• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

امریکی صدارتی انتخاب: پاکستانی، مسلم ووٹرز کی رائے اہم قرار

شائع October 25, 2020
جوبائیڈن کے مطابق میں پہلے دن سے ہی مسلمانوں پر سے پابندی ہٹادوں گا —
فائل فوٹو:اے ایف پی
جوبائیڈن کے مطابق میں پہلے دن سے ہی مسلمانوں پر سے پابندی ہٹادوں گا — فائل فوٹو:اے ایف پی

واشنگٹن: حال ہی میں امریکی نشریاتی سروس وائس آف امریکا (وی او اے) کے 5 صحافیوں کو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن کا انتخابی پیغام اردو میں نشر کرنے پر ملازمت سے محروم کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عموماً اس طرح کی خلاف ورزی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے مگر 2020 کا انتخاب مختلف ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان ہونے والے کڑے مقابلے میں تمام ووٹ اہم ہیں، یہاں تک کہ پاکستانیوں کے ووٹ کی بھی بہت اہمیت ہے اور 34 لاکھ 50 ہزار امریکی مسلمانوں میں پاکستانیوں کا واحد بڑا گروہ ہے۔

پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد میں ہزاروں پیشہ ور افراد خاص طور پر معالج شامل ہیں، جس کے باعث شاید ان کا اثرو رسوخ زیادہ ہے جبکہ یہ اس بات کی وضاحت بھی کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے وی او اے کے اردو پیغام پر اس قدر سخت ردعمل کیوں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں کتنے مراحل ہوتے ہیں؟

پاکستانی اور دیگر ووٹرز غیرمتوقع اور اہم سیاسی مقابلوں کی ریاستوں جیسے مشی گن، فلوریڈا، وسکونسن اور پینسلوینیا میں مرکوز ہیں، ان ریاستوں میں سے 2 مشی گن اور وسکونسن نے 2016 میں نتائج کو بلیو سے لال (ریپبلکن) میں تبدیل کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 2016 میں ڈیموکریٹس مشی گن میں 20 ہزار سے کم ووٹوں سے ہار گئی تھی، اس ریاست میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان ووٹرز ہیں جو ڈیموکرٹس کو دوبارہ یہ ریاست واپس دلا سکتے ہیں، اس سے یہ یقینی ہوگا کہ وائٹ ہاؤس کے لیے ضروری 435 ووٹس میں سے جوبائیڈن 270 حاصل کرلیں گے۔

مزید پڑھیں: امریکی انتخابات میں ’اکتوبر سرپرائز‘ کا کھیل جانتے ہیں؟

اس حوالے سے ایک گروپ کو اپنی شناخت ’بائیڈن کے لیے مسلمانوں‘ کے طور پر کرتا ہے اس کا کہنا تھا کہ ان کا مسلمانوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر جو بائیڈن منتخب ہوئے تو امریکی مسلمانوں پر اثرانداز ہونے والے مسائل پر ترجیح دیں گے، ان کے آئینی اور شہری حقوق کا تحفظ کریں گے اور مختلف امریکی مسلمان کمیونیٹیز کا احترام کریں گے‘، یہ ان کا مسلمانوں کے لیے واضح پیغام ہے۔

تاہم حال ہی میں سماجی پالیسی اور افہام وتفہیم کے ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ایک برس قبل کے مقابلے میں 2020 میں صدر ٹرمپ کے لیے امریکی مسلمانوں کی حمایت تقریباً دگنی ہوگئی ہے جبکہ 30 فیصد مسلمان انہیں ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسی حوالے سے کونسل آن امریکا-اسلامک ریلیشن (سی اے آئی آر) کی جانب سے کیے گئے ایک اور سروے کی رپورٹ کے مطابق 2018 سے ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے امریکی مسلمانوں کی حمایت میں 12 فیصد کمی آئی ہے جبکہ ریپبلکن پارٹی کی حمایت میں 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام، روس کے 4 شہریوں پر پابندی

علاوہ ازیں دونوں ہی سروے نے یہ نشاندہی کی کہ مذہبی گروہ کے طور پر ظاہر ہونے والے مسلمانوں کا 2020 میں صدر ٹرمپ کی حمایت کم کرنے کا امکان ہے، دوسرے نمبر پر یہودی امریکی ہیں جن میں سے صرف 34 فیصد صدر کے حمایتی ہیں، مزید یہ کہ مسلمانوں کے بعد واحد گروپ جو صدر کے لیے کم حمایت کرتے نظر آرہے وہ، وہ امریکی ہیں جو کسی بھی عقیدے سے وابستہ نہیں ہیں اور ان کی تعداد 23 فیصد ہے۔

واضح رہے کہ صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے آخری صدارتی مباحثے میں ایک بار پھر مسلمانوں کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ’مسلمانوں پر امریکا آنے کی پابندی لگائی‘ کیونکہ ’وہ مسلمان ہیں‘۔

قبل ازیں جولائی میں ملین مسلم ووٹس سمٹ سے بات کرتے ہوئے جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر منتخب ہوگئے تو مستقبل میں کسی بھی عمل کو روکنے کے لیے ’میں پہلے دن سے ہی مسلمانوں پر سے پابندی ہٹادوں گا، پہلے دن سے اور میں کانگریس میں نفرت کے جرائم سے متعلق قانون سازی کروں گا‘۔

خیال رہے کہ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بحیثیت صدر پہلی کاررروائی یہ کی تھی کہ کہ 7 مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کے امریکا میں داخلے کو روک دیا۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ تقریباً 24 کروڑ ووٹرز میں سے 2 کروڑ 30 لاکھ تارکین وطن ووٹرز ہیں، جن میں سے تقریباً 10 لاکھ مسلمان ہیں، اگرچہ یہ بڑی تعداد نہیں لیکن جب اسے ووٹنگ پیٹرن کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ ایک اہم بلاک بن جاتا ہے۔

2016 کے انتخابات میں صرف 5۔55 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا، تاہم اگر اس سال انتخاب میں 60 فیصد نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا تو کل 14 کروڑ 40 لاکھ ووٹ ہوں گے، یہ مسلمانوں سمیت 2 کروڑ 30 لاکھ تارکین وطن ووٹرز کو 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا موقع دے گا۔


یہ خبر 25 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024