• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کراچی: جیو نیوز کے ’لاپتا‘ رپورٹر علی عمران سید گھر پہنچ گئے

شائع October 24, 2020
علی عمران سید کراچی سے ’لاپتا‘ ہوئے تھے — فائل فوٹو: جیو نیوز
علی عمران سید کراچی سے ’لاپتا‘ ہوئے تھے — فائل فوٹو: جیو نیوز

کراچی میں نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے رپورٹر علی عمران سید گھر پہنچ گئے۔

بھائی طالب رضوی نے رپورٹر کے گھر پہنچنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ علی عمران ملیر میں والدہ کے گھر پہنچ گئے ہیں۔

صحافی علی عمران تقریباً 22 گھنٹے لاپتا رہنے کے بعد گھر پہنچے ہیں۔

قبل ازیں جیو نیوز نے اپنی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ میں بتایا تھا کہ علی عمران جمعہ سے لاپتا ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ علی عمران شام 7 سے 8 بجے کے درمیان اہل خانہ کو یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ آدھے گھنٹے میں واپس آجائیں گے، تاہم وہ اب تک گھر نہیں آسکے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

اس بارے میں ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ علی عمران کی گاڑی ان کے گھر کے باہر پارک ہے جبکہ وہ اپنا موبائل بھی گھر پر چھوڑ گئے تھے۔

واقعے سے متعلق ایس ایچ او تھانہ سچل ہارون کورائی نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو میں تصدیق کی تھی کہ اہل خانہ کی جانب سے درخواست جمع کروائی گئی۔

ادھر جیو نیوز انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس چیف اور ڈی آئی جی شرقی کو علی عمران کی گمشدگی سے متعلق آگاہ کردیا گیا ہے، مزید یہ کہ اہل خانہ کی جانب سے سچل تھانے میں رپورٹ بھی درج کروادی گئی ہے۔

جیو نیوز کے اظہر عباس نے کہا کہ پولیس کو اطلاع کردی گئی ہے اور انہیں علی عمران کی ’جلد اور محفوظ واپسی‘ کی امید ہے۔

بعد ازاں تھانہ سچل میں علی عمران سید کے بھائی عباس رضوی کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 اور 34 کے تحت درج ایف آئی آر کے مطابق 23 اکتوبر کی رات دس بجے علی عمران کی اہلیہ نے بذریعہ موبائل انہیں بتایا کہ ان کے شوہر 7 سے 8 بجے کے درمیان گھر سے بیکری کے بسکٹ لینے کے لیے پیدل گئے تھے جو واپس گھر نہیں آئے۔

ایف آئی آر کے مطابق اس اطلاع کے بعد وہ اپنے گھر سے بھائی کے گھر آیا جہاں کافی دیر تک علی عمران کو تلاش کیا لیکن جب کوئی پتا نہیں لگا تو ایک تحریری درخواست تھانہ سچل میں جع کروا دی۔

مذکورہ ایف آئی آر میں بھائی علی عمران کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو نامعلوم ملزمان نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اغوا کیا۔

وہیں حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے بات کی ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں‘۔

دوسری جانب رپورٹر کی گمشدگی پر سوشل میڈیا پر بھی ردعمل دیکھنے میں آیا اور ٹوئٹر پر ’برنگ بیک علی عمران‘ (BringBackAliImran) کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔

علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا کہ خدشہ ہے کہ علی عمران کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔

انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا تھا کہ حکام کو فوری طور پر ان کے ٹھکانے کا معلوم کرنا چاہیے۔

وہیں انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی علی عمران کی ’فوری رہائی‘ کا مطالبہ کیا۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی علی عمران کی گمشدگی کی مذمت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے 'اغوا'

لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے سنا ہے کہ انہیں (کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری) کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مبینہ شیئرنگ پر اٹھایا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کیپٹن (ر) صفدر کی جس انداز میں گرفتاری کی، اس سے آپ نے بہت زیادہ بدنامی کما لی ہے، اس طرح لوگوں کو اغوا کرکے حق اور سچ کی آواز دبا کر آپ مزید بدنامی نہ کمائیں’۔

مزید برآں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وہ ’پرامید ہیں اور دعا‘ کرتے ہیں کہ علی عمران جلد اپنے گھروالوں اور دوستوں سے مل جائیں گے۔

صحافی علی عمران سید کی گمشدگی پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ آزادی اظہار رائے کے حق پر حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کی منفی تصویر پیش ہوتی ہے جبکہ عمران خان کی حکومت کے دوران میڈیا کو غیرمعمولی کریک ڈاؤن کا سامنا کر رہا ہے۔

وفاقی حکومت کا نوٹس

وفاقی حکومت نے بھی کراچی میں صحافی علی عمران کی گمشدگی کا نوٹس لیا تھا۔

اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے ٹوئٹ کی کہ سیکریٹری داخلہ آئی جی سندھ سے صحافی کی جلد بازیابی کے لیے بات کی اور انہیں مذکورہ کیس اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے تمام وفاقی ایجنسیوں کی مدد کی پیشکش کی۔

وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت اہم اجلاس

ادھر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے علی عمران سید کی گمشدگی کے حوالے سے ایک اہم اجلاس بھی منعقد کیا جس میں چیف سیکریٹریز، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز، سیکریٹری داخلہ و دیگر موجود تھے۔

دوران اجلاس وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایک صحافی کا اس طرح غائب ہوجانا سوالیہ نشان ہے، صحافیوں کی گمشدگی کو عالمی طور پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، صحافیوں کا اس طرح غائب ہونا آزادی صحافت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اس موقع پر انہوں نے تمام اداروں کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ علی عمران کو بازیاب کرواکے انہیں رپورٹ دیں۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہر ادارہ الگ الگ پیش رفت رپورٹ دے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024