پاکستان میں کبڈی کا کھیل زوال پذیر کیوں ہے؟
پاکستان کے کبڈی شائقین 16فروری 2020ء کی شام کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب لاہور میں واقع پنجاب اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ فلڈ لائٹس کی روشنی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ساتویں کبڈی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا جارہا تھا جس میں پاکستان نے 41-43 سے بھارت کو ہرا دیا تھا۔ اس سے پہلے گزشتہ تمام کبڈی ورلڈ کپ میں بھارت ناقابلِ شکست رہا تھا۔
آٹھ روزہ ورلڈ کپ کے میچ لاہور، فیصل آباد اور گجرات میں منعقد ہوئے تھے۔ اس کپ میں کینیڈا، برطانیہ، ایران، سیرالیون، آسٹریلیا، آزربائیجان اور جرمنی کی ٹیموں نے بھی حصہ لیا تھا۔
ان تمام ٹیموں میں پاکستان کی ٹیم فاتح قرار پائی۔ بھارت نے بعد میں کہا کہ پاکستان سے شکست کھانے والی ٹیم ایک غیر مجاز اسکواڈ کا حصہ تھی لیکن ظاہر ہے کہ اس بات کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ تاہم پاکستان میں کبڈی کے کھیل کی مخدوش حالت کے پیش نظر کسی کو بھی اس نتیجے کی امید نہیں تھی۔
اگرچہ پرانے کھلاڑی نوجوانوں میں ٹی وی اور اسمارٹ فون کی مقبولیت کو کبڈی کے کم ہوتے ہوئے رجحان کی وجہ قرار دیتے ہیں لیکن اصل وجہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ای او ایس نے اس کھیل سے منسلک موجودہ اور سابق کھلاڑیوں سے بات کی تاکہ اس کھیل کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو سمجھا جائے۔
39 سالہ ناصر علی تو پاکستان کبڈی فیڈریشن (پی کے ایف) اور اس کی ایسوسی ایشن میں موجود افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے مطابق ’یہی لوگ نچلی سطح پر ٹیلنٹ کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر کوئی باصلاحیت کھلاڑی عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہے تو وہ اس کھلاڑی سے سفر اور دیگر اخراجات کی مد میں اتنی رقم مانگتے ہیں جس سے اس کھلاڑی کے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں‘۔ ناصر نے ہمیں بتایا کہ اگر کوئی سفر اور رہائش کے اخراجات خود برداشت نہیں کرسکتا ہو تو اس کے لیے کوئی مواقع موجود نہیں ہیں۔
تحصیل دنیاپور کے ضلع لودھراں میں پیدا ہونے والے ناصر کا کہنا تھا کہ انہیں بچپن ہی سے کبڈی کھیلنے کا شوق تھا۔ ’ہم پنجابیوں میں یہ بہت ہی مقبول کھیل ہے۔ میں 1996ء میں اپنے اسکول میں بھی کبڈی کے میچوں میں حصہ لیتا تھا۔ اس کے بعد میں نے اسپورٹس کوٹے پر 1999ء میں پاک فوج میں شمولیت حاصل کرلی‘۔
ناصر نے بتایا کہ ’ڈیپارٹمنٹل کھلاڑی معاشی طور پر مقامی کلب کے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ مستحکم ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان کی زیادہ تر توجہ صرف کھیل پر ہوتی ہے۔ انہیں پیسوں کی فکر نہیں ہوتی جو کسی مقامی کھلاڑی کے لیے سب بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی مسئلے کے سبب جنوبی پنجاب کے گاؤں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی اس کھیل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کبڈی کے ایک کھلاڑی کی غذا کے اخراجات ہر مہینے 40 ہزار روپے تک چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک کھلاڑی بغیر نوکری کے گزارا نہیں کرسکتا۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ ضلع اور یونین قونصل کی سطح پر کسی کھلاڑی کو مشاہرے کے نام پر ایک پیسہ بھی نہیں دیا جاتا۔ تاہم سرکاری دستاویزات میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ چھوٹے گاؤں اور دیہاتوں میں مقامی کھلاڑیوں کو رقم ادا ہو رہی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ مدثر منیر بھی اسپورٹس کوٹے پر فوج سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ کسی بھی حکومت کی جانب سے نچلی سطح پر کبڈی کی کوئی پذیرائی نہیں کی جاتی۔
مدثر نے بتایا کہ ’پاکستان ریلوے، پولیس، واپڈا اور دیگر ادارے تو اب اپنی کبڈی ٹیموں کو ختم کر رہے ہیں لیکن پاک فوج نے ابھی بھی اپنا ایک مضبوط اسپورٹس سیکشن بنایا ہوا ہے جس میں کبڈی بھی شامل ہے۔ میں نے ابھی تک موجودہ حکومت کی جانب سے صوبائی اور ضلعی سطح پر کبڈی اور اس کے کھلاڑیوں کی پذیرائی کے لیے کوئی کھیلوں کا فیسٹیول منعقد ہوتا نہیں دیکھا‘۔
کبڈی پنجاب کا کھیل ہے، یہ آج بھی لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ، ساہیوال اور فیصل آباد جیسے شہروں میں کھیلا جاتا ہے۔ بالائی پنجاب میں اس کھیل کے کئی بڑے اسپانسرز موجود ہیں جو کبڈی کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں لیکن جنوبی پنجاب میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔ اس کے باوجود بھی جنوبی پنجاب ماضی کے بہت سارے اچھے کبڈی کھلاڑیوں پر فخر کرسکتا ہے جن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ محمد حسین، چوہدری نعیم، افضل وڑائچ، مشتاق احمد وڑائچ، حسن عباسی، تجمل گجر، علی افسر وڑائچ اور وقاص آرائیں شامل ہیں۔
’جگّا‘ کے نام سے مشہور 72 سالہ کبڈی کے سابق کھلاڑی رشید احمد لنگ اس کھیل کے زوال کی وجہ ٹیکنالوجی کو قرار دیتے ہیں۔ ’نوجوانوں میں اب اس کھیل کا شوق نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹی وی اور موبائل پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ میرے زمانے میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو مجھے کبڈی کھیلنے سے روک سکتی‘۔
رشید احمد لنگ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اپنے گاؤں میں ہونے والے مقابلوں سے آغاز کیا اور 1975ء کے بعد سے پروفیشنل سطح پر کھیلنے لگا۔ میرا آبائی علاقہ کہروڑ پکہ میرے نام سے مشہور ہوا۔ میں نے لودھراں، ملتان، دنیاپور اور بہاولپور کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی مقابلوں میں حصہ لیا اور جیتا بھی‘۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’1975ء سے 1988ء تک میں نے کبڈی کے مقابلوں میں کئی انعامات حاصل کیے۔ اس وقت انعام کی رقم 50 سے 100 روپے کے درمیان ہی ہوتی تھی۔ جب کوئی ٹیم پوائنٹ حاصل کرتی تھی تو جشن کا سماں ہوتا تھا، ڈھول بجنے لگتے تھے، لوگ بھنگڑا ڈالنے لگتے تھے، گھوڑے ناچتے تھے اور پنجابی میں کمنٹری کرنے والے پُرجوش ہوجاتے تھے‘۔
رشید نے ہمیں بتایا کہ ان کے زمانے کے مشہور کھلاڑیوں میں سیٹھ جبار اور رانا تاج اُتیرا شامل تھے۔ ان کا قینچی والا داؤ پورے پنجاب میں مشہور تھا۔ ’سیٹھ جبار کا قینچی والا داؤ تو لاجواب تھا اور یہی ان کے اور ان کی ٹیم کی جیت کی اصل وجہ ہوتا تھا‘۔
ماضی کی ان شاندار یادوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں کبڈی کو ویسی پذیرائی نہیں ملتی جیسی پذیرائی کرکٹ اور فٹبال کو ملتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا دیہاتی طرز ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عموماً یہ کھیل دنیا بھر میں موجود پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی کھیلتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کبڈی جیسے مقامی کھیلوں کی پذیرائی کا معاملہ صرف مارکیٹنگ کے مسئلے سے بہت آگے کا ہے۔
اپنے دفاع میں بات کرتے ہوئے پاکستان کبڈی فیڈریشن کے سیکرٹری محمد سرور رانا نے ای او ایس کو بتایا کہ ’وزارتِ کھیل اور پاکستان اسپورٹس بورڈ، فیڈریشن کو فنڈز فراہم نہیں کرتے۔ پی کے ایف ضلعی سطح پر کھلاڑیوں کی مدد کرنے کے لیے اپنے طور پر فنڈز جمع کرتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ ہم تمام کھلاڑیوں تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ کئی کھلاڑی ذریعہ معاش کی تلاش میں کبڈی کو ترک کردیتے ہیں‘۔
کھلاڑیوں سے پیسوں کا تقاضہ کرنے کے الزامات کو رد کرتے ہوئے محمد سرور کا کہنا تھا کہ ’پی کے ایف نے کبھی کسی کھلاڑی سے رقم کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ ہم پاکستان اسپورٹس بورڈ اور وزارتِ کھیل کو جوابدہ ہیں۔ اگر کسی کھلاڑی کو کوئی شکایت ہے تو وہ ہمارے پاس آئے اور ہم پیسوں کا تقاضہ کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔
یہ مضمون 18 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔