جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ جنوری سے نافذ العمل ہو گا، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے والے ایک بین الاقوامی معاہدے کی 50 ویں ملک نے توثیق کر دی ہے جس کے بعد یہ "تاریخی" متن 90 دن کے بعد نافذ کرنے کی اجازت ہو گی۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ جوہری طاقتوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں لیکن اس کے نفاذ کے لیے سرگرم کارکنوں نے اُمید ظاہر کی ہے کہ بہرحال یہ علامتی سے زیادہ ثابت ہو گا اور اس کا بتدریج عارضی اثر پڑے گا۔
مزید پڑھیں: بھارت جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی ایسا کردے گا، وزیراعظم
ہونڈورس، معاہدے کی توثیق کرنے والا 50 واں ملک بن گیا، ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے اسے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی استعمال سے ہونے والے تباہ کن انسانیت سوز نتائج کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک عالمی تحریک کا خاتمہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے ایک معنی خیز عہد کی نمائندگی کرتا ہے جو اقوام متحدہ کی اسلحے کی تخفیف کی اولین ترجیح ہے، این جی اوز نے بھی اس خبر کا خیرمقدم کیا جس میں اس معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والی 'جوہری ہتھیار تلف کرنے کی عالمی مہم' (آئی سی اے این) بھی شامل ہے۔
آئی سی اے این نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہونڈورس نے 50ویں ریاست کی حیثیت سے معاہدے کی توثیق کی جس سے اس پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور تاریخ رقم ہو رہی ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کے صدر پیٹر مورر نے ایک بیان میں کہا کہ آج کا دن انسانیت کی فتح کا دن ہے اور یہ محفوظ مستقبل کا وعدہ ہے، اقوام متحدہ کے مطابق اگست میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری حملوں کی 75 ویں سالگرہ تھی اور اس موقع پر کئی ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی جو اب 22 جنوری 2021 کو عمل میں آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان دنیا میں ہتھیار درآمد کرنے والا 11واں بڑا ملک'
جوہری ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق معاہدہ اس طرح کے ہتھیاروں کے استعمال، ترقی، پیداوار، جانچ، اسٹیشننگ، ذخیرہ اندوزی اور دھمکی پر پابندی ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 122 ممالک کی منظوری سے جولائی 2017 میں اسے اپنایا تھا۔
84 ریاستوں نے اس پر دستخط کیے ہیں البتہ تمام نے اس متن کی توثیق نہیں کی ہے۔
امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس سمیت جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں نے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کا نشانہ بننے والے واحد ملک جاپان نے فوری دستخط کو خارج از امکان قرار دیا، وزیر دفاع نوبیو کیشی نے اتوار کے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم مدد نہیں کرسکتے ہیں لیکن معاہدے کی افادیت پر سوال اٹھا سکتے ہیں کیونکہ جوہری طاقتیں اس میں شامل نہیں ہو رہیں۔
لیکن ایٹم بم سے بچنے والے سناؤ سوسوئی نے عوامی نشریاتی ادارہ این ایچ کے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی اور خاتمے کی سمت ایک بہت بڑا قدم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم واقعی چاہتے ہیں کہ جاپانی حکومت ایٹم بم سے بچ جانے والوں کی خواہش کے پیش نظر اس معاہدے میں شامل ہو۔
مہم چلانے والوں کو اُمید ہے کہ اس کے نفاذ سے وہی اثر پڑے گا جو اماضی میں بارودی سرنگوں پر پابندی کے سلسلے میں کیے گئے معاہدے سے پڑا تھا اور اس طرح ان ممالک کے رویے میں تبدیلی آئے گی جو دستخط نہیں کرتے۔
مزید پڑھیں: جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا انحصار اب حالات پر ہوگا، بھارت
آئی سی اے این نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ کمپنیاں جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور مالیاتی اداروں کو جوہری ہتھیار تیار کرنے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کردیں گی، اس اتحاد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بیٹریس فہن نے اسے "جوہری اسلحے کی تخفیف کا ایک نیا باب" قرار دیا ہے۔
'کئی دہائیوں کی سرگرمی نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ ناممکن ہے: یہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کا کہنا ہے کہ ان کے اسلحہ خانے ان ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کا کام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے پابند ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس کے علاوہ روس اور امریکا ایک عرصے سے جاری بات چیت میں ایک تعطل کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا مقصد ان کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے معاہدے کو بڑھانا ہے۔