چاند کے روشن حصوں میں پہلی بار پانی دریافت
امریکی خلائی ادارے ناسا نے پہلی بار تصدیق کی ہے کہ چاند کے سورج کی روشنی کی زد میں رہنے والے حصے میں بھی پانی موجود ہے اور یہ سرد اور سائے والے علاقوں تک محدود نہیں۔
ناسا کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ادارے کی Stratospheric آبزرویٹری فار انفراریڈ آسٹرونومی (صوفیہ) نے یہ دریافت کی۔
اس آبزرویٹری نے پانی کے مالیکیولز (ایچ 2 او) کو زمین کی جانب چاند کے چہرے کلاویوس کارٹر میں دریافت کیا جو چاند کے جنوبی قطب میں واقع ہے۔
اس سے قبل چاند کی سطح پر ہائیڈروجن کی کچھ اقسام کو دریافت کیا گیا تھا مگر پانی اور اس کے قریبی کیمیائی رشتے دار ہائیڈروآکسل (او ایچ) میں فرق نہیں کیا جاسکا تھا۔
اس مقام کے ڈیٹا سے انکشاف ہوتا ہے کہ فی ملین 100 سے 412 حصوں میں پانی موجود ہے جو کہ پورے چاند کی سطح میں پھیلا ہوا ہے۔
اس دریافت کے حوالے سے تحقیق کے نتائج جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہوئے۔
ناسا کے آسٹروفزکس ڈویژن کے ڈائریکٹر پال ہرٹز نے بتایا 'ہمیں ایچ 2 او کے اشارے ملے تھے، کہ وہ چاند کے سورج کے رخ والے حصے میں ہوسکتا ہے، مگر اب ہم جانتے ہیں کہ وہ موجود ہے، یہ دریافت چاند کی سطح کے بارے میں ہمارے فہم کو چیلنج کرے گی اور اس سے سوالا اٹھتے ہیں کہ کیا ہم خلاا کی کھوج کے لیے ان وسائل کو استعمال کرسکتے ہیں'۔
ناسا کے مطابق چاند کی سطح پر دریافت کیے جانے والے پانی کی مقدار کا موازنہ صحرائے اعظم صحارا سے کیا جائے تو اس صحرا میں سو گنا زیادہ مقدار میں پانی موجود ہے، تاہم کم مقدار کے باوجود اس دریافت سے یہ سوال پیدا ہوتا کہ چاند کی مشکل اور ہوا سے محروم سطح پر پانی کیسے بنا اور برقرار رہا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پانی خلا کی گہرائی میں ایک قیمتی ذریعہ ہے اور زندگی کے لیے اہم ترین جز ہے، ابھی یہ تعین کرنا باقی ہے چاند پر دریافت ہونے والے پانی تک استعمال کے لیے رسائی آسان ہے یا نہیں۔
مگر ناسا کا کہنا تھا کہ ہم پانی کی دریافت پر پرجوش ہیں کیونکہ یہ ادارہ آرٹیمز پروگرام کے تحت پہلی بار ایک خاتون اور ایک مرد کو چاند کی سطح 2024 کو بھیجا جائے گا۔
1969 میں جب پہلی بار خلا باز چاند پر پہنچے تھے تو یہ مانا جاتا تھا کہ وہ مکمل طور پر خشک ہے مگر گزشتہ 20 برسوں کے دوران مختلف مشنز میں چاند کے قطبی علاقوں میں تاریکی میں چھپے گڑھوں میں برف کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان مشنز کے دوران چاند کے روشن مقامات والی سطح ہر ہائیڈریشن کے شواہد دریافت ہوئے تھے مگر وہ یہ شناخت نہیں کرسکے تھے کہ یہ ایچ 2 او ہے یا او ایچ۔
تحقیقی ٹیم کی قائد کیسی ہونی بال نے بتایا 'صوفیہ کے مشاہدات سے قبل ہم یہ جانتے تھے کہ چاند پر کسی قسم کی ہائیڈریشن موجود ہے، مگر ہم نہیں جاتنے کہ کہ کتنی مقدار میں، اور یہ پانی کے مالیکیولز ہے یا کچھ اور'۔
تحقیق کے دوران بوئنگ 747 ایس پی جیٹ لائنر کے ساتھ 106 انچ ڈایامیٹر والی ٹیلی اسکوپ کو استعمال کرکے زمین کی سطح پر پانی کے بخارات کا واضح نظارہ کیا گیا تھا۔
صوفیہ ٹیلی اسکوپ کے اس فینٹ آبجیکٹ انفراریڈ کیمرا کی مدد سے چاند کے روشن حصوں میں یہ حیرت انگیز دریافت کی۔
کیسی ہونی بال نے کہا 'بغیر کسی ماحول کے چاند کے روشن حصوں میں پانی خلا میں گم ہوسکتا تھا، مگر کسی طرح ہم اسے دیکھ سکے، کسی وجہ سے یہ پانی بنا اور کسی وجہ سے وہاں پھنسا رہ گیا'۔
ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے صوفیہ کی پروازوں کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ مستقبل میں چاند کے لیے انسانی مشن کے لیے پانی کے وسائل کا پہلا نقشہ تیار کیا جاسکے۔
نیچر آسٹرونومی کے اس شمارے میں ناسا کے ماہرین کی ایک اور تحقیق بھی شائع کی گی جس میں بتایا گیا کہ یہ پانی چھوٹے سائے والے حصوں میں پھنسا ہوسکتا ہے جہاں کا درجہ حرارت منفی سینٹی گریڈ تک ہوسکتا ہے اور یہ سلسلہ پورے چاند تک پھیلا ہوسکتا ہے۔
ناسا کے انسانی ایکسپلوریشن اینڈ آپریشنز مشن ڈائریکٹوریٹ کے چیف سائنسدان جیکب بلیچر کا کہنا تھا کہ پانی ایک قیمتی وسیلہ ہے، اگر ہم چاند کے وسائل کو استعمال کرکے تو ہمیں بھیجے جانے والے مشنز کے ساتھ کم پانی بھیجنے کا موقع ملے گا اور زیادہ آلات بھیج سکیں گے تاکہ نئی سائنسی دریافتیں کی جاسکیں۔