں انتخابی مہم سے حاصل ہونے والے ٹی وی اشتہارات کے پیسے کا بڑا حصہ آتا ہے اور دیگر گروپ باہر سے ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں’۔
لیکن یہ ریاستیں اس قدر اہم کیوں ہیں؟ وہ اس لیے کہ یہ درمیانی یا بڑی ریاستیں ہیں اور کیونکہ الیکٹورل ووٹ کا تعین آبادی کے لحاظ سے ہوتا ہے اور یا پھر یہ ریاستیں سیاسی حوالے سے متوازن ہیں جبکہ معمولی فرق بھی حتمی نتیجہ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب 2016 کی ایک اور مثال سامنے ہے کہ ٹرمپ نے ان 6 میں سے 3 ریاستوں میں کامیابی حاصل کی تھی جن میں فلوریڈا، نارتھ کیرولینا اور پنسلوانیا شامل ہیں اور یہ اشتراک ان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے اہم ہے اور کیا ٹرمپ سوئنگ اسٹیٹس میں اپنا تسلط برقرار رکھ پائیں گے؟
کیا ووٹنگ صدر اور نائب صدر کے لیے ہوتی ہے؟
نومبر کا انتخاب صرف صدر اور نائب صدر کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ کانگریس کے نئے اراکین کے لیے بھی ہوتا ہے جو امریکا کا قانون ساز ایوان ہے اور ایوان نمائندگان اور سینیٹ اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔
کانگریس کے انتخابات ہر دوسال بعد ہوتے ہیں، وسط مدتی انتخابات صدارتی انتخاب کے درمیانی عرصے میں ہوتے ہیں، عوام ایوان نمائندگان کے اراکین اور سینیٹ اراکین کی ایک تہائی تعداد کو منتخب کرتے ہیں۔
کانگریس کے انتخابات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پاپولر ووٹ کامیاب اُمیدوار کا تعین کرتا ہے، رواں برس کا مقابلہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ڈیموکریٹس سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں جہاں اس وقت ری پبلکنز کو برتری حاصل ہے۔
لیکن اس کی امریکی صدارتی انتخاب کے لیے اہمیت کیوں ہے؟
الجزیرہ نے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سینیٹ وفاقی قانون سازی اور مشورے اور اعتماد کے ذریعے صدارت کو تقویت بخشتی ہے کیونکہ صدر کے کئی فیصلوں کی سینیٹ سے منظوری کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس کی تازہ مثال سپریم کورٹ کے ایک جج کی تعیناتی ہے جہاں جسٹس رتھ بیدر گینسبرگ کی وفات کے بعد ایک نشست خالی ہوگئی تھی، ٹرمپ کی خواہش تھی کہ ان کی جگہ کنزرویٹو ایمی بیریٹ کو تعینات کیا جائے لیکن سینیٹ میں ری پبلکنز کی اکثریت ہے اور منظوری کا اختیار ان کے پاس تھا اس لیے ان کا فیصلہ حتمی تصور ہوتا ہے۔
نیوز ویک کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں اکثریتی رہنما مچ مک کونل نے خود کو سوشلسٹ منصوبوں کے خاتم کا لقب دے رکھا ہے اور پھر نتیجتاً ڈیموکریٹس کے اکثریتی ایوان سے منظور شدہ قانون سازی بھی رکی ہوئی ہے، رواں برس فروری میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ سینیٹ میں 395 بلز روک دیے گئے ہیں اور منظور نہیں ہو رہے ہیں اس کی وجہ ان بلز کا بائیں بازو کے طرز کا حل ہے۔
اسی لیے ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز دونوں صرف صدارت کے حصول کی کوشش نہیں کرتے بلکہ کانگریس کی بالادستی بھی چاہتے ہیں جس سے انہیں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
انتخاب کے بعد کا مرحلہ
پولنگ مکمل ہوتے ہی گنتی کا مشکل مرحلہ شروع ہوجاتا ہے جو سینیٹ کے ذریعے تکمیل کو پہنچتا ہے، ایک دفعہ جب ووٹوں کی گنتی مکمل ہوجاتی ہے اور ریاستیں اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں تو یہ نمائندے صدر کے لیے اپنا ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں۔
نئے سال کے آغاز پر ہی جنوری میں نئی کانگریس حلف اٹھاتی ہے جس کے بعد انتخابات جیتنے والے اُمیدوار کے باقاعدہ اعلان کرنے کے لیے الیکٹورل ووٹس کی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔
تاہم اگر کوئی اُمیدوار اکثریت حاصل نہیں کر پایا تو فیصلے کی کنجی ایوان نمائندگان کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جبکہ سینیٹ نائب صدر کے لیے ووٹ دیتی ہے۔
امریکا کے اس سارے نظام پر ایک سوال ہے کیونکہ ٹرمپ اعلان کرچکے ہیں کہ اگر وہ نومبر کا انتخاب ہار گئے تو پرامن انتقال اقتدار نہیں کریں گے، وہ کہہ چکے ہیں کہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا جہاں میل-ان ووٹنگ پر ان کے خدشات کو اجاگر کیا جائے گا جو وبا کے باعث بہت زیادہ مشہور ہوچکا ہے۔
حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو امریکا اور دنیا کو 3 نومبر سے زیادہ طویل انتظار کرنا پڑے گا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
مرتب کردہ: ثنا چوہدری
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔