انسان پیدائشی طور پر الفاظ 'دیکھ' سکتا ہے، تحقیق
انسانوں میں پیدائشی طور پر دماغ کا ایک ایسا حصہ ہوتا ہے جس میں ایسا نظام ہوتا ہے جو الفاظ اور حروف کو دیکھتا ہے اور اس طرح لوگوں کو پڑھنے میں مدد ملتی ہے۔
یہ بات ایک نئی امریکی تحقیق میں سامنے آئی۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں نومولود بچوں کا دماغی اسکین کرنے پر دماغ کے اس حصے کو دریافت کیا گیا جسے ویژول ورلڈ فرام ایریا (وی ڈبلیو ایف اے) کا نام دیا گیا، جو دماغ کے زبان کے نیٹ ورک کو جوڑتا ہے۔
تحقیق کے مطابق الفاظ کو دکھانے والا یہ دماغی حصہ اس عمل کو زبان سیکھنے سے پہلے زرخیر بناتا ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ وی ڈبلیو ایف اے علم حاصل کرنے والے افراد کو مطالعے میں مہارت فراہم کرتا ہے مگر اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ یہ درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ درحقیقت پیدائش کے وقت سے ہی وی ڈبلیو ایف اے دماغ کے زبان دانی کے نیٹ ورک کے افعال کو جوڑتا ہے، یہ انتہائی پرجوش دریافت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔
تحقیق کے دوران 40 نومولود بچوں کے دماغوں کے ایف ایم آر آئی اسکینز کا تجزیہ کیا گیا جن کی عمریں ایک ہفتے سے بھی کم تھیں اور وہ ڈویلپنگ ہیومین کنکٹم پراجیکٹ کا حصہ تھے۔
ان ٹیسٹوں کے نتائج کا موازنہ 40 بالغ افراد کے اسکینز سے کیا گیا جو اس پراجیکٹ کا حصہ تھے۔
وی ڈبلیو ایف اے ویژول کورٹیکس کے ساتھ ہوتا ہے جو چہروں کا تجزیہ کرتا ہے اور تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ نومولود بچوں کے ان دماغی حصوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
اشیا اور چہروں کی کچھ خصوصیات الفاظ جیسی ہوتی ہیں مگر محققین نے دریافت کیا کہ نومولود بچوں میں وی ڈبلیو ایف اے چہرے شناخت کرنے والے ویژول کورٹیکس سے مختلف ہوتا ہے، کیونکہ یہ دماغ کے زبان دانی کے عمل کرنے والے افعال کو جوڑتا ہے۔
محققین کے مطابق وی ڈبلیو ایف اے زبان کا سامنا ہونے سے پہلے ہی الفاظ کو دیکھنے میں مہارت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جاننا کافی دلچسپ ہے کہ ہمارا دماغ کیسے اور کب اپنے افعال کو حساس کاموں کے لیے تشکیل دیتا ہے۔
محققین نے بچوں اور بالغ افراد کے وی ڈی ایف اے میں کچھ فرق بھی دریافت کیے اور ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ لا ہے کہ بچوں کے باشعور ہونے سے یہ حصہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زبان کو بولنے اور لکھنے سے دماغی کنکشنز مضبوط ہوتے ہیں۔
اس وقت تحقیقی ٹیم 3 اور 4 سال کے بچوں کے دماغوں کو اسکین کرکے اس بارے میں مزید تفصیلات جمع کررہی ہے۔