‘عہدِکورونا’ کے بعد کراچی شہر میں تھیٹر کی بحالی
پوری دنیا جس عالمی وبا کی لپیٹ میں ہے، اس کا نام ‘کورونا’ ہے۔ اس کی وجہ سے تفریح اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں بھی بہت کچھ لپیٹ لیا گیا تھا، لیکن اب کئی مہینے گزرنے کے بعد احتیاطی تدابیر کے سبب قدرے سست، مگر دھیرے دھیرے زندگی معمول پر آرہی ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سنیما اسکرین خاموش اور تھیٹر کے منچ ویران ہیں، البتہ حالات کی بہتری کو محسوس کرتے ہوئے آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی نے شہر کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے تفریحی سرگرمیوں کو شروع کرنے کا ایک کامیاب فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے جبری تنہائی (لاک ڈاؤن) کے مارے ہوئے عوام نے سکھ کی سانس لی۔
کراچی میں ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی بذریعہ تھیٹر
ماہِ آزادی سے شروع ہونے والی ثقافتی سرگرمیوں میں تناسب کے لحاظ سے، کراچی میں سب سے زیادہ جس فن کی بحالی ہوئی، وہ تھیٹر ہے۔ کورونا کی وبا سے پہلے آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی نے معروف ڈراما نگار حسینہ معین کے ایک مقبول ٹیلی وژن کھیل ’ان کہی’ کو اسٹیج پر پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا، اسی سلسلے میں رواں برس، فروری میں پریس کانفرنس بھی کی تھی، لیکن کورونا کی وجہ سے سب کچھ معطل ہوگیا۔
اب کچھ حالات معمول پر آتے ہی اس کھیل کی غرض سے دوبارہ پریس کانفرنس کی گئی، جس میں حسینہ معین کے علاوہ، اس کھیل کو ماخوذ کرکے اسٹیج پر پیش کرنے والوں میں معروف اداکار ساجد حسن اور ثاقب سمیر پیش پیش رہے۔ مشہور ماڈل اور اداکارہ آمنہ الیاس بھی اس کھیل کا حصہ ہوں گی، اور وہ بھی پریس کانفرنس میں موجود تھیں۔
صدر، آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ ماضی قریب میں انور مقصود کے تھیٹر ڈرامے اور انگریزی تھیٹر میں ندا بٹ اور شاہ شرابیل نے بھی تھیٹر کے لیے شہر کی مجموعی فضا کو سازگار بنانے میں اپنی انفرادی صلاحیتوں سے بخوبی کام لیا اور تھیٹر کے منچ کو آباد کرنے میں اپنی معاونت فراہم کی۔ دیگر چھوٹے پیمانے پر تھیٹر کے ناٹک کرنے والے بھی اس کارِعمل میں شریک رہے، ان کا بھی اس ماحول کو استوار کرنے میں اہم حصہ ہے۔
تھیٹر کے 2 فیسٹیولز اور ثقافتی بہار کی آمد آمد
کورونا کے بعد اس ادارے کی سب سے متاثر کن پیشکش یکے بعد دیگرے 2 فیسٹیولز کا انعقاد ہے۔ پہلا فیسٹیول ’عوامی تھیٹر فیسٹیول’ کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس میں کراچی کے اسٹیج ڈراموں کے فنکاروں پر مبنی ڈرامے تھے۔ اس عوامی تھیٹر فیسٹیول میں 18 ستمبر سے 4 اکتوبر تک 18 کھیل مختلف زبانوں میں پیش کیے گئے، جن میں 14 کھیل اردو زبان جبکہ ایک ایک کھیل پنجابی، سرائیکی، سندھی اور میمنی زبان میں تھا۔
کورونا کی وبا کے بعد کراچی میں اس کو پہلا بڑا عوامی اجتماع کہا جاسکتا ہے، جس میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس فیسٹیول میں
- خالہ خیالوں میں،
- ایسا بھی ہوتا ہے،
- بہو ہو بہو،
- نو چانس،
- تگڑم،
- خاٹی آئیو خیرساں،
- ادھورے خواب،
- مسٹر کراچی،
- دنیا 2 نمبری،
- گھبرائیوں جو نہ آئیے،
- جوڑی نمبر وَن،
- اوپرا،
- شرارت،
- میرا ویاہ کرو،
- ہوا کی چیخ،
- شادی نہ کرنا یارو،
- بیٹی رانی اور
- یہی سچ ہے،
جیسے کھیل شامل تھے، جبکہ پرویز صدیقی، رؤف لالہ، شکیل صدیقی، ذاکر مستانہ سمیت دیگر نامور ہدایت کاروں نے ان کھیلوں کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے۔
اسی طرح دوسرا تھیٹر فیسٹیول ’کراچی تھیٹر فیسٹیول’ ہے، جس کو یکم اکتوبر سے شروع کیا گیا اور رواں مہینے، یعنی اکتوبر کی 23 تاریخ تک جاری رہے گا۔ اس فیسٹیول میں نہ صرف 23 دن بالترتیب نوجوان نسل کے ہدایت کاروں اور فنکاروں کے کھیل پیش کیے گئے بلکہ ساتھ ساتھ گفتگو اور مذاکروں کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں تھیٹر اور اس سے منسلک شعبہ جات کے تناظر میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہورہی ہے۔
ان مکالمات میں فوادخان، کاشف حسین، وجدان شاہ اور دیگر نے حصہ لیا۔ اس موقع پر جو کھیل پیش کیے گئے اور آئندہ دنوں میں بھی پیش کیے جائیں گے، ان کے نام بالترتیب،
- ہیر،
- لیڈیز ٹیلر،
- تماشا،
- راحت جاں،
- بیچارہ چور،
- لوپ،
- انویسٹی گیشن سیل،
- اسٹمپڈ،
- کھویا ہوا آدمی،
- ڈیڈ اینڈ،
- پھر مجرم کون،
- پنٹو ڈیتھ کلب،
- بیگم جان،
- لو اون سیل،
- لائٹس آؤٹ،
- مو میں تو موجود،
- بیڈروم کانورسیشن،
- عشق کے بعد،
- اڑتا تیر،
- اے ڈول ہاؤس،
- بانو اور
- گڈلک ڈارلنگ ہیں۔
ان میں سے کئی کھیل ممتاز ادیبوں کی کہانیوں سے ماخوذ کیے گئے، جن میں ناروے کے ممتاز ڈراما نگار اور ادیب ’ہنرک ابسن’ کا کھیل، جبکہ ہندوستانی ڈراما نگاروں اور ادبا، کرشن چندر، وجے ٹنڈولکر اور جاوید صدیقی کے لکھے ہوئے کھیل اور کہانیوں سے ماخوذ کھیل شامل ہیں۔
اس موقع پر ہندوستان سے جاوید صدیقی نے اپنا ویڈیو پیغام بھی جاری کیا، جس میں وہ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی سے اپنا کھیل تھیٹر فیسٹیول میں شامل ہونے پر شکریہ ادا کرتے دکھائی دیے۔ اس تھیٹر فیسٹیول میں جن پاکستانی ڈراما نگاروں، ادیبوں کے ڈرامے اور کہانیوں سے ماخوذ کھیل کھیلے گئے، ان میں سعادت حسن منٹو، کمال احمد رضوی اور اطہر شاہ خان شامل تھے۔ ان کے علاوہ دیگر کہانی نویسوں میں، نئی نسل سے تعلق رکھنے والے کہانی نویس بھی شامل تھے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی تھیٹر اکادمی
اس ادارے کے ذریعے تھیٹر کی یہ بہار ایسے ہی ایک دم نہیں آگئی، بلکہ اس کی ایک وجہ وہ تھیٹر اکادمی بھی ہے، جس کے تحت برسوں سے طلبہ کو تھیٹر کی تربیت دی جا رہی ہے اور اس اکادمی سے بہت سارے معروف نام وابستہ رہے، جن میں سرِفہرست اور ان دنوں اس اکادمی کے اعزازی صدرِ شعبہ، معروف اداکار طلعت حسین ہیں۔ جن کی سربراہی میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے دیگر ہنرمند بھی خدمات پیش کررہے اور فیضیاب ہو رہے ہیں۔
یہ اکادمی آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی ہی کا حصہ ہے، جس کو خوش اسلوبی سے چلایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے فیسٹیولز کے ذریعے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس ادارے کے حوالے سے ماضی قریب میں بھی سندھ تھیٹر فیسٹیول سمیت دیگر کئی ایسے کارنامے ہیں، جن کو پاکستان بالخصوص کراچی میں تھیٹر کے فروغ کے لیے فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
کورونا کے بعد شہر کے ثقافتی ماحول کا مختصر تجزیہ
یہ بات بہت خوشگوار ہے کہ کورونا کے بعد کراچی کی رونقیں بحال رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جس میں سندھ حکومت کا تعاون بھی دستیاب ہے۔ فیسٹیول کے افتتاحی موقع پر صوبائی وزیرِ ثقافت سردار علی شاہ نے خطاب کیا اور آرٹس کونسل کی تھیٹر اکادمی کے باصلاحیت طلبہ کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا تھا۔ دونوں فیسٹیولز کے شرکا کے لیے، کورونا کی احتیاطی تدابیر کا، آڈیٹوریم کے اندر تو خیال رکھا گیا، البتہ شرکا باہر کے مقامات پر خلاف ورزی کرتے دکھائی دیے، جس پر انتظامیہ کو سختی سے نمٹنا چاہیے۔
ان فیسٹیولز کے تناظر میں کی گئی پریس کانفرنسوں میں صدر آرٹس کونسل ‘احمد شاہ’ کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ تھیٹر کے یہ دونوں میلے صرف تفریح کی غرض سے نہیں سجائے گئے بلکہ ان کے ذریعے فنکاروں سے معاشی تعاون کرنا بھی مقصود تھا۔ دونوں فیسٹیولز میں پیش کیے جانے والے درجنوں کھیل، آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے ممبران کے لیے مفت تھے، جس کے لیے پاسز جاری کیے گئے۔
اس موقع پر بالخصوص کراچی تھیٹر فیسٹیول میں پیش کیے گئے ڈرامے وہ تھے، جو پہلے بھی ماضی میں کھیلے جاچکے ہیں، اور نئے کھیل بہت کم تھے، لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے، اس لیے یہ کوشش تحسین کے قابل ہے۔
البتہ ایک ضروری مشورہ یہ ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں جتنا تھیٹر بھی پیش کیا جاتا ہے، اس میں 90 فیصد اردو زبان میں ہوتا ہے، تو پھر اس کے دعوت نامے اور کتابچے کو انگریزی زبان میں چھاپنے کی بجائے اردو زبان میں ہونے میں کیا قباحت ہے؟ انگریزی اگر بہت ہی ضروری ہے تو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں چھاپ دیا کریں لیکن جس زبان میں کہانیاں اور کردار پیش ہو رہے ہیں، ان کو دیکھنے کی دعوت اور ان کی تفصیل بھی اسی زبان میں ہونی چاہیے۔
اسی طرح میں نے جو چند ایک کھیل دیکھے، اس میں بیک گراؤنڈ میوزک اور غیر ملکی گانوں پر رقص کا عنصر کچھ اضافی محسوس ہوا۔ یہ کلچر اردو تھیٹر والوں نے انگریزی تھیٹر والوں سے مستعار لینا شروع کیا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کیونکہ تھیٹر کے روایتی اور بنیادی اصولوں میں مکالمات کے لیے مائیک کا استعمال تک ممنوع ہے کجا ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے گیتوں پر بولی وڈ اسٹائل کا رقص کیا جائے۔ اس پر ڈراموں کے ہدایت کاروں کو غور کرنا ہوگا، جن کے کھیلوں میں اس طرح کے عناصر موجود ہیں۔
آخری بات
آخر میں اس سارے ثقافتی منظرنامے میں ایک سوال بار بار محسوس ہوتا ہے، وہ یہ کہ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے بالمقابل، سامنے سڑک پار واقع ’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس’ (ناپا) قائم ہے، جس کا تھیٹر کے فروغ اور بحالی کے لیے وفاق سے بجٹ کروڑوں میں ہے، اس کے بورڈز آف ڈائریکٹر، انتظامیہ اور فیکلٹی میں پاکستان کے بڑے بڑے جید اور مستند نام موجود ہیں۔ یہ ادارہ کس خوابِ غفلت میں ہے؟ اس نے آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی طرح اپنے تئیں کورونا کی وبا کے بعد شہر کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کوشش کیوں نہ کی؟ اور ابھی تک حالتِ سکوت میں ہے۔
ماضی کی کارکردگی بھی سامنے رکھی جائے تو مجموعی طور پر، ایک چھوٹی سی تھیٹر اکادمی رکھنے والے، آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے سامنے، تھیٹر کا یہ دیوہیکل ادارہ ‘نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس’ رفتہ رفتہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ یہ اس ادارے کے لیے لمحہ فکریہ اور آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے لیے مبارکباد کا موقع ہے۔ یاد رہے ماضی میں جب بھی نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس نے احسن کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ان کو بھی مبارک باد دی گئی۔ فی الحال تھیٹر کی بحالی کے لیے، بالخصوص عہدِ کوروناکے بعد، ان کی خاموشی ایک سنجیدہ سوالیہ نشان لیے ہوئے ہے۔