ملک کے 9 اضلاع میں مرد و خواتین ووٹرز میں 30 لاکھ سے زیادہ کا فرق
اسلام آباد: ملک کے نو اضلاع میں مرد اور خواتین رائے دہندگان کے مابین 30 لاکھ سے زیادہ کا فرق موجود ہے جس میں لاہور سرفہرست ہے جو ملک میں دونوں کے مابین ایک کروڑ 24 لاکھ ووٹوں کے فرق کا ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضلع کی بنیاد پر جاری کردہ ووٹرز کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے 16 اضلاع میں مرد و خواتین ووٹرز میں 2 لاکھ کا فرق ہے جبکہ لاہور اور فیصل آباد کے اضلاع میں یہ فرق 10 لاکھ سے زیادہ ہے، ان 16 اضلاع میں پنجاب کے 14 جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا کا ایک ایک ضلع شامل ہے۔
مزید پڑھیں: ووٹرز کے درمیان صنفی فرق پہلی بار کم ہوگیا
تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ جن بہت سے اضلاع میں 2018 میں مرد و خواتین ووٹرز میں فرق زیادہ تھا وہ کم ہو گیا ہے۔
لاہور میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 59 لاکھ 40 ہزار ہے جن میں 32 لاکھ 50 ہزار مرد اور 26 لاکھ 90 ہزار ہے جس سے 5 لاکھ 56 ہزار 934 ووٹرز کا صنفی فرق پیدا ہو جاتا ہے، یہ خلا 2018 کے عام انتخابات سے قبل 6 لاکھ 48 ہزار 421 تھا۔
فیصل آباد میں یہ خلا 4 لاکھ 61 ہزار 207 ووٹرز کا ہے، ضلع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 48 لاکھ 40 ہزار ہے جس میں 26 لاکھ 50 ہزار مرد اور 21 لاکھ 90 ہزار خواتین شامل ہیں، 2018 میں ووٹرز کے درمیان یہ فرق 5 لاکھ 7 ہزار 920 نفوس پر مشتمل تھا۔
ضلع گوجرانوالہ میں مرد ووٹرز کی تعداد 17 لاکھ ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 13 لاکھ 40 ہزار ہے، ان کے درمیان فرق 2018 میں 3 لاکھ 73 ہزار 920 ووٹرز کا تھا جو اب کم ہو کر 3 لاکھ 61 ہزار 530 ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ووٹرز کے درمیان صنفی فرق ایک کروڑ 27 لاکھ سے زائد تک بڑھ گیا
رحیم یار خان میں یہ خلا 2018 میں 3 لاکھ 13 ہزار تھا جو اب بڑھ کر 3 لاکھ 51 ہزار ہو گیا ہے، ضلع میں مرد ووٹرز کی تعداد 15 لاکھ 30 ہزار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 11 لاکھ 80 ہزار خواتین ووٹرز ہیں۔
کراچی (ویسٹ) میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 9 لاکھ 73 ہزار 255 اور 6 لاکھ 72 ہزار 932 ہے اور ان کے مابین فرق 3 لاکھ سے تھوڑا زیادہ 3 لاکھ 323 ووٹرز کا ہے جہاں 2018 میں یہ فرق 3 لاکھ 33 ہزار 105ووٹرز کا تھا۔
ضلع قصور میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد کے درمیان فرق 2018 میں 2 لاکھ 62 ہزار سے بڑھ کر اب 2 لاکھ 71 ہزار ہو گیا ہے، ضلع میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 11 لاکھ 40 ہزار اور 8 لاکھ 73 ہزار ہے۔
خیبر پختونخوا کا ایک واحد ضلع پشاور ہے جس میں صنفی فرق 2 لاکھ سے زیادہ ہے، یہ خلا 2018 میں 2 لاکھ 45 ہزار نفوس کا تھا جو اب بڑھ کر 2 لاکھ 61 ہزار ہو گیا ہے، ضلع میں مرد ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 50 ہزار اور خواتین ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 61 ہزار ہے۔
شیخوپورہ میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 10 لاکھ 50 ہزار اور 7 لاکھ 96 ہزار ہے اور ان کے مابین 2 لاکھ 56 ہزار نفوس کا فرق ہے، اس ضلع میں بھی صنفی فرق میں کمی کے حوالے سے بہتری دکھائی دی کیونکہ 2018 میں یہ فرق 2 لاکھ 71 ہزار کا تھا۔
مزید پڑھیں: حکومت کو گلگت بلتستان میں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابات کروانے کی اجازت
اسی طرح 2018 میں ضلع سیالکوٹ میں مرد اور خواتین ووٹرز کے مابین 3 لاکھ 18ہزار 50 ووٹرز کا فرق تھا جو اب کم ہو کر 2 لاکھ 52 ہزار 990 رہ گیا ہے، ضلع میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 13 لاکھ 90 ہزار اور 11 لاکھ 40 ہزار ہے۔
مظفر گڑھ میں یہ خلا 2018 میں 2 لاکھ 29 ہزار تھا جو اب بڑھ کر 2 لاکھ 43 ہزار رہ گیا ہے، ضلع میں رجسٹرڈ مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 12 لاکھ 40 ہزار اور 10 لاکھ 50 ہزار ہے۔
ضلع بہاولنگر میں یہ فرق 2018 میں 2 لاکھ 8 ہزار افراد کا تھا جو اب بڑھ کر 2 لاکھ 30 ہزار ہو گیا ہے، ضلع میں 9 لاکھ 65 ہزار مرد اور 7 لاکھ 35 ہزار خواتین ووٹرز ہیں۔
ضلع بہاولپور میں بھی خلا بڑھ گیا ہے، 2018 میں 2 لاکھ 7 ہزار سے بڑھ کر یہ خلا اب 2 لاکھ 18 ہزار کا ہو گیا ہے۔
ملتان میں 2 لاکھ 21 ہزار نفوس کا فرق ہے جو 2018 میں 2 لاکھ 18 ہزار تھا، ضلع میں مجموعی طور پر 27 لاکھ 90 ہزار ووٹرز ہیں ان میں 15 لاکھ مرد اور اور 12 لاکھ 80ہزار خواتین ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اگر آپ رجسٹر ووٹر نہیں تو یہ جاننا بہت ضروری ہے
وہاڑی میں 2018 میں 2 لاکھ 4 ہزار ووٹرز کا فرق تھا جو اب بڑھ کر 2 لاکھ 14 ہزار کا ہو گیا ہے، اس ضلع میں مجموعی طور پر 17 لاکھ 50 ہزار ووٹرز ہیں ان میں 9 لاکھ 85 ہزار مرد اور 7 لاکھ 71 ہزار خواتین ہیں۔
اوکاڑہ میں صنفی فرق بھی تھوڑا سا بڑھ گیا ہے جو 2018 میں 2 لاکھ 8 ہزار سے بڑھ کر اب 2 لاکھ 12 ہزار ہو گیا ہے، اس ضلع میں 18 لاکھ 90 ہزار ووٹرز ہیں جن میں 10 لاکھ 50 ہزار مرد اور 8 لاکھ 41 ہزار خواتین ووٹرز شامل ہیں۔
سرگودھا میں یہ خلا 2 لاکھ 45 ہزار سے کم ہو کر 2 لاکھ 8 ہزار پر آگیا ہے، ضلع میں ایک لاکھ 35 ہزار مرد اور ایک لاکھ 14 ہزار خواتین کا بطور ووٹرز اندراج ہے۔
خانیوال بھی ان اضلاع کی فہرست میں شامل ہیں جن میں مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان 2 لاکھ سے زیادہ کا فرق ہے، ضلع میں 2018 میں ایک لاکھ 97 ہزار نفوس کا فرق تھا جو اب 2 لاکھ 5 ہزار ہے۔
خیبر پختونخوا میں مردان میں مرد و خواتین ووٹرز میں فرق 2018 میں ایک لاکھ 99 ہزار ووٹرز کا تھا اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ فرق بدلا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں ووٹرز کا جوش و خروش
ضلع کی بنیاد پر اعدادوشمار کا جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ ملک بھر کے صرف 24 اضلاع میں خواتین رائے دہندگان کا تناسب 45 فیصد سے زیادہ ہے۔
چکوال کو خواتین ووٹرز کا تناسب سب سے زیادہ 49 فیصد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
چار اضلاع میں 48 خواتین ووٹر ہیں جن میں وفاقی دارالحکومت، راولپنڈی، اٹک اور جہلم شامل ہیں۔
خوشاب(پنجاب)، ہری پور(کے پی)، اور سوہبت پور اور واشک (بلوچستان) کی ووٹر لسٹوں میں 47 فیصد خواتین ووٹرز والے چار اضلاع ہیں، سندھ کے کسی بھی اضلاع میں 46 فیصد سے زیادہ خواتین ووٹر نہیں ہیں۔
وہ 15 اضلاع جہاں خواتین ووٹرز کا تناسب 46 فیصد ہے ان میں میانوالی، ملتان، گجرات، سرگودھا، بھکر (پنجاب)، کراچی(وسطی)، کراچی(شرقی)، شکار پور، جیکب آباد، انصرکوٹ، ٹنڈو الہ یار، مٹیاری (سندھ)، جعفرآباد، خاران (بلوچستان) اور ایبٹ آباد (کے پی) شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں صدارتی انتخاب، مسلمان ووٹرز کی بس پر فائرنگ
بلوچستان کے ضلع قلعہ عبد اللہ میں خواتین ووٹرز کی تعداد سب سے کم 36 فیصد ہے، اس ضلع میں ایک لاکھ 98 ہزار 419 مرد اور ایک لاکھ 5 ہزار 747 خواتین ووٹر ہیں۔
شمالی وزیرستان (کے پی) اور کوہلو (بلوچستان) میں 62 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 38 فیصد خواتین ووٹر موجود ہیں۔
جنوبی وزیرستان اور مہمند میں صرف 39 فیصد خواتین ووٹرز ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملیر (سندھ) وہ واحد ضلع ہے جہاں 2018 کے بعد ووٹرز کی کل تعداد میں اضافے کے بجائے کمی آئی ہے، عام انتخابات کے وقت وہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 51 ہزار 526 تھی جو اب 8 ہزار 301 ووٹرز کی کمی کے ساتھ 7 لاکھ 43 ہزار 526 ہو گئی ہے۔
البتہ ضلع میں خواتین ووٹرز کی تعداد بڑھ چکی ہے جو 2018 میں 3 لاکھ 12ہزار 360 سے بڑھ کر 3 لاکھ 14 ہزار 925 ہو گئی ہے، مرد ووٹرز کی تعداد اب 4 لاکھ 39 ہزار 166 سے کم ہو کر 4 لاکھ 28 ہزار 300 ہو گئی ہے۔