ملیے ان سے، جن سے جانور بھی پیار کرتے ہیں
صبح کا وقت ہے اور شہر کے بیشتر لوگ ابھی سوئے ہوئے ہیں، لیکن 4 نوجوان گاڑی میں خوراک ڈال کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہورہے ہیں۔
گزشتہ 5 ماہ سے ان نوجوانوں کا یہ معمول ہے کہ صبح سویرے پشاور کے مختلف علاقوں میں آوارہ کتوں کو تلاش کرکے انہیں خوراک فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے اس رضاکارانہ کام کا آغاز اس وقت کیا جب کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورا شہر بند تھا اور لوگ خوف کے باعث گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔
ایسے میں ان نوجوانوں نے گلی محلوں میں خوراک کے لیے دربدر پھرنے والے آوارہ کتوں اور پرندوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا۔ ان نوجوانوں کا تعلق یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ پر مشتمل ایک غیر سرکاری تنظیم سے ہے جو رضاکارانہ طور پر شہر میں فلاحی کام سرانجام دے رہی ہے۔
یہ تنظیم اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہی ہے اور انہیں کسی ادارے کی طرف سے کوئی معاونت حاصل نہیں۔ تنظیم کے بیشتر رضاکار فلاحی کاموں کے لیے مالی تعاون بھی خود ہی کرتے ہیں۔
تنظیم کے سربراہ شہزاد حنیف کا کہنا ہے کہ ایک خاتون نے آوارہ جانوروں کو خوراک دینے کے لیے تمام تر اخراجات کی ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے۔
خوراک کی تیاری کے حوالے سے شہزاد حنیف بتاتے ہیں کہ ’وہ ایک بڑے سے دیگچے میں مرغی کے گوشت کو پانی میں ابال کر اس کی یخنی تیار کرتے ہیں جس میں روٹیاں بھی ملائی جاتی ہیں اور پھر اسے شہر کے مختلف علاقوں میں آوارہ جانوروں کو کھلایا جاتا ہے‘۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’خوراک کی تیاری میں بڑی محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ رات 3 بجے سے یہ کام شروع ہوتا ہے اور اس میں تقریباً 3 گھنٹے لگ جاتے ہیں‘۔
ان رضاکاروں نے یہ کام لاک ڈاؤن کے دوران شروع کیا تھا تاہم صورتحال میں بہتری آنے کے بعد بھی یہ سرگرمی بدستور جاری ہے۔ رضاکاروں کے مطابق روزانہ تقریباً 150 کتوں کو خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ شہر کے بعض علاقوں میں لوگوں کی جانب سے نشاندہی کرنے پر دیگر جانوروں کو بھی خوارک فراہم کرنا شروع کردی ہے۔
شہر میں لوگوں کے ہجوم اور ٹریفک میں کمی کی وجہ سے صبح کے وقت جانوروں کو خوراک دینے کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ وہ آرام سے کھانا کھا سکیں۔ شہزاد حنیف کے مطابق ’کتوں کو ایک دن کھانا دیا جاتا ہے جبکہ ایک دن ناغہ ہوتا ہے‘۔
رضاکاروں کے مطابق انہیں اس فلاحی سرگرمی کے دوران کتوں کی نفسیات اور عادت کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع بھی ملا، جس میں بعض دلچسپ چیزیں بھی سامنے آئیں۔
ایک نوجوان سماجی کارکن آصف خان کا کہنا تھا کہ ’پشاور کے مختلف علاقوں میں کتوں کی نفسیات بھی مختلف ہیں۔ حیات آباد اور یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقوں میں آوارہ کتے ڈرپوک نظر آئے، انہیں اگر خوراک دی بھی جائے تو پہلے دُور بھاگ کر صرف نظارہ کرتے ہیں اور پھر تحفظ کا احساس ہونے پر قریب آکر پلیٹ سے کھانا اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ان کتوں کو ہمیشہ حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو پتھر بھی مارتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے درمیان رہ کر بھی وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پشاور کے ماڈرن علاقوں کے برعکس صدر اور گلبرگ کے کتوں کی عادتیں مختلف نظر آئیں۔ ان مقامات پر جوں ہی ہماری گاڑی داخل ہوتی ہے تو کتے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور خوش آمدید کے طور پر مخصوص انداز میں بھوکنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ہمارے پاؤں سونگھنے لگ جاتے ہیں‘۔
سماجی کارکنوں نے شہر کے گنجان آباد علاقوں میں پائے جانے والے کتوں کو ’پارٹی ڈاگز‘ کا لقب دیا ہے۔ ان کے بقول گلبہار، ہشتن گری اور فردوس سے متصل شہری علاقوں میں کتے ہمیشہ ٹولیوں کی شکل میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور ہمارے آتے ہی بغیر کسی خوف کے گاڑی کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ کتے کھانا کھانے کے بعد شکریے کے طور پر اچھلتے کودتے چلے جاتے ہیں، شاید اس انداز کی وجہ یہ ہے کہ شہری علاقوں میں رہنے والے کتوں کا انسانوں کے ساتھ رابطہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس تنظیم کے اہلکاروں کے مطابق ایک دن میں ڈیڑھ سو تک کتوں کو کھانا کھلانے کے لیے 2 سے ڈھائی ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔ مخصوص علاقوں میں قائم ہوٹلوں میں بچا کھچا کھانا بھی ان کتوں اور دیگر پرندوں کی خوراک بنتا ہے۔
کورونا کی وبا میں لاک ڈاؤن کے دوران پشاور میں صدر کے علاقے میں واقع ایک رہائشی پلازے کے چوکیدار حکیم چاچا نے پرندوں کے لیے کھانے پینے کا الگ انتظام شروع کر رکھا تھا۔ صبح اور شام کے وقت حکیم چاچا پرندوں کے لیے پلازے کی چھت اور بالکنیوں میں باجرا اور پانی میں روٹیاں ملا کر رکھ دیا کرتے تھے۔
حکیم چاچا کے مطابق ’لاک ڈاؤن اور کورونا وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی خوفناک تھی۔ انسان تو اپنی ضروریات کا انتظام کسی بھی طریقے سے کرلیتا ہے مگر پرندوں کی خوراک کا کوئی بندوبست دکھائی نہیں دے رہا تھا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ رہائشی پلازے کے سامنے درختوں میں صبح اور شام کے وقت پرندوں کا شور ایک عجیب منظر پیش کرتا تھا اور زمین پر کھانے کو کچھ نہ ملنے پر پرندے آپس میں لڑتے جھگڑتے نظر آتے تھے۔
اس سے پہلے حکیم چاچا کبھی کبھار ہی پرندوں کے لیے خوراک کا بندوبست کیا کرتے تھے مگر لاک ڈاؤن کے دوران رہائشی علاقوں اور اطراف میں کھانے پینے کے مراکز بند ہونے پر انہوں نے پرندوں کی خوراک کے انتظام کو اپنا معمول بنالیا تھا۔
حکیم چاچا کے بقول ’میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے لیکن چڑیوں اور کوؤں کی آوازیں اتنی شدید ہوتی تھیں کہ میں نے مجبوراً قرض لے کر پرندوں کو ڈالنے کے لیے باجرے کی ایک بوری خریدی‘۔
کورونا وبا کے دوران عام شہری سے لے کر حکومت تک کو اپنی کمزوریوں کا احساس ہوگیا ہے کہ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے پہلے سے حکمتِ عملی موجود ہونی چاہیے۔
شہزاد حنیف کہتے ہیں کہ قدرتی آفات اور وبائی صورتحال میں پرندوں کے تحفظ کے لیے وہ اپنی مدد آپ کے تحت ایک منصوبے پر کام کررہے ہیں جس کے تحت پشاور میں ’برڈ ہاؤس‘ بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا منصوبہ ہے جس میں پرندوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
تبصرے (8) بند ہیں